تحریر ریحان خان آف کوکارئی
حالیہ کرونا وباء نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے کر زندگی کا ہر شعبہ مفلوج کر رکھا ہے دوسری جانب اس سے ہر قسم کے کاروبار سے لے کر تعلیمی اداروں تک بند ہوچکے ہیں اگر ہم صحت کے شعبے کا تذکرہ کریں خاص کر تھیلیسیمیا کاتویہاں پر ایک بڑی تعداد میں تھیلیسیمیا کے مریض موجودہیں جو لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان کے تمام بلڈ بینک میں خون کی شدید قلت پیداہوگئی اور ساتھ ہی 3 فروری 2020 میں سندھ حکومت کی تھلیسیمیا سنٹر بند کرنے پر سینکڑوں جانیں خطرے میں پڑ گئیں اور کئی بچے شہر خاموشاں میں چلے گئے کیونکہ عوام زیادہ ترخود میں کمزوری لاحق ہونے کے ڈر سے خون عطیہ نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے شدید بحران کا سامنارہاپاکستان میں ہر سال کم از کم ساٹھ ہزار خون کے بیگز درکار ہوتے ہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ مقدار مہیانہ ہوسکی اور ساتھ ہی تھلیسیمیا کے مریضوں کی شرح اموات میں اضافہ ہوا پاکستان میں تھلیسیمیا میجر کے مریضوں کی تعداد دو لاکھ پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں صرف ایک لاکھ پچاس ہزار رجسٹرڈ ہیں ہر سال 6 ہزار تھلیسیمیا کے بچے پیدا ہوتے ہیں اور تقریبا” 3 سے 7 فی صد لوگ تھیلیسیمیا مائینر کے کیریئر ہیں وجہ یہ ہے کہ جب بھی ایسی جوڑی کی شادی ہو جس میں لڑکا اور لڑکی دونوں تھیلیسیمیا مائینر کا شکار ہو تو میڈیکل ریسرچ کے مطابق 25 فی صد چانس ہے کہ اولاد تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوگی،2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تھیلیسیمیا مائینر کے کیرئیر پچیس لاکھ سے تجاوز کر گئے ہیں جو ایک خوفناک مقدار ہے، کتنی رقت آمیز بات ہے کہ ہماری حکومت نے تھیلیسیمیا کو نیشنل ہیلتھ پروگرام میں شامل نہیں کیا جس میں صرف ایڈز ملیریا اور ٹی بی شامل ہیں تھیلیسیمیا کا مرض خاص کر تھیلیسیمیا بیلٹ تک پھیلا ہوا ہے جس میں تقریبا” 62 ممالک آتے ہیں،اس بیلٹ میں بحیرہ روم کا خطہ، شمال اور مغربی افریقہ، مڈل ایسٹ اور ایشیا کے ممالک شامل ہیں جن میں ایران 1995 تک سب سے زیادہ تھیلیسیمیا کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہونے والا ملک تھا جبکہ 1995 کے بعد انہوں نے تھیلیسیمیا کے خاتمے کیلئے ٹھان لی تو اب 2015 میں ان کے مریضوں میں 90.3 فی صد کمی آئی ہے جو حیران کن ہے، رپورٹ کے مطابق ایران میں 20 ہزار کے لگ بھگ تھیلیسیمیا کیریئر ہے ان کے تھیلیسیمیا کے قابو کرنے میں دو اہم کردار ہیں،پہلا کردار علماء کرام ہیں جو نکاح نامہ کو بغیر تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے سائن نہیں کرتے اور وہ تھیلیسیمیا مایئنرز کی جوڑی کو شادی کرنے سے منع کرتے ہیں اور دوسرا کردار سرکاری ملازمین کا ہے جو تھیلیسیمیا کے مریضوں کیلئے ہر مقرر کردہ وقت پر گروپس کی شکل میں خون عطیہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے تھیلیسیمیا کے بچوں کو خون مہیا کرنے میں مشکلات نہیں ہوتی ایران کا موازنہ اگر بیلٹ کے دوسرے ممالک سے کیا جائے تو ترک،سائیپرس اور گریس میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سائیپرس میں تقریبا” 16 فی صد تھیلیسیمیا کے مریض ہیں اگر ہم تھیلیسیمیا کی مہلک بیماری پر قابو کرنے میں اہم کردار اس طرح ادا کر سکتے ہیں کہ دو تھیلیسیمیا مائینرز جوڑی کو شادی کرنے سے روکیں اور خاص کر کزن میرج کی حوصلہ شکنی کریں جس کی بدولت ہم نئے مریض پیدا کرنے سے بچ سکتے ہیں اور اگر نکاح کے وقت کسی خاص وجوہات کے بنا پر تھیلیسیمیا ٹیسٹ رہ جائے تو پھر یہ ٹیسٹ فریگنینسی کے پہلے مہینوں میں کرانا چاہئے اگر خدا نخواستہ ٹیسٹ مثبت آجاتا ہے تو بچے کی ابورشن کرانی چاہئے اس کے ساتھ ساتھ جو موجودہ مریض ہیں ان کیلئے آگاہی مہم چلانی چاہئے، اویرنیس واک، فری بلڈ گروپنگ وغیرہ اور ساتھ ہی لوگوں کو خون عطیہ کرنے کے فوائد سے آگا ہ کریں آخر میں ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کیلئے ہسپتالوں کیلئے خاص بجٹ نکالیں اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کو لوگوں کیلئے آسان بنائے۔
1,222 total views, 2 views today