سرزمین سوات اپنی قدرتی حسن اور قدرتی نظاروں سے دلربا دل آویز و دلکش تو ہے ہی لیکن اس کے باسی بھی اپنی ذہانت و فطانت اور ذہنی بالیدگی کی وجہ سے اور اپنے مخصوص تہذیب و ثقافت اور عادات و اطوار کی وجہ سے پورے ملک میں اپنی مثال آپ ہیں۔
سوات ریاست کا جہانزیب کالج اس دھرتی کو علمی طور پر اور ذہنی طور پر اسلامیہ کالج کی طرح آبیاری میں مصروف عمل ہے۔اس مادر علمی سے علم و عرفان کے چشمے سوات کے چارسو رواں دواں ہیں اور اسے سرسبزوشاداب اور منور بنا رہا ہے ۔ جب بھی اس مٹی کی بات ہوگی اس میں والی سوات و جہانزیب کالج کا حوالہ ضرور ہوگا۔
موسم بہار اپنے عروج پر تھا ہر طرف صبح کے سماں نے ماحول کو مسحورکن بنایا تھا ۔ ورکنگ فوکس گرامر سکول اینڈ کالج سوات کے سبزہ زار میں قسم قسم کے گلاب کے چنبیلی کے اور چنار و سرو کے درختوں اور پھولوں نے اپنی خوشبو سے اور اپنے قدوقامت کی درازی سے ایک طلسماتی فضا قاٸم کر رکھی تھی جس سے ہر انسانی دل ودماغ معطر ہورہے تھے اور اس ساری قدرتی و نباتاتی خوبصورتی میں شعبہ باغبانان کا بہت بڑا ہاتھ تھا جو ہمہ وقت اس کی خوبصورتی میں مشعول ہوتے تھے۔
دوسری طرف کرنل عالم شاہ نے اس تعلیمی سبزہ زار کو اعلی و ارفع معلموں سے سجا رکھا تھا جو اپنی مثال آپ تھے اور جن کی نظیر شاید کسی دوسری درسگاہ میں ملے جن میں سرفہرست مختار صاحب آف دیر منتظر صاحب مردان ظاہر گل بشردوست صوابی شیربہادر سوات سردار صاحب سوات عثمان صاحب عزیز صاحب افتحار صاحب منگلور سوات آفتاب خان اور دوسرے قدرمند سٹاف ممبران شامل تھے۔شیرین جان ہر صبح و شام اس گلدستے کو تروتازہ رکھنے کے لیے اس کی آبیاری کرتے تھے۔
ایک حسین دن کی ایک خوبصورت صبح تھی کوکارٸ و جامبیل کی بلندوبالا پہاڑوں پر جمی برف چاندنی کی طرح سورج کی کرنوں سے چمک رہی تھی اور گلاب کی مختلف اقسام اپنی خوشبو اور رنگوں سے فضا کو طلسماتی بنا رہی تھی۔گورے چھٹے بچے اپنے گود میں اپنے بیگ لیے خراماں خراماں اپنی کلاسوں کی طرف رواں دواں تھے ۔
دن اپنا آغاز کرچکی تھی اور سورج کی طرح تتلیاں پرندے اور آسمان پر بادل سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں مصروف تھے۔شاید یہ اس دن کا اعجاز تھا یا قسمت ورکنگ فوکس کہ آج اس قیمتی و خوبصورت ہار میں ایک اور سفید و مرمریں موتی کا اضافہ ہو رہا تھا۔
یہ ساری تمہید و ابتدا اس شخصیت کے لیے ہے جو اپنی صلاحیت اپنی ذہانت اپنی خوش مزاجی اپنی عاجز طبیعت اور ہنستے مسکراتے چہرے کی وجہ سے پورے خیبر پختونخواہ اور پھر پورے ملک میں جانے پہچانے لگے۔جن کانام ہی اس کی شخصیت کی عکاس ہے۔
اچانک ایک نوجوان مختار صاحب کے ہمراہ خوبصورت چارباغ کی روایتی ٹوپی پہنے خوبصورت داڑھی رکھے دونوں ہاتھ کوٹ میں ڈالے ہوٸے ایک اناڑی کی طرح حیران لیکن غور سے ہمارےگرونواح کو اور چاروں طرف لگے خوبصورت پھلوں پھولوں اور ماحول کو دیکھ رہا تھا۔
جب نوجوان نے اپنا تعارف کرایا کہ میں ہوں سبحانی اور میرا تعلق دھکوڑک چارباغ سے ہے اور میں نے حفظ قران کے ساتھ ساتھ ایم اے اردو بھی کیا ہے ۔
جب اردو کا نام لیا تو اپنی برادری کا نکلا اور جب حفظ القران کی بات کی تو دل کو لگی لیکن یہ نام سمجھنے سے قاصر رہے کہ بھلا پختونوں میں سبحانی نام کیسے ہوسکتا ہے ہاں کراچی کے ایک اداکار ہیں جن کا نام سبحانی بایونس ہے۔
خیر بات چلی ۔ گپ شپ ہوی اور زندگی کی گاڑی اپنی رفتارپر رواں دواں اگے ہی اگے بڑھتی گی ۔
اتنا تابعدار اتنا پرتیلا اتنا ماہر مضمون اور اتنی ذہانت میں نے اپنی زندگی میں کسی شحص میں نہیں دیکھی تھی۔
پوری تعلیم مدرسے سے حاصل کی لیکن اردو میں اتنے ماہر تھے کہ ایک گرامر کی کتاب بھی لکھ ڈالی ۔
ایک دفعہ جب میں ان کے ساتھ محو گفتگو تھا تو اس وقت انجنیر واحد خان اشفاق احمد اعجاز ادریس اور دوسرے لوگ بھی بیٹھے تھے جب انہوں نے اردو ادب کی قواعد پربات کی تو سب لوگ ششدر رہ گٸے اور میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گیے کیونکہ جس جگہ جس قاعدے جس قانوں کی بات کرہا تھا وہ ہم نے نہ سنا تھا نہ دیکھا تھا نہ پڑھا تھا ۔
قواعد اردو اور اردو ادب کے لخاظ سے سبحانی وقعی اپنی مثال اپ تھے ۔
میں نے ایک اور موقع پر جب کہا کہ سبحانی تیری پاٸے کا کوی استاد اردو گرامر کے حوالے سے پورے صوبے میں نہیں کیونکہ میں شعبہ اردو جامعہ پشاور کے تمام اساتذہ بشمول ڈاکٹر پروفیسر چٸیمین صابرحسین کلوروی صاحب کو جانتا ہوں تو وہ ہنسے اور محبت بھرے دونوں ہاتھو سے مجھے دبوچ لیا اور صرف اتنا کہا کہ سر جی میں نالایق بندہ اتنا کہاں اور میری اتنی اڑان کہاں۔۔۔
ورکنگ فوکس سوات سے ہر سال لوگ جہانزیب کالج سے آتے اور یہاں پر ملازمت اختیار کر تے اور پھر کچھ عرصہ بعد پروفیسر بن کرجہانزیب کالج میں بحیثیت معلم و فاتح داخل ہوتے جیسے ہمارے اجمل صاحب اختر صاحب سرحدی صاحب وغیرہ ۔
ایک دن جب سرکاری نوکری کیلیے یہ تراشا ہوا ہیرا ہمارے ہاتھوں سےنکلا تو ہم بہت اداس اور خفہ ہوٸے اور خود جاتے ہوٸے سبحانی صاحب کی آنکھیں بھی اشکبار تھیں کیونکہ اتنی محبت شاید انھیں کہیں نہیں ملی تھی اسلیے جاتے ہویے روتے ہوے ہم سے رحصت ہوے ۔
سبحانی سے کھبی کھبی ملاقات ہوتی رہتی تھی لیکن جب سوات نیوز ڈاٹ کام کے تو سط سے یہ خبر پڑھی کہ وہ سبحانی جو ورکنگ فوکس کے چھوکٹ سے نکلا سرکاری سکولوں سے ہوتا ہوا پروفیسر بنا اور پورے ملک میں گھوما پھرا اور اپنی شہرت کو چارچاند لگا دیے اج ایک ایسے سفر پرروانہ ہو ٸے جو واپسی کا سفر نہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لٸے ہم سے جدا ہوگٸے۔ا
آج سوات کا ہر طالب علم اور علم کا متلاشی سبحانی جوہر کی اس اچانک موت پر سوگوار ہے ۔
آج اردو ادب کی تاریخ کی طرح جوان مرگ اختر شیرانی سعادت حسن منٹو اور پروین شاکر کی طرح سبحانی جوہر بھی جواں مرگی کی وجہ سے اور اپنی خدمات اور اردو ادب سے محبت کی وجہ سے امر ہوگٸے۔
جب کبھی اردو قواعد کی بات ہوگی تم بہت یاد آوگے ۔۔۔
جب کبھی ورکنگ فوکس کی بات ہوگی تم یاد آوگے ۔۔۔
جب کبھی مینگورہ سے اگے جاٸیں گے تو دھکوڑک کے مقام پر تمھارا مدرسہ گھر اور تم یاد آوگے ۔۔۔
سبحانی جوہر تم بھلانے والے انسان نہیں اسی لیے بار بار یاد آوگے اور خوب یاد آوگے۔
بشردوست صوابی خیبرپختونخواہ
وٹس ایپ۔03444446484
1,203 total views, 2 views today