ایک دفعہ مجنوں کو معلوم هوا کہ لیلی آ رہی ہے تو وہ اس کے استقبال کے لیے چلا- مجنوں جس اونٹنی پر سوار هوا اس کے بچے کو گهر چهوڑ گیا- راستے میں مجنوں اور اس کی اونٹنی کے درمیان کشمکش شروع ہوئی- مجنوں چاہتا تها کہ اونٹنی آگے بڑهے تاکہ لیلی کا وصال هو سکے- اونٹنی گهر کی طرف جانا چاہتی تهی تاکہ اپنے بچے کے پاس پہنچے- مجنوں کو ذرا سی غفلت هوتی تو اونٹنی پیچهے گهر کی طرف پلٹ جاتی چونکہ مجنوں کا جسم عشق سے پر تها اس لیے وہ اونٹنی کی ایسی حرکت سے بیزار هوا جاتا تها- انسان کی عقل اس کے ہر کام کی نگرانی کرتی ہے مگر مجنوں تو عشق میں بے عقل هو چکا تها- اونٹنی کو ہوش تها وہ جب دیکهتی کہ اسکی مہار ڈهیلی ہے تو فورا سمجه جاتی کہ مجنوں غافل ہے اور وہ پیچهے کی طرف چل پڑتی- جب مجنوں کو ہوش آتا وہ دیکهتا کہ اونٹنی میلوں پیچهے واپس ہو گئی ہے- مجنوں اسی حالت میں تهوڑا عرصہ رہا- پهر اس نے سوچا دو متضاد سمتوں کے عاشقوں کا باہمی سفر طے نہیں هو سکے گا- اونٹنی مجنوں کا راستہ کهوٹا کر رہی ہے اور مجنوں اونٹنی کے لیے خرابی ہے- مجنوں نے اونٹنی کو چهوڑ دیا اور خود لیلی کی طرف چل پڑا
_… دفتر چہارم’ مثنوی رومی’ مولانا جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ…_
………… ……….. ……….. ……………
اسی طرح جسم اور روح کی خواہشات جدا جدا ہے- ان دونوں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہیں- روح کی پرواز عالم بالا کی طرف ہے اور وہ عالم ملکوت کی طرف جانا چاہتی ہے- جبکہ جسم کو زمین اور زمین کی چیزیں پسند ہے- جب تک انسان جسم کی خواہشات کے پیچهے پیچهے رہتا ہے اصل مقصد حاصل نہ هو گا- حکیم سنائی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی محبت و عشق تو دنیا اور اسکی ہر چیز سے زیادہ اور بہتر ہے- جب مجنوں لیلی کے عشق میں اونٹنی کو خیر باد (چهوڑ) کہہ سکتا ہے- تو ‘ تجهے بهی اللہ کی محبت و عشق میں جسم اور اسکی سواری کو خیر باد (چهوڑ) کہہ دینا چاہیے- اللہ کے راستے کا گیند بن جا اور لڑهکتا هوا اس کے دربار تک پہنچ جا- اس سفر میں ابتداء میں تو’ تو خود کوشش کرے گا پهر اللہ تعالی کی جانب سے کشش شروع هو جائے گی- جذب خداوندی سے جو رفتار هو گی وہ محض عطائے خداوندی ہے
*کیا آج آپنے درودِ پاک پڑھا؟*
*صلی اللہ علیہ والہ وسلم*
508 total views, 2 views today