نبٌی سے محبت
1994 کی بات ہے
ہم نے اخبار کے ایک کالم میں واقعہ پڑھا کہ
“مسجد الحرام میں مقام ابراہیم وہ جگہ ہے جہاں سائل آکر خاموش کھڑے ہو جایا کرتے تھے دور سے رحمت کے دروازے پر لٹکتے پردے کی اوٹ سے کم عمر پاک بی بی فاطمہ سرکار دیکھا کرتیں اور پھر جا کر سرکار دو عالم کو بتایا کرتیں کہ اتنے سائل مقام ابراہیم پر منتظر ہیں اور پھر آقا کریمٌ حُجرے سے نکل کر جاتے اور سائلوں کی دادرسی فرماتے “
پھر کیا تھا ہمارے دل میں خواہش پیدا ہوگئی کہ ہم بھی عمرے پر جائیں گے اور مقام ابراہیم پر کھڑے ہوکر دامن دل پھیلا کر دست سوال دراز کریں گے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
ہم اُس وقت صرف ڈھائی ہزار روپے مہینہ تنخواہ کے ملازم تھے
اور عمرے کا خرچہ تب اکیس ہزار ہوا کرتا تھا
ہم نے دل میں خواہش کو پالنا شروع کر دیا
وقت گزرتا گیا
ہم شوبز میں آگئے مگر کیونکہ چھوٹے چھوٹے رول ملا کرتے تھے وہ بھی کبھی کبھار
ہم نے طے کر رکھا تھا کہ ایک نہ ایک دن آئے گا جب ہم عمرے کے لئے جائیں گے اور مقام ابراہیم پر سوالی بنکر کھڑے ہونگے
جبکہ مالی صورت حال یہ تھی کہ سترہ دن خوشحال اور تیرہ دن بد حال رہتے ، عمرے کے لئے پیسے کہاں سے آتے
روز تڑپتے کہ اللہ کوئی سبیل پیدا کردے
مگر تنگ دستی آڑے رہی
اسی آرزو میں انیس سال بیت گئے
ہماری یہ تمنا بالغ ہوگئی مگر کوئی راستہ نہ بنا
ہم نے بھی دعا مانگنی ترک نہ کی
جب بھی ناامیدی دامن گیر ہوتی ہم اپنی اماں سے اس خواہش کا اظہار کرتے اماں دلاسہ دیتی
“ فکر نہ کر افی بیٹا تیری خواہش ضرور پوری ہوگی “
اور ہم پھر سے پُر امید ہوجاتے
ایک روز اے پلس ٹی وی کے کاشف کبیر صاحب کی کال آئی کہ ڈرامہ لکھوانا ہے
ہم جا کر ملے ، فرمایا کہ حضرت سُلطان باہو سرکار کی حیات مبارکہ پر ایک ڈرامہ سیریل لکھنا ہے
ہم نے فٹ سے حامی بھر لی
کیونکہ ہمیں صوفیا اکرام سے دلی لگاؤ تھا ، ہم نے تقریبأ ہند سندھ کے سارے صوفیاء کو پڑھ رکھا تھا
ہمارے لئے یہ کام چنداں مشکل نہ تھا ، دو ہزار تیرہ جنوری میں ہم نے جبار صاحب سے پنتالیس ہزار روپے فی قسط لکھنے کا معاہدہ کیا اور ڈھائی لاکھ ایڈوانس کا چیک لیکر اے ٹی وی سے نکل آئے
ارادہ یہ کیا کہ روضہ رسول اللہ صلی للّٰہ علیہ وسلم پر بیٹھکر ڈرامے کا پہلا سین لکھیں گے
اس غرض سے عمرے کا ویزا لگوایا اور جب ٹکٹ کی باری آئی تو ہمیں ٹکٹ لاہور سے دبئی ، دبئی سے جدہ کا ملا ، افتخار ٹھاکُر کی زبانی معلوم ہوا کہ مدینہ میں ائر پورٹ بن چکا ہے ہمارے دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ پہلے مدینہ جائیں
مگر لاہور دبئی دبئی مدینہ کا ٹکٹ سولہ ہزار مہنگا تھا
ہمارے پاس اُدھار چُکا کر جو پیسے عمرے کے لئے بچے تھے اُن میں مدینہ کا ٹکٹ نہیں آ سکتا تھا
ہم نے دل پر پتھر رکھا اور جہاز پر سوار ہوگئے
ایمریٹس کی ٹکٹ تھی دبئی کے ٹرمینل تھری پر دس گھنٹے کا اسٹے تھا اُس کے بعد جدہ کی فلائٹ تھی
مگر دل میں تڑپ تھی کہ پہلے مدینہ جانا چاہئے تھا
ہم دبئی ائرپورٹ پر پچھلے سات گھنٹوں سے بیٹھے دیگر سواریوں سے ذکر کرتے رہے کہ مدینہ کی خواہش تھی مگر غربت نے پوری نہ ہونے دی کہ ہم پہلے مدینہ اترنا چاہتے تھے سرکار کے حاضری پہلے دینا چاہتے تھے مگر ۔۔
فلائٹ سے دو گھنٹے پہلے ایمریٹس ائر لائنز کی طرف سے اعلان ہوا کہ موسم کی خرابی کے باعث فلائٹ جدہ نہیں مدینہ جا رہی ہے
ہم نے اناوسمنٹ سُنی تو کانوں پر یقین نہ آیا ،
بار بار اعلان سننے کے بعد جب یقین ہوگیا کہ ہم دلی مراد پانے جا رہے ہیں تو آنسووں کا سمندر تھا اور افی میاں تھے
افی میاں کے ہاتھ میں جدہ کا بورڈنگ پاس تھا اور افی میاں مدینہ جا پہنچے ،
آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو آنسووں کی جھڑی لگ جاتی ہے
اللہ کے پیارے نبیٌ سے محبت رکھنے والے کو اللہ کیسے مدینے لے جاتا ہے
وہ جدہ کا بورڈنگ پاس آج بھی میں نے سنبھال کے رکھا ہوا ہے
باقی روداد پھر کبھی
آمد مصطفٰی ہو مبارک تمہیں
بے کسوں آسرا ہوا مبارک تمہیں
وہ سجیلا سجن آخری بت شکن
آگیا آگیا ہو مبارک تمہیں
از قلم افتخار افی
کتاب چکڑ چھولے
756 total views, 2 views today