مفتی عبدالوہاب
محترم قارئین میں گزشتہ چند روز سے یونان کے سفر پر تھا اور ابھی واپس برطانیہ پہنچ کر حالات حاضرہ کا جائزہ لینے کا موقع مل سکا۔
کچھ عرصہ قبل، مینار پاکستان پر جو واقعہ پیش آیا اور جس کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان اور اہل پاکستان کو طعن و تشنیع کی گئی، اس واقعہ کا ڈراپ سین ہوگیا۔
اس واقعہ میں موجود لڑکی، عائشہ اکرام کے دوست ریمبو کا ایک انٹرویو بھی وائرل ہوچکا ہے اور مجھے بھی بہت سے لوگوں نے بھیجا۔ اس کے علاوہ اس واقعہ پر جو پیش رفت ہوئی ہے اس حوالے سے بہت سا مواد دوستوں نے مجھے بھیجا اور پھر معلوم ہوا کہ اقرار الحسن صاحب نے بھی اس واقعہ سے متعلق معافی مانگ لی ہے۔
بیشک اللہ تعالیٰ کی ذات معاف کرنے والی ہے اور انسان کے ذاتی معاملات میں اللہ معاف کر بھی دیتا ہے۔ لیکن کچھ معاملات محض ذاتی نہیں ہوتے بلکہ ملک و ملت سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاملہ کی وجہ سے ملک، قوم اور مذہب بدنام ہورہا ہو تو یہ صرف ذاتی معاملہ نہیں رہ جاتا۔
کچھ عرصہ قبل جب مینار پاکستان لاہور میں یہ سب معاملہ ہوا تو میں نے تب بھی ایک آرٹیکل لکھا تھا اور اس پر بہت سے لوگوں نے مجھے گالم گلوچ کا نشانہ بھی بنایا۔ اگرچہ میں ایسے لوگوں کو ہنس کر معاف کردیا کرتا ہوں لیکن میرا سوال اقرار الحسن سے یہ ہے کہ کیا عائشہ اکرام نامی خاتون کا ماضی آپ کے سامنے نہیں تھا؟ اس کی ٹک ٹاک کی ویڈیوز آپ کے سامنے سے نہیں گزری تھیں؟
آپ نے اور یاسر شامی نے اس تمام معاملہ کو ہائی لائٹ کیا، کیا اس وقت حقائق آپ کے سامنے موجود نہیں تھے کہ شہرت کیلئے کچھ بھی کرنے والی اس ٹک ٹاکر کی ویڈیوز میں کیسا مواد موجود ہوتا تھا۔
کیا اب محض معافی مانگ لینے سے سارا معاملہ حل ہو جائے گا؟ آپ کی وجہ سے پاکستان اور اسلام کی جو بدنامی ہوئی اس کا جواب کون دے گا؟ آپ نے یہ معاملہ اچھالا اور اس کے بعد پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگینڈا شروع ہوگیا۔ پاکستان کو عورتوں کیلئے محفوظ نہ ہونے کا جھوٹ بولا گیا۔ اسلامی اقدار کو حملے ہوئے اور پاکستانی مردوں اور معاشرہ کو گالیاں نکالی گئیں۔ کیا یہ سب داغ محض اقرار الحسن کی معافی سے دھل جائیں گے؟
ٹھیک ہے پاکستانی معاشرہ میں برائیاں بھی موجود ہیں لیکن اس قسم کے جھوٹے واقعات کا سہارا لے کر ملک و قوم کو بدنام کرنے جیسے اوچھے ہتھکنڈوں اور سستی شہرت کے حصول کی کوشش کرنے سے بہت سے نام نہاد اینکرز اور دانشوروں کے چہروں سے نقاب اتر گئی ہے۔
میڈیا کا یہ دوغلا طبقہ اسلام اور پاکستان دشمنی میں اس حد تک چلا گیا ہے کہ جھوٹے اور پری پلان واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف مہم شروع کردی جاتی ہے۔ اس معاملہ پر حکام کی جانب سے سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ پاکستان کو اس قسم کے دوغلے لوگوں کی حرکات سے محفوظ رکھا جاسکے۔
561 total views, 2 views today