چند دن پہلے ایک نجی چینل والے اینکر سوات کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری پیش کررہے تھے۔ وہ سوات کے حدود سے شروع ہوکر گاؤں کے لوگوں کے تاثرات اور دیگر مسائل اُجاگر کرتے کرتے ہمارے گاؤں آگئے۔ یہاں پر پہلا ٹاکرا اُن کا ایک نوجوان طالب علم سے ہوا۔ اینکر نے اُس سے جب پوچھا کہ تمھارے گاؤں کی کیا خاص بات مشہور ہے، تو اس نے جواب دیا: ’’یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں۔‘‘ اینکر نے کہا یہ تو سوات کے ہر گاؤں کے بارے میں بلکہ پورے پختون خوا کے متعلق کہہ سکتے ہیں۔ کوئی ایسی بات کہو، جو صرف اسی گاؤں کا طرۂ امتیاز ہو۔‘‘ لڑکے نے کہا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔ اس پر پروگرام پیش کرنے والے نے کہا: ’’تم نے تو اپنے گاؤں کو صفر سے ضرب دے دیا۔‘‘
یہ گفت گو سن کر مجھے بہت دُکھ ہوا کہ ہم سب اپنے ہی گاؤں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور نہ کسی نے جاننے کی کوشش کی۔ مجھے خود بھی کوئی خاص معلومات نہیں۔ اس لیے کہ میں سیدوشریف میں پیدا ہوا، وہیں پر پلا بڑھا۔ میرے بچے وہاں پیدا ہوئے۔ وہی ہمارا پیدائشی گاؤں ہے اور ہمیں آج بھی اس سے پیار ہے۔ مگر بہ قول شخصے: ’’آبا واجدا کے گاؤں کی تو بات ہی اور ہے۔‘‘ ہمیں بھی آخر یہیں پر لوٹ کر آنا پڑا جہاں پر ہمارے پرکھوں کی ہڈیاں دفن ہیں۔
دوسری بات جو میرے نزدیک اب بے وقت کی راگنی ہے، وہ ہے ’’مہمان نوازی۔‘‘ آج کے دور میں یہ روایت دم توڑ چکی ہے۔ پرانے وقتوں میں جب رسل و رسائل کے ذرائع نا پید تھے۔ تو اکا دُکا مسافر کسی نہ کسی گاؤں میں آنکلتا۔ ہر خیل یا قبیلے کا الگ الگ حجرہ ہوتا، تو اس کے سربراہ ہی اس طرح کے مسافر کے قیام و طعام کا فریضہ سرانجام دیتا۔ کئی عشرے گزر گئے۔ زمانہ ترقی کرتا گیا اور روایات ایک ایک کرکے دم توڑتی گئیں۔ اب حجرے رہے اور نہ وہ مسافر۔ مہمان نوازی تو یہ نہیں کہ آپ کا کوئی دوست یا رشتہ دار آئے اور آپ اس کو پرتکلف کھانا کھلائیں۔ یہ تو آپ کو خواہی نخواہی کرنا پڑے گا۔ ہمارے گاؤں کی کئی ایک شان دار روایات ہیں، مگر افسوس کہ کچھ اپنے اور کچھ غیروں کے ہاتھوں وہ مسخ کردی گئی ہیں۔ لوک داستانوں میں تو ہر کوئی ’’نیمبولا اور بیگم جان‘‘ کی رومان پرور کہانی سنائے گا۔ ’’ملا بہادر‘‘ کے طلسماتی انجام کے بارے میں بتائے گا۔ لیکن یہ کسی کو یاد نہیں رہا کہ جب ملاکنڈ کی لڑائی کے بعد برطانوی فوج نے طاقت کے اظہار (Show of power) کے لیے پوری وادی میں تھانہ سے لے کر بازار کوٹ (شانگلہ) تک مارچ کیا، تو کسی نے بھی مزاحمت نہ کی بلکہ انگریزوں کی طرف پشت کرکے خاموش کھڑے رہتے اور منھ زبانی بھی احتجاج نہیں کیا۔ صرف ابوہا ہی واحد گاؤں تھا، جہاں پر انگریز آدمی پر حملہ کیا گیا اور ایک لیفٹیننٹ کو جان سے مارا گیا۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے ’’دی اسٹوری آف دی ملاکنڈ فیلڈ فورس‘‘ مصنف سر ونسٹن چرچل‘‘ مطبوعہ 1894ء)
آج کل سوات کی قدیم بدھ دور کے آثار کی چار دانگ عالم میں شہرت پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا سب سے بیش قیمت ذخیرہ اسی گاؤں کے ارد گرد پھیلا ہوا تھا۔ اگر ہوس پرست ’’بت فرشوں‘‘ کا گروہ اس کو تاخت و تاراج نہ کرتا، تو آج یہ موہن جودڑو اور ٹیکسلا سے بھی زیادہ عالمی شہرت کا حامل ہوتا۔ اسی گاؤں کے حدود میں واقع ’’گنبدونہ‘‘ دنیا میں بھر میں اپنی نوعیت کا واحد ’’اسٹوپا‘‘ ہے۔
اسی گاؤں کے لوگوں کو آپ غیرت کے نام پر للکاریں، تو یہ کسی طاقت کے آگے نہیں جھکتے۔ حالیہ تاریخ ہی کا واقعہ ہے جب موضع کوٹہ کے ایک خان کو کسی جرم کے پاداش میں شاہی پیادے لے جارہے تھے اور وہ دہائی دے رہے تھے کہ اُن کو میاں گل (باچا صاحب) کے سپاہیوں سے آزاد کرائیں، تو صرف ’’ابوہا والے‘‘ اس کی بلاوے پر نکلے۔ شاہی پیادوں کو مار بھگایا اور اُس خان کو اپنے گاؤں بہ حفاظت پہنچا دیا۔ جس کے نتیجے میں یہ گاؤں کئی سال تک حکومت کی لاپرواہی اور عدم دل چسپی کا شکار رہا۔ پھر والئی سوات کے دور میں یہاں پر ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا۔
ہمارا گاؤں مجموعی طور پر یوسف زئ کے ’’دردانی خیل‘‘ قبیلے پر مشتمل ہے، جس کی ذیلی شاخوں میں خنڈی خیل، بی بی خیل، بسہ خیل، میاں داد خیل، فتح خان خیل اور بابکر خیل وغیرہ شامل ہیں۔ خاتون خیل، طاؤس خیل وغیرہ کوٹہ سے یہاں پر منتقل ہوگئے تھے یا بہرام خان آف کوٹہ کی خواہش پر وہاں سے آئے تھے۔ ان کے علاوہ کئی ’’آستانہ دار‘‘ لوگ بھی یہیں پر صدیوں سے آباد ہیں، جن کو لوگ بہت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان میں اخوند خیل اور مدے خیل میاں گان شامل ہیں۔
ملاؤں کی بھی کئی خاندان صدیوں سے آباد ہیں، جن کی اپنی حیثیت ہے۔ اہل کسبہ میں آہن گر، دُرزگر، اور شاخیل وغیرہ ہیں۔ یہاں کے لوگ عام طور پر مالی لحاظ سے مستحکم ہیں اور جن کی جائیدادیں نہیں، اُن کو بھی محنت مزدوری کے وافر مواقع دست یاب ہیں۔ آدھے سے زیادہ لوگ گلف ممالک میں بر سر روزگار ہیں۔ زرعی پیداوار اور میوہ جات خصوصاً آڑو، خوبانی اور پرسیمن کے باغات سے کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے۔
پھلوں کے موسم میں یہاں مردان تک سے لوگ مزدوری کے لیے آتے ہیں۔ لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی نمایاں حیثیت برقرار ہے۔
حالیہ شورش کے دور میں یہ گاؤں دوسرے علاقوں کی نسبت پر امن رہا اور سوائے دو تین شرپسندوں کے، سب نے مسلح افواج اور اپنی مٹی سے وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ اور اب بھی ہر قسم کی قربانی اور تعاون کے لیے تیار ہیں۔ اور اب اس کے کچھ منفی خصوصیات یا ’’مائینس پوائنٹس‘‘ جیسا کہ ہر معاشرہ میں خوبیوں کے ساتھ کچھ برائیاں بھی ہوتی ہیں۔
ہمارے گاؤں کی سب سے نمایاں کم زوری ’’عدم اتفاق‘‘ ہے۔ یہاں جرگہ اور قیادت کا فقدان ہے۔ کسی ایک ’’مشر‘‘ پر متفق نہیں ہوتے، ہر ایک ’’سواسیر‘‘ ہے، سیر کوئی نہیں۔ ذات پات کا نظام اتنا سخت ہے، جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اس لحاظ سے ہم ابھی تک قرون وسطیٰ میں رہ رہے ہیں۔
لوگوں کے نام بگاڑنا اور اُن کو ’’دہرے ناموں‘‘ سے پکارنا عام سی بات ہے اور اس کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی اجنبی کسی شخص کے بارے میں پوچھے، تو جواب کچھ یوں ملے گا، فلاں نام کے تو بہت سے ہیں اور اس اصلی نام کے ساتھ مختلف اضافی لاحقے لگا کر مطلوبہ شخص کا تعین کرتے ہیں۔ بعض لاحقے، تو اتنے شرم ناک ہوتے ہیں کہ ان کو ضبط تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔
نوجوان نسل کافی حد تک اس قسم کے لغویات سے نکلنے کے لیے کوشاں ہے اور مثبت سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہے۔ کرکٹ اور فٹ بال نوجوانوں کے پسندیدہ کھیل ہیں۔ بدقسمتی سے کبھی کبھار ان صحت مندانہ سرگرمیوں میں بھی اپنی جبلی عادت سے مجبور ہوکر مارکٹائی پر اُتر آتے ہیں اور بات کھیل کے میدان سے تھانہ کچہری تک چلی جاتی ہے۔
میں اس غیور گاؤں کے غیرت مند نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ وہ کھیل کو کھیل سمجھیں اور ’’پختو‘‘ دور کے غلیلوں اور گوپھن کی خونین مبارزت نہ بنائیں۔ اپنی سطح پر گاؤں میں اتحاد و اتفاق کی فضاء قائم کریں اور وطن کے دشمنوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملائیں۔ اپنے مسلح افواج، پولیس اورامن قائم کرنے والے دیگر اداروں کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہیں۔ منشیات سے پرہیز کریں اور کھیلوں کو فروغ دیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
*۔۔۔*۔۔۔*
1,693 total views, 2 views today