تحریر شیراز حسین
انسان کا المیہ یہ ہے کہ جہاں گندگی دیکھتا ہے وہاں سے ہمیشہ دور جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچتا کہ اس کو صاف کیسے کیا جائے،14 اگست 1947 کو رات بارہ بجے ایک آواز آتی ہے کہ آپ کو پاکستان مبارک ہوں ، لوگ یہ سوچ کر خوش ہورہے تھے کہ اب ہم ایک نئی منزل کی جانب گامزن ہونگے اور پاکستان کی بقاء کی خاطر سب کچھ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوں گے، قائداعظم محمد علی جناح، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے پاکستان آزاد تو کروا دیا لیکن شاید اُن کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہم نے اس قوم کی سوچ کو کیسے غلامی سے آزاد کرنا ہے، جو قوم ستر سال بعد بھی دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہوگی، بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پاکستانی غلامی کی سوچ سے کبھی آزاد ہونگے بھی یہ نہیں، لیکن سب سے بڑی حیران ہونی کی بات یہ ہے کہ پاکستان جب آزاد ہوتا ہے تب اتنی خوشی شاید نہ تھی جتنی آج ہے کیونکہ چین پاکستان کیلئے سی پیک بنا رہا ہے، جہاں ڈھیر ساری نوکریاں ملنی ہے، ہم پاک چائینہ دوستی زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، دنیا میں ہم یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ پاک چین کی دوستی لاجواب ہے، یہ بہت اچھی بات ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اتنی مظبوط ہے کہ مستقبل کا سوپر پاور بننے والا چین کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہیں، لیکن لیکن لیکن کسی زمانے میں تو یہ نعرے بھی لگ رہے تھے کہ پاک امریکہ دوستی زندہ باد، پھر امریکہ سوپر پاور بن جاتا ہے اور پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی، لیکن تب مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ملک پاکستان کی مدد کے بغیر سوپر پاور نہیں بن سکتا، لیکن چین بھی تو سوپر پاور بننا چاہتا ہے جو پاکستان کے بغیر ممکن ہی نہیں، پاکستانی قوم سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا چین پاکستان دوستی کب تک ہوگی؟ کیا ایسٹ انڈیا کمپنی ہم بھول چکے ہیں کہ مسلمانوں سے دنیا کی حکمرانی چھن گئی تھی، آخر ایک ایسا ملک جو دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے وہ پاکستان کی مدد کیوں کرے گا؟ ایسا بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ چین سوپر پاور بننے کے تیس سال بعد یہ کہیں جو ہمیشہ سے دنیا کے ساتھ کرتا آرہا کے کہ پاکستان کے اندر پاکستان کا اپنا کیا ہے؟ سڑکیں، ہسپتال، ڈیمز، اسکولز یعنی سب کچھ چین کا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اگر وہ پھر سے ہونے لگا تو کیا پاکستانی قوم اس کیلئے ذہنی طور پر تیار ہے؟ مجھے ذرا بھی نہیں لگتا کیونکہ سی پیک میں پاکستانی قوم کیلئے بڑے خزانے نکلنے لگے ہیں جو ایک خیالی دنیا ہے، ہم پاکستانیوں کو شرم تو آتی نہیں جو اُس ملک کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں جو پاکستان کے بعد آزاد ہوا تھا، آج وہی ملک پاکستان کے اندر اپنی مفاد کے خاطر سی پیک بنا رہا ہے جس سے چین کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا، پاکستانیوں کیا کبھی ہم ایسا نہیں سوچ سکتے کہ ہمیں آزادی پہلے ملی تھی ہم کیوں نہ چین کے اندر اپنے پیسوں سے اپنی ملک کی مفاد کیلئے کچھ بنا سکیں، جس سے چائینہ والوں کو نوکریاں مل سکیں اور پاکستان کو فائدہ ہو سکیں، لیکن نہیں بھائی ہم تو نوکر پسند ہی ہے جو ہمیشہ دوسرے ملکوں کیلئے کرتے آرہے ہیں، جب پاکستان کا بچہ بچہ سیاست کا نام سن کر یہ کہتا ہوں کہ سیاستدان تو گندے ہیں۔ سیاست میں بہت خراب لوگ ہیں، اور پاکستان کے ذہین ترین بچے سیاست میں آنا نہیں چاہتے تو پھر ایسا ہی ہوگا ہم چودہ اگست کو ریلیاں نکال کر اتنا کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان زندہ باد لیکن یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ پاکستانی سوچ زندہ باد جس سوچ سے دنیا حیران ہو جائے اور پاکستان کا مستقبل تبدیل ہوکر رہ جائے، علامہ محمد اقبال کے وہ شاہین کہاں ہے جو آسمان کی بلندی پر جاکر دنیا کو حیران کر دے کہ ہم ہے اقبال کے شاہین، لیکن افسوس! شاید اقبال کے شاہین اتنی ترقی کر چکے ہیں جو شاہیِن پاکستان نہیں بلکہ ٹک ٹاکر پاکستان بن چکے ہیں، اور ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے حکمران کرپٹ ہیں ارے جب ہمیں پتہ ہی ہے کہ حکمران کرپٹ ہیں تو ہم کیوں نہیں پاکستان کا سوچتے؟ ہم کیوں نہیں سیاست میں آتے؟ ہم کیوں نہیں ان چوروں کو نکال سکتے؟ ہم اپنی سوچ کو کیوں نہیں بدل سکتے؟ ہم کب تک دوسروں سے بھیک مانگتے رہے گے؟ کب تک اپنے حکمرانوں کو گالیاں دینگے؟ آخر کب تک؟
پاکستانی قوم کے نوجواں آؤ مل کر نکلتے ہیں اقبال کا شاہین بن کر، کیونکہ کرپٹ ترین حکمران مل کر پوری قوم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن سب پاکستانی مل کر چوروں کا چور بھی سیدھے راستے پر لا سکتے ہیں۔ چلے سب ایک ہو کر پاکستان کے آزادی کے ساتھ ساتھ پاکستانی سوچ کو بھی آزاد کرتے ہیں۔
806 total views, 2 views today