تحریر ؛۔ محمد شیر علی خان
یہ جون 2021ء کے آخری ہفتے کی ایک شام تھی جب دوستوں نے جاروگو آبشار جانے کے لیے بوریا بسترباندھ لینے کا حکم صادر فرمایا۔ گرمیوں کاموسم اورایسی جگہ کی سیرجوکہ پورے ملک میں مشہورہو، لیکن تاحال ہمارے درشن کامنتظرہو، وہاں جانے کے لیے ہمارادل خوب مچل رہا تھا۔
ویسے توجانے کے لیے ہم نے نورکے تڑکے نکلنے کا وقت مقرر کیا تھا، لیکن ساتھیوں کی تیاری اور دوسرے چھوٹے موٹے کاموں نے ہمیں دیر کرا دی۔ خیر، 9 بجے کے لگ بھگ آفتاب شہباز اپنی گاڑی میں میرے پاس پہنچ گئے۔ اب انعام سیّداورمنجرہ خان کے آنے کی دیر تھی جیسے ہی وہ آئے، توفوراًہم نے رختِ سفرباندھااورمنزل کی طرح روانہ ہوئے۔
دورانِ سفرسب کھل کر آپس میں مکالمہ بازی کرتے رہے جو رفتہ رفتہ دھما چوکڑی میں بدل گئی۔ ان حالات میں ہمارے ڈرائیور صاحب (آفتاب شہباز) نے ٹیپ ریکارڈآن کردیا اور پشتوموسیقی بیک گراؤنڈ میں چلنے لگی۔ اس دوران میں ساتھی ویڈیو اور تصاویر بنانے میں مصروف ہوگئے۔ ہمارا یہ چھوٹا سا قافلہ آہستہ آہستہ اپنی منزلِ مقصود کی طرف گامزن تھا۔ کچھ دیر بعد بارش بھی شروع ہوگئی۔ ٹھنڈی ہواؤں نے ہمیں سلامی دی۔ گوالیریٔ سے آگے سرسبز و شاداب فلک بوس پہاڑ اور نیچے گہری ندی……! ہم خوب صورت نظاروں سے لطف اندوزہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔
بہا پہنچ کر ہمارے منتظر ساتھی ثناء اللہ خان شمع خیل سے ہماری ملاقات ہوگئی، یہاں تک توہماری گاڑی(بابوجی) خوب دوڑکرآئی لیکن آگے جانے سے مکرگئی۔ آگے شمع خیل صاحب نے اپنی گاڑی(فیلڈر) میں ہمیں ہماری منزل تک پہنچانے کا بیڑا اُٹھایا اور یوں ان سنگلاخ پہاڑی راستوں میں ہم مزے سے منزلِ مقصودتک پہنچ گئے۔ اب آگے پیدل جانے کا راستہ تھا۔ ہم نے بسم اللہ پڑھ کرقدم اُٹھایا۔ پیدل راستہ بھی ہم نے خوش گپیوں میں گزارا۔ سب کی خوشی دیدنی تھی۔ خاص طور پر ہمارے ساتھ آئے بچے اشفاق علی خان اور سالار خان توپھولے نہیں سما رہے تھے۔
ہم پتھریلے راستوں سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ہمیں تعجب اس وقت ہوا جب ہم نے وہاں دوشیزاؤں کو بھی محوِ سفر دیکھا۔ پھرتوسب کی تھکاوٹ ہوا ہوگئی۔ ابھی ہم نے چند ہی منٹ کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ آبشار ہمارے سامنے تھا۔ یہاں کا تو منظر ہی دیدنی تھا۔کیوں کہ آبشارسے گرتے ہوئے پانی کے چھینٹے دوردورتک پھیل رہے تھے، جس سے ہمارے کپڑے گیلے ہوگئے۔ اب تصویروں اورسیلفیوں کا دور چلا۔ دوردرازسے آئے ہوئے مرد و زن آبشار کے سحر میں مبتلا تھے ۔
یہاں راقم کو استادِ محترم ناصر بشیر صاحب کاایک جملہ یادآیا جو اُنہوں نے وادیِ نیلم کشمیر میں ایک آبشار کو دیکھ کر لکھا تھا: ’’یہ آبشار بہت بلندپہاڑوں سے گر رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بلندی پر کوئی حسینہ آسمان کی طرف لیٹی ہوئی ہے اوراس کے چاندی جیسے لمبے گھنے بال زمین کی طرف لٹکے ہوئے ہیں۔‘‘ اور بقولِ نذیر انور
چٹا مَحلول کتنا دلکش ہے
دودھیا رنگ آبشاروں کا
تیرے سیمیں بدن سے ملتا ہے
قارئین، جاروگو آبشار مینگورہ شہر سے 53 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق یہ پاکستان کی اُونچی آبشاروں میں سے ایک ہے، جس کی اُونچائی چار سو فٹ کے قریب ہے۔
ہم نے آبشارکی اُونچائی تک جانے کا پروگرام بنایا جو ہمارے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ کیوں کہ اُوپرجانے کے لیے راستہ انتہائی دشوارگزاراورکٹھن تھا۔ ہم نے توجانے کامصمم ارادہ کرلیا تھا جس پرہم سب دل ہی دل میں پچھتا بھی رہے تھے، لیکن ایک دوسرے کالحاظ رکھنے کے لیے سب خاموش رہے۔ ہم ڈرتے ڈرتے اُوپر پہنچ گئے۔ اوپر ہماری ملاقات کچھ مقامی لڑکوں سے ہوئی، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ چند منٹ کی مسافت پر بڑے بڑے دشت اورجاروگو بانڈہ واقع ہے، جس میں بیس پچیس کچے کوٹھے اور اُتنے ہی گھرانے رہائش پذیر ہیں جو عموماًموسمِ گرماگزارنے یہاں آتے ہیں۔ ان لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں۔ یہاں تک کہ سودا سلف بھی خچروں پر لے کے آتے ہیں۔ پورے علاقے میں صرف ایک پرائمری سکول ہے، جو جاروگو بانڈہ سے پانچ یا چھے کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ہے۔ غرض دیو قامت پہاڑوں کے بیچوں بیچ یہ خوب صورت اور دل کش علاقہ سیاحوں کے لیے کسی جنت سے کم نہیں، لیکن مکین بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ آبائی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ یہاں رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی مادری زبان گجری ہے۔
اگرحکومت چاہے تویہاں پر سیاحت کو فروغ دی جاسکتی ہے۔ یہاں تک سڑک کی منظوری بھی ہوچکی ہے۔
پیارے دوستو! ہم اس خوب صورت علاقے اورماحول سے سہ پہر تک لطف اندوز ہوتے رہے۔ واپسی پر دوپہر کا کھانا سہ پہر کو گل دانہ (ہوٹل کے ویٹر کا نام) کے ساتھ کھا کر اور خوب صورت یادیں دل میں لے کرگھرکی راہ لی۔ اس موقع پربھائی جیسے دوست ثناء اللہ خان شمع خیل نے ہماری بڑی خدمت کی۔
1,354 total views, 2 views today