تحریر ؛۔ ریاض احمد
بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوگا یا نہیں اس پر بحث کرنا قبل از وقت ہوگاتاہم ہر سیاسی پارٹیاں بلدیاتی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے ۔سیاسی پارٹی کے قائدین چاہے وہ ضلعی سطح کے ہیں یا تحصیل کے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ہر غم اور خوشی میں شریک ہونا اپنے فرائض میں شمار کرتے ہیں ۔جہاں بھی جاتے ہیں وہاں پر مجلس کو بلدیاتی الیکشن میں کامیابی اور اس کے طریقے کار پر خوب گرم رکھتے ہیں ۔
سوات کی اس وقت سیاسی صورت حال یہ ہے کہ پی کے 86جو کہ پاکستان مسلم لیگ کے ممبر صوبائی اسمبلی کے جعلی ڈگری پر سپریم کورٹ نے ضمنی الیکشن کرانے کا حکم دیا جس کی وجہ سے تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں حرکت میں آگئیں ہیں اور ان کی تمام تر توجہ اسی سیٹ کے حاصل کرنے پر ہیں ۔پی کے 86سیٹ کئی ایک سیاسی پارٹیوں میں اختلافات کا سبب بنا جبکہ بعض سیاسی پارٹیوں کو متحد ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔الیکشن کمیشن نے تادم تحریر اس سیٹ پرضمنی الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے مگر اس پر الیکشن جلد از جلد کرنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔پی کے 86میں پاکستان تحریک انصاف ،عوامی نیشنل پارٹی ،جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی مظبوط پارٹیاں ہیں ۔مئی 2013میں پاکستان مسلم لیگ (ن )کے نامزد امیدوارقیموس خان نے 10687پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی ۔دوسرے نمبر پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے نامزد امیدوار علی شاہ خان ایڈوکیٹ نے 10403،تیسرے پوزیشن پر اے این پی کے نامزد امیدوار ڈاکٹر حید ر علی 10028،پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار محمد شاہی خان نے تقریباً7500جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار محمد زیب خان نے 5900 ووٹ حاصل کرکے پانچویں پوزیشن حاصل کی ۔
اس حلقے کے الیکشن کے لئے پاکستان مسلم لیگ(ن) ضلعی صدر اور سابق صوبائی امیدوار قمیوس خان نے رابطہ کر نے پر کہا کہ اس حلقے پر ہماری ماضی میں بھی گرفت مظبو ط تھی اور اب بھی ہم بھر پور مقابلہ کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ ضمنی الیکشن کے سلسلے میں پارٹی کا اہم اجلاس بلایا گیا جس میں پارٹی کے اعلیٰ قائدین شامل تھے باہمی مشاور ت کے ذریعے سردار خان کو متقفہ طور پر اس حلقے کے لئے امیدوار نامزد کیا گیا ۔سردار خان قیموس خان کے بھائی ہیں اورانہوں نے دو دففہ اپنے علاقے یوسی جانو چمکتالئی کی نظامت بھی جیتا ہے ۔اس الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چتنے میں مرکزی حکومت اہم رول ادا کرسکتی ہے کیونکہ مرکزمیں ان کی حکومت ہے اگر انہوں نے عوام کے نبض پر ہاتھ رکھا اور ان کی صحیح نشخص کی تو کامیابی ان کے قدم چھومے گی ۔ایک اور وجہ بھی ان کو کامیابی دلاسکتی ہے اگر جمعیت علماء اسلام نے ان کے ساتھ اتحاد کا مظاہر ہ کیا ۔اس حلقے پر جمعیت علماء اسلام کا اپنا ایک اثر رسوخ ہے مئی 2013کے انتخابات میں جمعیت علماء اسلام نے سخت مقابلہ کرتے ہوئے معمولی ووٹوں سے ہار گئے ۔اس ضمنی الیکشن میں زمینی حقائق بدل چکے ہیں اس بار ان کو سخت محنت کرنی ہوگی ۔اس حلقے میں اے این پی سے تعلق رکھنے والا سابق صوبائی امیدوار ڈاکٹر حید ر علی خان نے اپنی دیرنیہ پارٹی چھوڑ کر اقتدار میں موجود پاکستان تحریک انصاف کے قافلے میں شمولیت اختیار کرلی۔ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کو ناقابل تلاقی نقصان ہوا جبکہ دوسری طرف ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کو ایک شخصیت اور مظبوط خاندان کا مالک مل گیا جس کی وجہ سے پارٹی مذید ترقی کرسکتی ہے مگر دوسری طرف ان کے شمولیت کی وجہ سے پارٹی شدید اختلافات کا شکار ہوگئی ۔اس کی ایک مثال پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی جنرل سیکرٹری محمد زیب خان کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے الزام میں شوکاز نوٹس مل گیا ۔پارٹی ذرائع کے مطابق یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ ان کو پارٹی سے نکال دیا جائے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی سینئر نائب صدر اور پی کے 83کے ممبر صوبائی اسمبلی محب اللہ خان نے روزنامہ ایکسپریس کو بتاتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر حید ر علی کی شمولیت بغیر کسی شرائط ہوئی ہے ۔ٹکٹ کے حوالے سے انہوں نے اس بات کی سخت تردید کی کہ انہیں ضمتی الیکشن کو لڑنے کے لئے ٹکٹ دینے کا کوئی وعد ہ نہیں کیا ہے اس کا فیصلہ پارلیمانی بورڈ اور پارٹی چیرمین عمران خان خود کریں گے ۔پارٹی کے باخبر ذرائع کے مطابق پارٹی کے اعلیٰ قیادت نے باقاعدہ طور پر ان سے معاملات طے کی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے یہ سیٹ پی ٹی آئی کے لئے جیتا تو وزارت بھی دی جائے گی ۔اس حلقے میں ڈاکٹر حید رعلی خان کو ٹکٹ پارٹی نے جاری کیا تو پارٹی کے اندرونی اختلافات میں شدت آسکتی ہے ۔کیونکہ نظریاتی کارکن کسی بھی طور پر دوسری مرتبہ پیر اشوٹ کے ذریعے اتر کر ٹکٹ حاصل کریں ۔یاد رہے جنرل الیکشن میں این اے 29سوات 1پر پاکستان پیپلز پارٹی کو چھوڑنے والے سلیم الرحمان کو ٹکٹ جاری کیا گیا تھا ۔جس پر اس وقت بھی پارٹی کے اپنے ہی کارکنوں نے سخت مذاحمت کی تھی کیونکہ یہ پارٹی منشور کی مکمل خلاف ورزی ہے ۔پارٹی منشور کے مطا بق کسی بھی رکن جس کے پارٹی میں چھ سے ماہ سے کم عرصہ گذرہ ہواس کو پارٹی کی ٹکٹ نہیں مل سکتا۔پاکستان تحریک انصاف اپنے منشور کے مطابق ٹکٹ جاری کرنے پر عمل کرتی ہے تو ان کے ساتھ فضل وہاب عرف قجیر خان کی صورت میں ایک ہردل عزیز اور بااثر خاندان سے تعلق رکھنے والے شخصیت موجود ہے ۔ان کی قربانی پارٹی کی ترقی کے لئے ریکارڈ پر ہے ۔انہوں نے 2012میں ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں کے ساتھ اے این پی سے ناطہ توڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی ۔انہوں نے دومرتبہ بھاری اکثریت سے ناظم منتخب ہوئے ۔پارٹی نے اپنا فیصلہ قجیر خان کے حق میں دیا تو پارٹی اختلافات سے بچ سکتی ہے اور وہ اپنے منشور سے انحراف بھی نہیں کرے گی ۔جمعیت علماء اسلام (ف) کے نامزد امیدوارعلی شاہ خان ایڈوکیٹ ایک مظبوط حیثیت سے میدان میں اتر یں گے ۔ان کا کہنا ہے کہ میں نے مئی 2013کے انتخابات جیتے تھے مگر میرے ساتھ دھندلی ہوئی ۔رات کو مجھے اے سی خواہ زاخیلہ نے مبارک باد دی ہم خوشی منانے کی تیاریوں میں مصروف عمل تھے کہ صبح سویرے قیموس خان زندہ باد کے نعرے سننے کو ملے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ہماری کوئی اتحاد نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ارادہ ہے ۔
898 total views, 1 views today