دکھِ انسانیت اور سماجی خدمات کا گم نام مجاہد قابلِ عزت محترم جناب اکرام اللہ خان .
تحریر ؛ مسرور خان
اِس اِعظیم انسان کی شخصیت پر اور اِن کے بے شمار سماجی خدمات پر تحریر لکھنا میرے جیسے ناسمجھ انسان کی بس کی بات نہیں ، پر اپنے ٹوٹی پھوٹی الفاظوں سے قابلِ احترام جناب اکرام اللہ خان کے شخصیت پر تحریر لکھنا اُن کا حق بنتا ہے ، کیونکہ جیتے جی انسان کی مثبت روئے اور مثبت کردار کا اعتراف کرنا انتہائی ضروری ہے ،
ہمارے معاشرے کا ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم جیتے جی کسی انسان کی خوبیوں کے بارے سوچتے نہیں اور نہ ہی ہم جیتے جی کسی کے مثبت کردار کی حوصلہ افزائی کرتے ، سچی تعریف تو دُور کی بات ہے اُلٹا ہم غیبت میں ماہر ہوتے ہیں ، اور جب ہم میں سے کوئی اچانک فانی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو پھر ہمیں اُن کی خوبیاں نظر آجاتے ہیں ، یار وہ بہت اچھا آدمی تھا اور تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کتنے اچھے انسان کو کُھودیا ، ہمیں ایک دوسرے خامیوں کے بجائے خوبیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، حسد ، بغص اور نفرتوں کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو دل سے عزت کرنے کی اشد ضرورت ہے ، لڑکپن میں ، میں نے کہی بار محسوس کیا تھا کہ جناب اکرام اللہ خان نے یکساں طور پر چھوٹوں اور بڑوں کی بہت عزت کرتے تھے اور اِسی خوبی کی وجہ سے وہ ہر دلِ عزیز شخصیت بن ہے ، موصوف طلبہِ علمی کی دُور میں ہمیشہ اپنے سکول کا ٹاپر رہا ہے ، انگریزی زبان بولنے میں کوئی اُن کا سانی نہیں ، جب بھی محلے علاقے میں بیرونی ملک سے کوئی تبلیغی جماعت آتا تو تبلیغی جماعت کے ساتھ بطور انگلش ترجمان کارِ خیر میں پیش پیش ہوتا ، نمازی ہونے کے ساتھ مسجد کے صفائی اور محلے کے دیگر مسائل کے حال میں ہمیشہ بزرگوں کے ساتھ رہتا تھا .
موصوف اپنے علاقے میں بے شمار خدمات کی وجہ سے کافی مقبول تھا ، عاجزی ان کی رگوں خون کی طرح دوڑو رہتی ، ہمیشہ ہر کسی سے خاندہ پیشانی سے پیش اتا ہے ، ہر کسی مدد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انہونے
کہی سال پہلے اِس بات کو ذہن نشین کیا تھا اور اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پر عمل کرنے کی یکساں طور پر ضروری ہیں ، اور شاید یہی وجہ تھا کہ
اہلِ محلہ کے تمام بزرگ خواتین اکثر اپنے پُوتوں اور بچوں کی تعلیمی مسائل کے حال کےلیے جناب اکرام صاحب کے خدمات لیتے رہے ، اور طیبی طور پر اُن کی اور اُن گھروں والوں کی خدمات قابلِ سستائش ہیں کیونکہ اِن کے فیملی میڈیکل شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ، وہ خود کالج میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک سکول استاد بھی تھا ، اہل محلہ کے بزرگ اور بزرگ خواتین ہمیشہ اکرام اللہ خان کے خدمت کے بدلے میں دعائے دیتے تھے .
ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ،
جن کے کردار سے اتی ہو صداقت کی مہک ،
اُن کی تدریس سے پھتر بھی پگھیل سکتے ہیں ،
، اور اُسی دعاوں کے اور سماجی خدمات کے بدولت
موصوف نے انگلینڈ میں اعلی تعلیم حاصل کی ، انہونے ایل ایل بی یونیورسٹی آف پشاور سے کی ، جبکہ ایم ایس سی . ایل ایل ایم کی ڈگری یونیورسٹی آف بولٹن انگلینڈ سے حاصل کی ہیں ،
اور آج کل انگلینڈ ریاستِ مانچسٹر میں رہائش پذیر ہے ، الحمداللہ اپنے سخت محنت ماں باپ اور بزرگوں کی دعاوں سے وہ ایک بہت اچھے جاب کے ساتھ مزید اعلی تعلیم حاصل کررہا ہے ، ماضی بعید میں موصوف مینگورہ میں مشھور کرکٹ آل راؤنڈر تھا ، بچپن سے کرکٹ اور کپتانی میں اُن کا بڑا تجربہ تھا ، ہم سب دوستوں نے کرکٹ اِن سے سیکھا ہے ، اکرام اللہ خان آج بھی انگلینڈ کے ریاست مانچسٹر کو کرکٹر کے طور ریفزنٹ کرتا ہے ، وہ سیاست کے میدان میں بھی کسی سے کم نہیں ، موجودہ حکومتی پارٹی سے تعلق رکھتا ، بیرونی ملک انگلینڈ میں اپنے پارٹی کے بڑے عہدے پر فائز ہے اور ریاستِ مانچسٹر کا سب سے بڑا منصب اِن کے پاس ہے . موصوف کے نشیبِ و فراز زندگی پر ایک شعر یاد آیا ، کہتا کہ
وقت سے پہلے حادثوں سے لڑا ہوں ،
میں اپنے عمر سے کہی سال بڑا ہوں .
میرے اور اکرام خان کے سیاسی نظرایات الگ الگ ہیں پر نظراتی اختلاف ہمارے دوستی میں کھبی بھی حائل نہیں ہوئے ، میں اُن سے بہت کچھ سیکھا ہے بہت ہی شفق دوست اور مخلص انسان ہے میں نے پہلے دفع تھوڑی بہت انگلش ان سے سیکھا تھا ، بہادر ہونے کے ساتھ عاجز مزاج ، خوش طبیعت انسان ہے ، پردیس میں انتہائی مصروفیات کے باوجود ہمارے ساتھ سوشل ورک میں ایسا منسلک ہے جیسے وہ ہر گھڑی ہمارے ساتھ موجود ہے ، اُن کی کوشش ہوتی ہیں کہ زیادہ تر یتموں اور بیواؤں کو پیسلیٹیٹ کیا جائے .
جناب اکرام اللہ خان ایک گم نام خدائی خدمتگار ہے انہونے ہمیشہ اللہ تعالی کی رضا کےلیے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں ، اللہ تعالی اُن کی جہدوجہد اور تمام خدمات کو اپنے دربارِ اعلی قبول فرمائے آمین ثمہ آمین ، اللہ تعالی اِس گم نام مجھاد کو دونوں کی کامیابیاں عطاء فرمائے آمین ثمہ آمین .
تحریر مسرور خان آباخیل
799 total views, 2 views today