تحریر : اسامہ رومی – سوات
مالم جبہ میں یونیورسٹی کے طلبہ کا رقص اور اس پہ ریاست کے طرف سے ایف آئی آر
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو طالبان کا نظریہ تھا وہ ہمارے ریاست کا بھی ہے، طالبان چاہتے تھے کہ سوات میں لوگ گٹن میں زندگی جئے اور وہ ریاستی اداروں کا بھی نظریہ ہے،
اور وہی نظریہ سوات میں بڑے پیمانے پر جاہل اور ان پڑھ عوام کا بھی ہے، اگر چند لڑکے لڑکیاں اپنے مرضی سے خوشی پر رقص کرتے ہیں تو سوات میں قیامت آ پڑی، کیا اس سے ملک میں بدامنی پھیل رہی ہے کیا یہ کوئی دہشت گردی ہورہی ہے کیا اب لوگ اپنے مرضی سے زندگی بھی نہیں جئے گی،
کچھ جاہل کہتے ہیں کہ جی اس سے ہمارا کلچر متاثر ہورہا ہے، تو کیا جب آپ اپنے کلچر کو لے کر پاکستان کے دیگر علاقوں میں اور یورپ کے ممالک میں جا کر زندگی گزارتے ہیں تو کبھی انہوں نے آپ کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ ہمارے کلچر کے متضاد زندگی گزار رہے ہیں، کیا انہوں نے آپ کو روکھا،
سوات کسی کی باپ کا زاتی جاگیر تو نہیں یہ ایک ملک کا حصہ ہے جس پر سارے ملک کے عوام کا حق ہے،جس طرح سوات کے لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ دنیا میں کہی پر بھی جاکر اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں، ہر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ قانون اور آئین کے اندر اپنی مرضی سے زندگی جئے،
اگر آپ دنیا کے دوسرے علاقوں میں جا کر اپنے مرضی سے زندگی گزار رہے ہیں تو باقی لوگوں کو بھی یہی حق ہے کہ وہ یہاں آکر اپنی مرضی سے زندگی گزارے
ہم نے سارا عمر طالبان اور انتہاہ پسندی کے گھٹن میں گزارا خدارا اب ہمیں حق دو کہ ہم ایک کھلے فضا میں اپنی مرضی سے زندگی گزارے ?
1,510 total views, 2 views today