تحریر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آفرین خان
خوش قسمت ھے وہ قوم جو کہ یادگار ماضی رکھتا ھے، اور وہی اقوام منزل بہ منزل ترقی کے زینےطے کرنے میں کامیاب ہوا کرتے ھیں جن کے پاس پرامید مستقبل کےلیے ایک وسیع اور واضح حکمت عملی ہوتی ھے۔ یہی دور اندیشی وسائل کو دو بالا کرکے مسائل کو شکست دینے کا اک وسیلہ بنتا ھے۔
دھشت گردی اک عالمی مسلہ ھے جو کہ پوری دنیا اس کے روک تھام کےلئے لگی ہوئی ھے۔
دھشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ہو کر سارا کیا دھرا پاکستان کے سر ڈال کر اس خطے کو دہشتگردی کا گڑھ تصور کیا گیا، جو کہ ابھی تک ہماری حکومت اور عوام دونوں اس بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
اسی طرح حال ہی میں سال دو ہزار بیس کے ابتدا میں پوری دنیا کو کرونا وائرس نے لپیٹ میں لے کر معیشیت کا پہیہ جام کر دیا اور ہمارے اس ترقی پذیر خطے کے معاشی زوال کا سبب بنا۔
ؓمگر سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ یہ وائرس ھے کیا اور کہاں سے متعارف کرایا گیا۔ جبکہ پوری دنیا کے طبی ماہرین بھی ابھی تک اس وائرس کے ویکسین متعارف کرانے میں ناکام رھے ھیں۔
اسی طرح کرونا وائرس پاکستان منتقل ہوکر یہاں عام زندگی کو مفلوج تو کر ہی چکا مگر اسکا سب سے بڑا نقصان ہمارے تعلیمی نظام میں رکاوٹ بننا تھا۔
جس پر حکومت وقت نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کو تا حکم ثانی بند کرنے پر مجبور ہوگئی تاکہ وائرس کے منتقلی کو روکا جا سکے۔
اسی دوران چھ سات مہینے گزرنےکے بعد حکومت نے اعلان کردیا کہ چند قواعد و ضواط کو مدنظر رکھ کرتعلیمی اداروں کو کھولا جائے۔ ان احتیاطی تدابیر کو sop’s کا نام دیا گیا۔ یعنی بیس سیکنڈ ہاتھوں کا دھونا، ماسک کا استعمال، فاصلہ رکھنا، مصافحہ نہ کرنا وغیرہ وغیرہ،
جسکے تحت پندرہ ستمبر کو تعلیمی ادارے کھولے گئے۔ اب سوال یہ پیداہوتا ھے کہ کیا حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی ھے کہ کرونا کی وجہ سے درپیش مسائل کا مقابلہ کیا جا سکے اور مجوزہ احتیاطی تدابیر کو عملی جامہ پہنا کر آنے والے نسلوں کے مستقبل کو مزید تاریکی سے بچایا جائے
یا ایسے ہی بلا تفریق طلبہ کے مستقبل کو امتحانی بورڈز اور محکمہ تعلیم کے خودساختہ فیصلوں کے حوالہ کرکے ان کے نظرثانی کو حتمی تصور کیا جائے گا۔
خدارا اگر واقعی یہی وائرس زندہ موجود ھے تو سکول کے بچوں کے ذریعے یہ وائرس گھروں کو منتقل ہونے کا خدشہ ھے اور ایسے حالات میں ان sop’s کا اطلاق انتہائی مشکل عمل ھے۔
جس کے لئے میری تجویز ھوگی، کہ، بہتر ہوگا کہ تعلیمی اداروں کو مستقل بنیادوں پر کھولا جائے اور طلباء اور دیگر سٹاف کو مذکورہ sop’s سے مبرا قرار دیا جائے تاکہ اس غلط فہمی سے نکل کر آنے والے نسلوں کا معیار بلند کیا جاسکے۔
1,144 total views, 2 views today