تحریر: فہد اعجاز
(نویدِصبح)
کورونہ کا مسئلہ جہاں تکٗ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو متاثر کر گیا اِس کے ساتھ طلباء اور پرائیویٹ سکول کے اساتذہ کو بھی بُری طر ح متاثر کر گیا۔ وہ طلباء جو سکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہے تھے اور سالہا سال محنت کر کے اچھے نمبرات حاصل کرنے کے خواہشمند تھے اُن کو ایسے ہی پاس کر کے اُن کے محنت کے جزبے کے ختم کر کے اُن کی محنت پر پانی پھیر دیا گیا۔ اب چلو جن طلباء نے میٹرک اور بارہویں جماعت کا امتحان دینا تھا اور نہم اور گیارہویں جماعت میں اچھے نمبرات حاصل کیے تھے وہ تو اپنی جگہ خوش نظر آتے ہیں مگر وہ جنہوں نے کم نمبر کیے تھے اُن کے تو دل ٹوٹ گئے۔ یا پھر وہ جنہوں نے نہم یا گیارہویں جماعت کاامتحان دینا تھا اُن کا آئندہ سال امتحان دینا تو جُوے کا داؤ ہوگا۔ اچھے نمبرحاصل کیے تو ٹھیک ورنہ؟؟؟ اب سوال یہ بنتا ہے کہ کیا SOPs’ ‘ کے تحت ان کا امتحان لینا ممکن نہیں تھا یا پھراِن کے زندگی کا یہ خلاء پُر کیا جا سکے گا اور کسی بھی چیز سے اِس کا مداوا ہو سکے گا یا نہیں؟؟ اِس کے علاوہ وہ طلباء جو یونیورسٹیز میں زیرِتعلیم ہیں اُن کو اب کہاں گیا ہے کہ آپ کو آن لائن لیکچرز ڈیلیورکیے جا ئیں گے۔ تو کیا یونیورسٹیز کو بھاری بھر قم فیسیں اِ س لیے ادا کی گئیں تھی؟؟ یا پھرہر کسی کے پاس اتنے سہولیات ہوں گے کہ وہ اتنے مہنگے مہنگے انٹرنیٹ پیکیچز خرید سکیں گے بلکہ یہاں تو معاملہ انتہائی سنگین ہے بہت سے ایسے طلباء بھی ہیں جن کے پاس سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ تکٗ کی سہولیات نہیں تو اُن کا کیا بنے گا؟؟ ایسے طلباء موجود ہیں جوصبح یونیورسٹی آتے وقت بڑی مشکل سے کرایے کے پیسے اکھٹے کرتے ہیں کسی کے لیے والدین، تو کوئی اپنے پڑھائی کے لئے مزدوری کر رہا ہے۔ مگر یہاں کسی نے اُن کی خبر تکٗ نہیں لی۔ پالیسی بناتے وقت یہ تکٗ نہیں سوچا گیا کہ ایسے طلباء کے لیے کوئی ‘Alternative’ ہونا چاہیئے۔ اب چلو یا تو آن لائن کلا سیز لے لی گئیں یا پھر طلباء کو امتحان کے لئے ‘Materials’ پرووائڈ کیے گئے تو کیا طلباء اِن سے مستفید ہو سکیں گے؟؟ طلباء کا بیشتر حصّہ اِس سے متاثر ہوگا اور مجھے نہیں پتہ کہ اساتذہ اُن کو بر وقت میسّر ہونگے کہ اُن کے مسائل حل کر سکیں بلکہ ایک دفعہ پھر ہم اِس پالیسی کی وجہ سے تعلیم کی اِس دوڑ میں پیچھے رہ جا ئیں گے۔ اِس لئے طلباء کی زندگی سے مذاق نہ کیا جائے یہ پرائمری جماعت کے طلباء نہیں بلکہ ہائیر کلاسیز کے طلباء ہیں جنہوں اِس کے بعد ‘Practical Life’ میں قدم رکھنا ہے۔ اِس کی وجہ سے نہ صرف کورس ورک متاثر ہوگا بلکہ اِسی طرح ‘Research’ بھی۔ اگر سب جگہوں کو کھولنے کی اجازت ہے تو ‘SOPs’ کے تحت یونیورسٹیز بھی کھول دیئے جا ئیں اِس طرح ان طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہو نے سے بچ جا ئے گا۔
اِسی طرح لاکٗ ڈاؤن سے پرائیویٹ سکول کے اساتذہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا انتہائی سفید پوش طبقہ ہیں اور کسی سے مانگٗ بھی نہیں سکتے نہ ہی راشن وغیرہ کی قطار میں کھڑا ہو سکتے ہیں۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ نجی سکول کے اساتذہ اِس لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اِن میں سے بہت سے ایسے لوگٗ ہیں جو اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں اور اُن کا گزارا صرف اِسی تنخواہ سے ہوتا ہے جو سکول اُنہیں فراہم کرتی ہے۔ اب سکول کے مالکان تو تنخواہ دینے سے رہے، اور حکومت کو ان کا کوئی خیال نہیں آیا اب یہ لوگٗ کریں، تو کیا؟؟ ابھی اگر ہم سوچیں کہ مارچ کے مہینے سے تمام ادارے بند ہیں تواب ان لوگوں کاگزارا کیسے ہو رہا ہے اور یقینا یہ لوگٗ بہت سارے معاشی مسائل کا شکار ہیں اور کوئی اِن کا پُرسانِ حال نہیں سوائے اللہ کے۔ حکومت کو اِن کے لئے کوئی معاشی پیکج کا اعلان کرنا چاہیےَ اور اِس طرح نجی سکولز کو بھی چاہیےَ کہ وہ اپنے سٹاف کی اِس مشکل گھڑی میں مدد کرے اِس لئے کہ سالہا سال ان اساتذہ کی محنت کی وجہ سے ِان کے ادارے ترقی کے منازل طے کرتے ہیں۔ لہذا مشکل کی اِس گھڑی میں اِن سفید پوش لوگوں کی مدد کر کے ِ انہیں دربدر کی ٹھوکروں اور معاشرے میں رسوائی سے بچائیں تاکہ اِن کی خودداری پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔
1,016 total views, 2 views today