سر تور فقیر
مینگورہ سے شمال مشرق کی طرف تقریبا پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر باغ ڈھیری گاوں ہے ، باغ ڈھیری کے مشہور قبرستان کودرو کا آخری حصہ ، انگریز سے لڑنے والے پشتون تاریخ کے مشہور نر ملا بختون ملا ” سر تور فقیر ” کا آخری آرام گاہ ہے ۔
پختونخوا میں جہاں انگریز حکومت کے حمایت یافتہ جاگیردار اور خوانین موجود تھے، وہاں سر تور فقیر جیسی شخصیت کو دشمنی میں ’’میڈملا‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ آپ ’’ملامستان‘‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اس عظیم مجاہد پر متعدد لوگوں نے تاریخی مقالے لکھے ہیں،جو یقیناًاس کے حق دار بھی ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے وقت کی سپر طاقت ’’برطانیہ‘‘ کو للکارا تھا۔ سوات کے ثقہ مؤرخ ڈاکٹر سلطان روم اور ڈاکٹر محمد علی دیناخیل نے ان پر تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔
سرتور فقیر کا اپنا نام سعد اللہ خان تھا۔ وہ میڈ ملا، لیونے فقیر یا ملا مستان بھی کہلایا جاتا تھا۔ برسوات میں وہ ’’سر تور فقیر‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ جنون کی حد تک انگریز حکومت کا مخالف تھا۔ اس لئے ’’ملا مستان‘‘ یا ’’لیونے ملا‘‘ کہلایا۔
سرتور فقیر بونیر کے ریگا نامی گاؤں میں 1820ء یا 1830ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حمید اللہ تھا۔بعض کتب میں اسے ’’بونیر وال ملک‘‘ بھی کہا گیا ہے۔
ان کا تعلق یوسف زئی، ملی زئی اور پھر نوریزئی قبیلے کی ایک شاخ ابازئی سے ہے ۔ سرتور فقیر جوانی میں کبڈی کے ماہر اور زبردست کھلاڑی تھے۔ انہوں نے بچپن سے مذہبی تعلیم حاصل کرنا شروع کیا ۔ مقصد حصول علم کے لیے وہ اجمیر (ہندوستان) تک گیے۔ وہاں مشائخ اکتساب فیض کیا، ہندوستان کے علاوہ افغانستان بھی گئے۔ ہندوستان کےبعد افغانستان گیے ۔ سنٹرل ایشیا تک سفر کیا اور آخرمیں مزار شریف میں مقیم ہوئے ۔ تقریبا دس سال مزار شریف میں گزار کر کابل تشریف لے گیے۔
مشہور مصنف روشن خان لکھتے ہیں کہ ان کی فوتگی کے وقت چار بیٹیاں او ر ایک چار سالہ بیٹا عمرا خان اس کے سوگواروں میں شامل تھے ۔ فتح پور (سوات) میں اس کی اولاد کے علاوہ بونیر ریگا میں بھی اس کے چار بیٹے آزاد خان، عبداللہ، مجیب اللہ اور امیر افضل تھے ۔ آزاد خان سوات آیا تھا۔ اس نے ساتال (مدین) میں رہائش اختیار کی تھی۔ عبداللہ، سرتور فقیر کی زندگی میں انتقال کر گیا تھا اور باقی دو بیٹے ریگا (بونیر) میں رہ گئے تھے ۔کانڑا میں سرتور فقیر کا ایک اور بیٹا امیر فقیر بھی تھا۔ ایک بیٹی باچا زرینہ بشام میں تھیں۔ امیر فقیر ریاست سوات کی فوج میں ایک چھوٹے درجے کا افسر تھا۔ایک بیٹا عمرا خان جو فتح پور میں رہتا تھا، 1988ء کو فوت ہوچکا ہے ۔
وہ سیدھا سادہ آدمی تھے اور سیاسی چالوں سے ناواقف تھے۔ ہندوستان کے علاقہ اجمیر اور دوسرے شہروں میں لمبا عرصہ گزارنے کے بعد جب وہ بونیر واپس آئے ، تو اس نے وہاں لوگوں کو جہاد کرنے کی ترغیب دی لیکن اس مقصد کے حصول میں ناکام رہا۔ لنڈاکی (سوات) میں قیام پذیر ہونے سے پہلے یہ مختلف علاقوں میں گھومے پھرے۔ ’’ھڈی ملا‘‘ کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔
1887ء کو اس نے لنڈاکی میں ڈیرہ ڈال دیا اور اس کی کرامات کا شہرہ ہوگیا۔ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ اس کے روابط سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ہندوستانی مجاہدین کے ساتھ تعلق بھی تھا اور افغانستان کے امیر کے ساتھ بھی۔ اور یہ امکان بھی ہے کہ ذکر شدہ ممالک کا مالی تعاون بھی اس کے ساتھ تھا۔ لنڈاکی میں اس کے ڈیرہ ڈالنے کا ذکر ایک لوک گیت میں ایسے ہوا ہے :
پہ لنڈاکی ورتہ دیرہ سرتور فقیر دے
ڈینگ فرنگے د زان پہ ویر دے
18جولائی 1897ء کو انگریزو ں تک یہ خبر پہنچی کہ ایک ناآشنا فقیر نے لنڈاکی میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کی کوشش میں ہے اور کہتا ہے کہ اس کی مدد کے لیے دوسری دنیا سے ایک ایسی فوج آئی ہوئی ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی۔
وہ خود بھی ایسا کرسکتے ہیں کہ کسی کو نظر نہ آئے ۔ ساتھ وہ لوگوں کو یہ بھی کہتے رہتے کہ انگریز کی گولی آپ لوگوں کو چھوے گی بھی نہیں اور پانی میں گرے گی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے کسی نے بھیجا ہے لیکن یہ نہیں کہتے کہ کس نے بھیجا ہے ۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ چار آدمی اس کی مدد کے لئے آ رہے ہیں۔ مشہور ہے کہ چار فقیر، سرتور فقیر کے خواب میں آئے تھے اور اسے جہاد کی ترغیب دی تھی جس کی وجہ سے اس نے جہاد شروع کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذکورہ چار فقیروں کے ساتھ اس کی ملاقات سونیگرام (بونیر) کے مقبرہ میں ہوئی تھی۔ انھوں نے اسے (سرتور فقیر) کو پخیر راغلے (خوش آمدید) کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم دعاگو رہیں گے اگر تم ملاکنڈ کی ذمہ داری اپنے سر لے لو۔ اس کے بعد انھوں نے سرتور فقیر کے لیے دعا مانگی اور اس نے ذمہ داری لے لی اور جھاد شروع کیا۔
سرتور فقیر کے بارے میں یہ باتیں بھی مشہور ہیں کہ ملاکنڈ کی جنگ کے وقت انہوں نے لوگوں سے کہا کہ دشمن کی طرف ریت پھینکنا اور جب لوگوں نے ایسا کیا، تو ریت نے بھڑوں کی شکل اختیار کرلی جو دشمن کے پیچھے پڑگئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاد کے وقت وہ اپنی لاٹھی دریا میں ڈالتے اور لوگوں سے کہتے کہ آنکھیں بند کرکے دریا کو عبور کریں، اور پھر جب وہ آنکھیں کھولتے ، تو دریا کے دوسرے کنارے پر خود کو کھڑا پاتے ۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ جب بھی وہ دریا پار کرتے ، تو کشتی کی مدد حاصل کرتے ۔
انگریزوں کو ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس کے ساتھ چاول کا ایک برتن تھا جس سے کئی لوگ بیک وقت سیر ہوتے تھے اور اس میں پھر بھی چاول باقی رہتا تھا۔ماہ جولائی کے وسط میں ملاکنڈ بازار سرتور فقیر کے تذکروں سے گرم تھا۔ یہ کہا جاتا تھا کہ اسلام کا سورج ایک بار پھر طلوع ہونے والا ہے اور نئے ماہ کا چاند نظر آتے ہی ایک انگریز بھی باقی نہیں رہے گا، سب واپس بھاگ چکے ہوں گے ۔ سرتور فقیر یہ بھی کہتے تھے کہ تمام فوت ہونے والے فقیر انکے پاس آئے تھے اور وہ یہ کہہ گئے تھے کہ فرنگیوں کے توپ اور بندوقوں کے منہ بند ہوجائیں گے اور ان کی گولیاں پانی کی طرح بہہ جائیں گی۔ ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ میں دریائے سوات میں چند پتھر پھینکوں گا جہاں ہر پتھر توپ کے گولے کا روپ دھار لے گا۔
۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ ’’پیراں نمی پرند، مریداں می پرانند۔‘‘ مطلب یہ کہ پیر خود نہیں اُڑتے ، مرید اُڑاکرتے ہیں۔ ملاکنڈکا جہاد بہت مشہور ہے ۔ تبھی تو اولسی ادب میں اس کے کئی ایک حوالے پائے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ اس ٹپے میں کہا جاتا ہے کہ
پہ ملاکنڈ تورہ تیارہ شوہ
ھارونہ تورہ زلوہ چے رنڑا شینہ
سرتور فقیر نے لنڈاکی سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ 26 تاریخ سنہ 1897ء کو وہ کچھ لڑکوں بالوں کے ساتھ لنڈاکی سے نیچے کی طرف روانہ ہوا۔ ان لڑکوں میں بقول اس کے ایک دہلی کا حکمران بھی تھا۔ لوگ اس کی دلیری پر انگشت بدنداں تھے اور اپنے مذہبی جذبے کی وجہ سے اس کی روحانی طاقت سے ڈر گئے ۔ وہ جتنا آگے جاتے ، لوگ اس کے ساتھ ملتے جاتے ۔
تین دنوں میں سرتور فقیر نے بیس ہزار افراد جمع کرلئے۔ یہ لشکر ایک ہزار افراد سے ہوتا ہوا ملاکنڈ میں بارہ ہزار اور چکدرہ میں آٹھ ہزار افراد تک پہنچ گیا۔ الہ ڈنڈ اور دوسرے علاقوں کے لوگ سرتور فقیر کے ساتھ مل گئے اور شام کو ملاکنڈ پہنچ گئے ۔ اس لشکر نے رات نو بجے ملاکنڈ پر ہلہ بول دیا اور کوارٹر گارڈ کو قبضے میں لے لیا اور سارے اسلحہ پر قبضہ جما لیا۔ لیوی کے ایک جمعدار نے رات کے سوا نو بجے میجر ڈین کو یہ خبر دے دی کہ قبائل ملاکنڈ تک پہنچنے والے ہیں۔ فوجی بمشکل اپنی بندوقوں تک پہنچے تھے کہ حملہ ہوگیا۔
اس دن ملاکنڈ پر جو لڑائی شروع ہوئی تھی، وہ یکم اگست تک جاری رہی تھی۔ چھبیس تاریخ کو چکدرہ پر حملہ ہوا تھااور یہ لڑائی دوم اگست تک جاری رہی تھی۔ ستائیس جولائی کو لندن اور شملہ کی سرکار کو ان حملوں کی نوعیت کا اندازہ ہوا اور انھوں نے تیس جولائی 1898ء کو ملاکنڈ فیلڈ فورس کی منظوری دے دی۔ ملاکنڈ اور چکدرہ پر حملے ایک وقت اور ایک ہی دن ہوئے تھے ۔
روشن خان لکھتے ہیں کہ ملاکنڈ کی جنگ میں اُنیس قبائلی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور انگریز فوج کا ایک کرنل، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور پانچ سو اکیس سپاہی مرگئے تھے اور ایک ہزار تیئس سپاہی زخمی ہوئے تھے ۔ اس طرح چکدرہ میں پہلے حملہ میں انگریز فوج کے دو آفیسر، سولہ سپاہی اور چھبیس سوار مرگئے تھے ۔ دوسرے حملہ میں ایک انگریز صوبیدار، ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور ایک سو دس پولیس سپاہی مرگئے تھے اور ایک سو بیس زخمی ہوگئے تھے ۔ امپیریل گزیٹر کے مطابق اس جنگ میں قبائیلیوں کے مُردوں کی تعداد تین ہزار سے کم نہ تھی اور برطانوی فوج کے تینتیس افراد مردہ اور ایک سو اسّی زخمی ہوئے تھے ۔ لیکن جیمز سپین کہتے ہیں کہ اس جنگ میں برطانوی فوج اور قبائیلی دونوں کے مردوں کی تعداد چند سو تھی۔ اس نے اس جنگ کو great tribal risingکہا ہے ، تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں کو اس جنگ میں قبائیلیوں کے مقابلے میں زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سرنزیب خان سواتی لکھتے ہیں کہ دوم اگست کو انگریزوں نے پیش قدمی کی، امان درہ پر قبضہ جمالیا اور یوں چکدرہ کا قلعہ بند کیا گیا۔ اس موقع پر پختونوں کا وہ قتل عام کیا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ سکھوں کو ہدایت دی گئی کہ بٹ خیلہ کے پختونوں سے اپنا بدلہ لیا جائے اور وہاں بھی قتل عام ہوا۔ اس جنگ میں سرتور فقیر کے ایک نائب سالار (ہندوستان کا ایک ملا) بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور سرتور فقیر زخمی ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی بھی کٹ گئی مگر وہ پھر بھی بڑی بے جگری سے لڑا۔
۔ اس جہاد میں فتح پور کے میاں دم خان جن کا نام حبیب خان جس کا والد خان بابا کے نام سے مشہور تھا اور جو اپنے قبیلے جنکی خیل کا قائد بھی تھا۔ باپ اور بیٹا سر تور فقیر کے کمان میں مصروف جہاد تھے کہ اسی اثناء میں خان بابا شہید ہوگئے۔ جب کہ سر تور فقیر 1336ہجری کو فوت ہوئے۔ میاں دم خان، خان بابا اور سر تور فقیر کی قبریں فتح پور کے جنوبی حصہ کے قبرستان میں ایک دوسرے سے پیوست واقع ہیں۔ میاں دم خان کی تاریخ پیدائش 1870ء اور وفات 1954ء ہے۔ سرتور فقیر اٹھارہ جولائی 1897ء کو جہاد کرنے نکلے تھے۔ چھبیس جولائی کو انہوں نے لنڈاکے سے تھانہ کا رخ کیا، اُس وقت ان کے ساتھ صرف چند کم عمر کے لڑکے تھے جو ہاتھوں میں جھنڈیاں اُٹھائے چل رہے تھے، لیکن راستہ میں تین چار سو یوسف زئ نوجوان ساتھ ہوگئے، تو موضع الہ ڈھنڈا، بٹ خیلہ اور پیر کورونہ سے ہوتے ہوئے قلعہ ملاکنڈ پر رات نو بجے حملہ آور ہوئے۔ انگریز لشکر نے سراسیمگی کی حالت میں سکھوں کو اس آگ جھونکا جو اکثر قتل ہوگئے۔ جہادیوں نے کواٹر گارڈ پر قبضہ کرتے ہوئے تمام اسلحہ اور بارود لوٹ لیا اور صبح تک یہ لڑائی جاری رہی۔ اس حملے میں اُنیس مجاہد شہید ہوئے۔ جب کہ ایک انگریز کرنل ایک میجر، ایک لیفٹیننٹ اور پانچ سو اکیس سپاہی مارے گئے اور ایک ہزار تیس سپاہی زخمی ہوئے۔ اسی رات سعد اللہ (سر تور فقیر) کی ہدایت پر مجاہدین قلعہ چکدرہ پر حملہ آور ہوئے۔ وہاں بھی سخت مقابلہ ہوا۔ انگریز فوج نے اٹھارہ اگست 1897ء کو جدید انتظامات کے ساتھ پھر حملہ کیا۔ قدم قدم پر غازی مدافعت کرتے رہے، تاہم اُنیس اگست کو یہ لشکر مینگورہ پہنچ گیا۔ اس میں آگے بڑھنے کی ہمت نہ رہی اور چوبیس اگست کو بریکوٹ میں قیام کرنے کے بعد واپس اپنے کیمپ کی راہ لی۔
ملک حمداللہ خان کا بیٹا سعداللہ خان عرف سرتور فقیر دورانِ سفر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ موجزن ہوا۔ اسی جذبۂ حریت کی بدولت واپس آکر بونیر کی بجائے سوات میں سکونت اختیار کی اور فتح پور میں میں رہنے لگے۔ کیوں کہ ان کے مطابق یہی جگہ لشکر تشکیل دینے کے لیے موزوں تھی۔ آپ نے لوگوں کی نفسیات کے مطابق اپنے آپ کو پیری اور بزرگی کی شکل میں آشکارا کیا،جوں ہی عقیدت مندوں میں اضافہ ہوا، تو آپ نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جہاد کیا۔ یوں 28 جولائی 1897ء کو لشکر تیار کیا اور اسی مہینے کی 26 تاریخ کو ملاکنڈ میں میجر ڈین کے کیمپ پر حملہ کیا۔ نتیجتاً انگریز فوج لوٹ مار کرتے ہوئی مینگورہ تک پہنچ گئی۔ سر تور فقیر نے شکست کھائی مگر انہوں نے اس شکست کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ ہر سال انگریزوں پر حملہ کرنے کے منصوبے بناتے تھے۔ جس سے انگریز سخت مشکلات میں گھرے ہوئے تھے۔ اس لیے ان کو مارنے کا منصوبہ تیار کیا۔ ایک خان کو رشوت دی جس نے ایک بوڑھی عورت کے ذریعے شکر کدو میں زہر ملا کر فقیر بابا کو کھلایا۔ زہر کے اثر سے وہ بیمار پڑگئے اور آخرِکار 1917ء کو یہ عظیم مجاہد ہمیشہ کے لیے اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔
مردِ مجاہد ’’سرتور فقیر‘‘ کی زندگی اور ناقابل فراموش جرأت پر لکھی گئی کتاب ’’سر تور فقیر دخپلواکی اتل‘‘ ڈاکٹر حکیم زئی کی محققانہ کوشش ہے۔ پشتون زبان کی یہ کتاب سائنسی تحقیق کے جملہ لوازمات پر پورا اترتی ہے۔
سرتور فقیر پر دوسری کتاب اردو زبان میں ’’ہریان کوٹ درگئی‘‘ کے ایک جوان سال معلم امجد علی اتمان خیل نے ’’سرتور فقیر، جنگ ملاکنڈ 1897ء کا عظیم مجاہد‘‘ کے عنوان سے تحریر کی ہے۔
یہ سر تور فقیر تھے ، جنہوں نے سوات، دیر، باجوڑ، بونیر، شانگلہ اور کوہستان کے لوگوں میں انگریز کے خلاف جہاد کا جذبہ ابھارا اور وطن کی آزادی میں بھر پور حصہ لیا۔
پہ ملاکنڈ تورہ تیارہ شوہ
ھارونہ تورہ زلوہ چی رنڑا شینہ
2,168 total views, 2 views today