تحریر: سید عظمت شاہ عرف آیان آف کروڑہ
شانگلہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں سطح سمندر سے 9000 فٹ اونچائی پر واقع ایک خوبصورت اور قدرتی حسن سے مالا مال سر سبز و شاداب ضلع ہے۔
خیبرپختونخوا میں خوبصورت علاقوں کی کمی نہیں بہت سے حسین وادیوں کو دانشوروں نے دنیا میں جنت قرار دیا ہے،ان وادیوں میں ایک وادی شانگلہ بھی ہے۔
شانگلہ منگورہ شہر سے 54 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ضلع شانگلہ کے مشرق میں ضلع بٹگرام و ضلع تور غر، مغرب میں ضلع سوات، شمال میں ضلع کوہستان جبکہ جنوب میں ضلع بونیر واقع ہے۔
وادی شانگلہ بے حد خوبصورت ہے،گھنے جنگلات،اونچے اونچے پہاڑ،گنگناتے آبشار اور ٹھنڈے چشموں نے قدرتی حسن کو اور بھی نکھار دیا ہے۔
وادی شانگلہ کو اللّٰہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔شانگلہ تک پہنچنے کے لیے خوازہ خیلہ تک مدین،بحرین روڈ پر ہی سفر کرنا پڑتا ہے،تاہم خوازہ خیلہ کہ مقام پر ایک سڑک سیدھی مدین بحرین اور کالام تک چلی گئی ہے جبکہ دو دوسری پختہ سڑک پہاڑی راستے پر مشرق کی جانب شانگلہ ٹاپ تک اوپر ہی اوپر موڑ در موڑ چلی جاتی ہے۔اس کے بعد ڈھلان شروع ہو کر الپوری کے مقام پر ختم ہو جاتی ہے۔یہ ضلع شانگلہ کا صدر مقام ہے،اور ایک حسین وہ جمیل قصبہ ہے،یہاں الپوری میں سوات یونیورسٹی برانچ،ڈگری کالج،ہائی سکول،ہسپتال ٹیلی فون ایکسچینج اور ضلعی دفاتر ہیں۔پشتو زبان کے مشہور صوفی شاعر حافظ الپورئی کا مزار بھی کوزہ الپوری کے مقام پر ہے۔جس کو ڈاکٹر عباد اللہ نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کیا تھا۔
الپوری سے پہلے بورڈ نامی ایک مقام آتا ہے جہاں سے ایک سڑک سیدھی الپوری تک پہنچتی ہے جبکہ دوسری سڑک جنوب کی طرف یخ تنگے کی جانب مڑ گئی ہے۔یخ تنگے میں چار سے چھ ماہ تک مکمل طور پر برف پڑی رہتی ہیں،اور سخت گرمی میں بھی یہاں پر آنے والے کو سردی محسوس ہوتی ہے،اس علاقے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ پہاڑوں سے نکلنے والے پانیوں کو وہاں کے باشندوں نے ایک ٹینکی نما خوص میں جمع کیا ہوا ہوتا ہے،اور اس میں فروٹ،کولڈرنکس رکھ کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے،یہ اتنا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ اس کو کھانا یا پینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔
اس سڑک پر آپ جوں ہی قدم رکھیں گے،وہاب خیل کوٹکے کی ایک خوبصورت آبشار آپ کو دعوتِ نظارہ دیتی نظر آئے گی۔
الپوری سے آگے بیلے بابا کا ایک خوبصورت بازار آتا ہے جس میں زندگی کی بنیادی ضرورت کی اشیاء بآسانی مل سکتی ہیں،بیلی بابا سے آگے ڈھیرئی کا ایک خوبصورت بازار آتا ہے۔
ڈھیرئی سے آگے ایک حسین و جمیل قصبہ کروڑہ آتا ہے،کروڑہ کا ایک طویل بازار آتا ہے،جس میں زندگی کی بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء بآسانی مل سکتی ہے۔آس پاس تمام علاقوں کے لوگ اس بازار سے اشیاء کی خرید وفروخت کرتے ہیں۔
یہ بازار بہت پرانا تاریخ مقام رکھتا ہے۔
والی سوات کے حکومت تک کروڑہ بازار شانگلہ پار کا ایک مشہور بازار ہوا کرتا تھا۔منگورہ کے بعد یہ دوسرا بڑا بازار تھا جس میں لوگ کوہستان اور دوسرے علاقوں سے پیدل اور گھوڑوں پر سوار ہو کر اشیاء کی خرید و فرخت کے لیے یہاں آتے۔
کروڑہ کے مقام پر سڑک تین حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔یہ سڑک شمالاً شاہپور،داموڑئی اور اجمیر تک،جنوباً یہ سڑک چکیسر اور مارتنگ کی جانب چلی گئی ہیں۔جبکہ مشرق کی جانب یہ سڑک بشام جا کر دنیا کے آٹھویں عجوبے شاہراہِ ریشم کے ساتھ مل گئی ہے۔بشام ضلع شانگلہ کا ایک خوبصورت اور دلکش علاقہ ہے۔جو مینگورہ شہر سے 97 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہاں پر آپ تاریخی دریا(اباسین) کا نظارہ بھی کرسکتے ہیں،دریا سندھ بشام سے لیکر وادی جھٹکول پھر کابلگرام اور دیدل کماچ سے ہو کر تربیلا تک جاتا ہے۔
بشام بازار ضلع شانگلہ کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔یہاں پر ہرقسم کی اشیاء آپ کو مل سکتی ہے۔
بشام سے ایک راستہ کوہستان سے ہوتے ہوئے گلگت اور خنجراب کی طرف جبکہ دوسرا راستہ ہزارہ ڈویژن کی طرف چلا گیا ہے۔
ضلع سوات آنے والے اکثر سیاح سوات کی دل فریب ذیلی وادیوں کی سیر و سیاحت کے بعد واپسی میں مالاکنڈ کے راستے کی بجائے شانگلہ سے ہوتے ہوئے بشام میں شاہراہِ ریشم کے راستے ایبٹ آباد نکل جاتے،اور اسی طرح وہ کم وقت اور کم خرچ میں ہزارہ ڈویژن کی خوبصورت وادیاں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ہزارہ میں مانسہرہ سے براستہ بالاکوٹ،کاغان ویلی اور گڑھی حبیب اللہ سے مظفر آباد آزاد کشمیر اور پھر ایبٹ آباد سے نتھیاگلی،ایوبیہ اور مری جایا جا سکتا ہے۔
ضلع شانگلہ کئ وادیوں پر مشتمل علاقہ ہے۔جو رقبے کے لحاظ سے عظیم تصور نہیں کی جاسکتیں۔ضلع شانگلہ اونچے پہاڑوں،تنگ دروں،صنوبر،چیڑ،فر،پنڈرو،کیل اور دیودار کے گھنے جنگلات کی سر زمین ہے۔جنگلات لوگوں کی معاشی زندگی اور آمدن کا ذریعہ ہے۔اور کچھ دروں میں کھیتی باڑی ہوتی ہے۔
ضلع شانگلہ کا کل رقبہ 1586 مربع کیلومیٹر ہے۔دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔
کل قابل کاشت رقبہ 41750 ہیکٹرز ہے۔
یہاں کے لوگ زیادہ تر کوئلہ کان میں مزدوری کرتے اور کچھ باہر کے ممالک میں رزق حلال کمانے کی نیت سے گئے ہیں۔
وادی شانگلہ سطح سمندر سے تقریباً 2000 سے 3000 میٹر بلند ہے۔یہاں کا بلند ترین مقام کوز گنڑشال ہے جو 3440 میٹر بلند ہے اور ضلع کی انتہائی شمال میں واقع ہے۔جنگلی سبزیوں کی پیداوار کے لحاظ سے یہ علاقہ موزوں ترین تصور کیا جاتا ہے،اور یہاں پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کرنے کے کئی مواقع دستیاب ہے۔
#سیاحتی_مقامات؛
ضلع شانگلہ کے سیاحتی مقامات میں جھیل تخت بہرام خان، لوگے، اجمیر، کنڈاو، شومانو بانڈہ، کاپر بانڈہ، برج بانڈہ، شلخو سر، رنڑہ سر، پیر سر، بہادر سر، چنگا سر، شنہ ڈھیرئی،
شانگلہ ٹاپ، یخ تنگے اور ریڈار سر زیادہ مشہور ہیں۔
#انتظامی طور پر ضلع شانگلہ پانچ تحصیلوں الپوری،پوران،چکیسر،مارتنگ اور بشام پر مشتمل ہے،جبکہ آب کانا کو بھی تحصیل کا درجہ دیا گیا ہے۔
انسانی ترقی کے پیمانے میں شانگلہ کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ سب سے پسماندہ جبکہ پاکستان میں یہ دوسرا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔
#آبادی؛
2017ء مردم شماری کے مطابق شانگلہ کی کل آبادی 757812 ہے۔جس میں تحصیل الپوری کی 307382،
تحصیل پورن کی 145202، تحصیل چکیسر کی 109326، تحصیل بشام کی 105890 اور تحصیل مارتونگ کی آبادی 90012 ہے۔
یہاں پر زیادہ تر یوسفزئی، سیدان (سادات)، میاں گان، گوجر اور دوسرے پختون قبائل کے ساتھ ساتھ ہندو اور سکھ کمیونٹی بھی آباد ہیں۔
ضلع شانگلہ میں ٹوٹل 28 یونین کونسل اور 112 ویلج کونسل ہیں۔ جس میں 99.8 فیصد مسلم اور 0.02 فیصد پر غیر مسلم آباد ہیں۔
#تاریخی_لحاظ_سے؛
چکیسر اور داوت کے مقام پر قدیم یونانی اثرات دریافت ہوئی ہیں۔یہاں یہ خیال عام ہے کہ سکندر اعظم نے326 قبل مسیح میں پیر سر(دیکھو اورنس) کے مقامی لوگوں کے خلاف ایک جنگ لڑی تھی۔
تاریخی طور پر یہ مقام بدھ منڈیوں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی ہندو برادری کا بھی رہا ہے۔
سترہویں صدی تک شانگلہ ریاست کافرستان کا حصہ تھا۔کہا جاتا ہے کہ ڈوما نامی منگول نسل کی قوم یہاں پر قابض تھے۔جو بدھ مت کے پیروکار تھے۔
تقریباً 1655ء میں یوسفزئی قوم کے مشران اور دوسرے اکابرین کی قیادت میں اس علاقے کو فتح کیا گیا۔اور یہاں کے۔مقامی لوگ اباسین کوہستان کی طرف اور ٹیکسلا کی طرف بھاگ گئے۔
بعد میں سید عبد الباقی المعروف میاں باقی بابا کی سربراہی میں اباسین کوہستان میں جہاد کیا گیا اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کے دائرے داخل کر دیا گیا۔
ضلع شانگلہ ریاست کافرستان کے بعد پختونوں کا حصہ رہا۔
اور یہاں پر پہلی شرعی حکومت پختون قوم کی مدد سے سید اکبر شاہ نے بنایا۔جس کی حکومت سوات او ہزارہ پر تھی۔
پھر 1857 میں آن کی وفات کے بعد یوسفزئی قبائل نے انکے فرزند سید مبارک شاہ کو آپنا بادشاہ بنایا۔
سید مبارک شاہ کے بعد۔
سید عبد الجبار شاہ کو یوسفزئی ریاست سوات کا پہلا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔
سید عبد الجبار شاہ کے بعد میاں گل عبد الودود کو والی سوات بنایا گیا۔اور اسی طرح انکے اولاد نے ریاست سوات پر حکومت کی۔والی صاحب کے دور میں یہ علاقہ شانگلہ پار سے جانا جاتا تھا۔1969ء کو ریاست سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونے کے بعد شانگلہ کو ضلع سوات کا سب ڈویژن بنایا گیا۔اور سال 1995ء میں شانگلہ کو باقاعدہ ضلع کا درجہ دیا گیا اور الپوری کو ضلع ہیڈکوارٹر بنایا گیا۔
#ضلع_شانگلہ_کے_نمایاں_شخصیات؛
1 عظیم صوفی شاعر حافظ الپورئی،
2 آخوند سالاک بابا کابلگرامی،
3 حضرت لیونوں بابا جی المعروف کانڑ پیر صاحب،
4 حکیم ولی اللہ المعروف مارتنگ حکیم صاحب۔
5 قاضی القضاء ریاست سوات سنڈاکئی ملا المعروف کوہستان
6 مولانا خان بہادر المعروف مارتونگ باباجی،
7 شیخ القرآن مولانا افضل خان شاپوری،
8 نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی،
9 سیکرٹری ایگریکلچر اورنگزیب خان
10 سابق سنیٹر شیر محمد خان،
11 سابق ایم پی اے سلطان شام خان،
12 سابق ایم پی اے حاجی بدیع الزماں،
13 سابق ایم پی اے حاجی محمد ظاہر شاہ،
14 سابق صوبائی وزیر پیر محمد خان،
15 سابق سنیٹر مولانا راحت حسین،
16 سابق وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام،
17 صوبائی وزیر شوکت علی یوسفزئی،
18 ایم این اے ڈاکٹر عباد اللہ، 19 سابق صوبائی وزیر حاجی عبد المنعیم،
20 سابق ایم پی اے ڈاکٹر آفسر ملک،
21 سابق ایم پی اے انجینئر حامید اقبل،
22 سابق ایم پی اے محمد رشاد خان،
23 سابق ایم پی اے فضل اللہ خان،
24 ایم پی اے فیصل زیب خان۔
آن سب کے علاؤہ اور بھی بہت سے مشہور شخصیات ہیں۔
#سیاسی_لحاظ_سے؛
سیاسی لحاظ سے شانگلہ بہت زرخیز ہے۔یہاں پر سیاست کا آغاز وادی چکیسر کے خان بہادر خان نے 1956 میں کیا تھا۔اپ مغربی پاکستان قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
1972ء سے 1977ء تک وادی کانا کے شیر محمد خان سنیٹر رہے۔
1985ء سے 1987ء تک وادی میرہ کے سلطان شام خان شانگلہ کے ایم پی اے منتخب رہے،1987ء میں آن کی شہادت کے بعد آن کے بھائی حاجی محمد ظاہر شاہ نے ایم پی اے سیٹ جیت لیا۔
ایم ایم اے دور حکومت میں وادی کانا کے مولانا راحت حسین سنیٹر رہے۔
1988ء کے انتخابات میں شانگلہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
شانگلہ 1، اور شانگلہ 2.
شانگلہ_1:
(1) 1988ء سے 2007ء تک وادی پورن کے پیر محمد خان شانگلہ 1 سے کامیاب ہوتے رہے۔آپ 1997ء سے 1999ء تک صوبائی وزیر بھی رہے۔
(2)پیر محمد خان کے شہادت کے بعد ان کے فرزند فضل اللہ خان 2008ء سے 2013ء تک ایم پی اے منتخب رہے۔
(3) 2013ء سے 2018ء تک وادی پورن کے حاجی عبد المنعیم اس سیٹ پر ایم پی اے منتخب رہے،آپ وزیر اعلیٰ کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
(4)2018ء سے وادی مارتونگ کے فیصل زیب خان اس سیٹ پر کامیاب ہو کر موجودہ ایم پی اے ہے۔
#شانگلہ_2؛
(1)1988ء سے 1990 تک وادی کانا کے حاجی بدیع الزماں اس سیٹ پر کامیاب رہے۔
(2)1990ء سے 1993ء میں وادی میرہ کے حاجی محمد ظاہر شاہ اس سیٹ پر کامیاب رہے۔
(3)1993ء میں ایک بار پھر وادی کانا کے حاجی بدیع الزماں اس سیٹ پر کامیاب ہوئے،لیکن بدقسمتی سے 3/11/1994 کو سوات میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
(4)حاجی بدیع الزماں کی شہادت کے بعد ضمنی انتخابات میں آپ کے فرزند ڈاکٹر آفسر ملک اس سیٹ پر کامیاب ہوئے۔
(5)2002ء سے 2008ء تک وادی کانا کے انجینئر حامید اقبال اس سیٹ پر کامیاب رہے۔
(6)2008ء سے 2011ء تک وادی میرہ کے حاجی محمد ظاہر شاہ نے کامیابی رہے۔
(7)2011ء میں حاجی محمد ظاہر شاہ کی وفات کے بعد ان کے فرزند محمد رشاد خان نے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
2013ء الیکشن تک محمد رشاد خان نے اپنی کامیابی جاری رکھی اور 2013ء الیکشن میں کامیاب ہو کر 2018ء تک ایم پی اے منتخب رہے۔
(8) 2018ء کے الیکشن میں وادی بشام کے شوکت علی یوسفزئی نے کامیابی حاصل کی اور اس سیٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے۔
آپ
2013ء سے تا حال مختلف صوبائی وزارتوں پر بھی رہ چکے ہیں۔
#ایم_این_ایز_شانگلہ؛
(1) 2002ء سے 2013ء تک وادی پورن کے انجینئر امیر مقام شانگلہ کے ایم این اے منتخب رہے۔
آپ وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔اور موجودہ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر بھی ہے۔
(2) 2013ء سے 2018ء تک انجینئر امیر مقام کے بھائی ڈاکٹر عباد اللہ نے کامیابی حاصل کی اور ایم این اے منتخب رہے،
2018ء کی الیکشن میں ڈاکٹر عباد اللہ نے آپنی کامیابی برقرار رکھی اور تا حال آپ ضلع شانگلہ کے ایم این اے ہے۔
#شانگلہ_کہ_مسائل؛
ضلع شانگلہ کا شمار پاکستان کے سب سے پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ضلع کی بنیادی مسائل میں صحت، تعلیم، روزگار، بجلی اور سڑکیں ہیں۔
پورے شانگلہ میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں جس میں عوام کی صحیح علاج کی جا سکیں۔
شانگلہ کے عوام علاج کے لیے سوات، بٹگرام، ایبٹ آباد، پشاور اور اسلام آباد جاتے ہیں۔
ضلع شانگلہ میں تعلیمی نظام بھی بہتر نہیں، پورے ضلع میں ایک یونیورسٹی کیمپس اور چند کالجز ہیں،جو نہ ہونے کی برابر ہے۔یہاں کے طالبِ علم زیادہ تر دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں۔
ضلع شانگلہ کے 65 فیصد علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے،یہاں روڈ اکثر کچے ہے،جس کی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے۔
شانگلہ کے عوام کو بہت سے پریشانیاں ہے،اس میں ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ یہاں کی عوام روزگار کے سلسلے میں زیادہ تر اپنے گاؤں سے دور کوئلہ کان میں مزدوری کرتے ہیں اور کچھ کراچی، لاہور، پینڈی، اور اس طرح ملک کے دیگر حصوں میں آباد ہیں اور زیادہ تر پردیس میں روزگار کی غرض سے رہ رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ شانگلہ کے عوام کا سب سے بڑا مسلہ لوڈ شیڈنگ کا بھی ہے۔
شانگلہ خان خوڑ میں ایک منصوبہ بنایا گیا ہے،جس کی مدد سے 13 میگاواٹ بجلی بنتی ہے،
شانگلہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ 12 سے 18 گھنٹے ہوتی ہے۔
جبکہ خان خوڑ سے حاصل شدہ بجلی ملک کے دوسرے حصوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔
اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرا کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ان دونوں پراجیکٹس سے آب تک شانگلہ کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
حکومت وقت سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ کروڑہ ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ سے سب سے پہلے متاثرہ علاقوں کو بجلی فراہم کی جائیں اور مقامی باشندوں کو اس پراجیکٹ میں نوکریاں دی جائے۔
2,623 total views, 2 views today