یہ عصا صرف اللہ کے بندے یعنی ابدال ھی تھامتے ہیں۔۔۔۔
دین اسلام کے دو طرح کے علم ہیں ایک کو امور تشریعی اور دوسرے کو امور تکوینی کہتے ہیں امور تشریعی تو صاف ظاہر ہے شریعت کے احکامات کو کہتے ہیں ۔۔۔
اور امور تکوینی کو سمجھنا عام انسان کے بس کی بات ھی نہیں اس امر کی حقیقت کو اللہ کے خاص برگزیدہ بندے ھی سمجھ سکتے ہیں جو نفس کے کئ کٹھن مقامات سے گزر کر فنا فی اللہ کے مقام تک پہنچتے ہیں جنہیں عارف باللہ بھی کہا جاتا ہے امور تکوینی اللہ کے خصوصی اسرار ہے اور ان اسراروں کو سمجھنے کے لیے اللہ کی ایک خاص جماعت متعین ھوتی ہے جنہیں ہم “”ابدال””کہتے ہیں۔ان کے بانی حضرت خضر علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ نے تکوینی علم دیا تھا جو آپ نے سورہ کہف میں پڑھا ھو گا یعنی آنے والے حالات کو اپنی فراسانہ نگاہ سے سمجھ کر جو کام آپ علیہ السلام نے کیے تھے کشتی توڑ دی دیوار کھڑی کر دی بچے کو قتل کر ڈالا یہ سب ان کو اللہ نے دکھایا تھا جن کا علم حضرت موسی علیہ السلام کے پاس نہیں تھا اس سے یہ مطلب نہیں کؤئ نہیں نکال سکتا کہ اولیاء غیب جانتے ہیں کیونکہ حضرت خضر خود اقرار کر رہے ہیکہ یہ سب میرے رب نے مجھے بطور محبت کے سکھایا ہے اور حضرت خضر نے حضرت موسی سے فرمایا کہ دیکھو کہ اس چڑیا نے اپنی چونچ میں سمندر سے جو پانی لیا ہمارا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس چونچ میں پڑے پانی جتنا بھی نہیں ہے۔۔ابدالین کا ایک الگ مقام ہے یعنی یہ مقام عشق میں اس قدر آگے پہنچ جاتے ہیکہ اللہ ان کے زمین کو مسخر کر دیتے ہیں زمین ان کے لیے سکڑ جاتی ہے عشق و محبت میں مخمور یہ خاص جماعت غیبانہ تعلق سے بھی قلبی کیفیت کے ذریعے سے اپنے روحانی بھائ سے ہمکلام ھو رھی ھوتی ہے حجاز مقدس میں ان کا سالانہ روحانی اجتماع ھوتا ہے عجیب عجیب حالات ھوتے ہیں ان اللہ کے دیوانوں کے۔۔۔۔۔آپ نے ایک جھلک دیکھی ھو گی جب کومر الابدال کے آگے گھوڑا رک گیا تھا۔منگولوں پر پتھر برسنے لگے اسی طرح شیخ تاپتک ایمرے کا گریبان پکڑ کر جھٹکنے والے سپاھی کو شیخ کی گھوڑے پر نگاہ ڈالنے کے بعد اسی گھوڑے نے گھسیٹ گھسیٹ کر ریزہ ریزہ کر دیا تھا یعنی نگاہ ولی میں بھی اللہ نے کیا تأثیر رکھی ہے کہ نعرہ میدان میں لگاتے ہیں اور قسطنطنیہ کی فصیلیں زمین بوس ھو جاتی ہے ۔روۓ زمین پر اللہ کے سب سے مقرب لوگ ھوتے ہیں اللہ کی معرفت انہی لوگوں کو حاصل ھوتی ہے ۔نفس امارہ۔نفس لوامہ کشف و الہام و معاینہ سیر باللہ باقی باللہ اتصال باللہ فنا فی اللہ ۔۔۔نہ جانے نفس کو شکست دینے کے لیے اور قرب الہی کے حصول کے لیے کتنے درجات سے گزرتے ہیں نفس کی ہر خواہش کو اپنے پاؤں تلے روند کر مقام ولایت تک جا پہنچتے ہیں اور جس قدر اللہ ان کو نوازتے ہیں ان کی بلکل معمولی غلطی پر بھی ان کو سخت سزا دیتے ہیں کیونکہ یہ ضابطہ ہیکہ بڑوں کی چھوٹی غلطی بھی بہت بڑی ھوتی ہے جیسے ایک اللہ کی ولی کی ہلکی سی نظر ایک عیسائ لڑکی پر پڑی تھی تو ان کے باطن سے سارے علوم غائب ھو گۓ اور وہ اس لڑکی کی محبت میں ایسے گرفتار ھوۓ کہ ان کے سور تک چرانے لگے یہ قصہ آپ سب نے سنا ھی ھو گا یعنی یہ مقام اللہ ویسے ھی نہیں عطا فرماتے ایک دنیاوی بادشاہ کا قرب پانے کے لیے کتنے جتن اٹھانے پڑتے ہیں تو اللہﷻتو بادشاہوں کے بادشاہ ہے ان کا قرب پانے کے لیے انسان کو کس قدر مشکلات سے گرنا پڑتا ہے اور یہ خاصیت صرف انسان میں ہے کہ اللہ نے پہاڑ پے تجلی ڈالی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ھو گیا جبکہ وھی تجلی حضرت موسی کے قلب اطہر پر جلوہ افروز ھو گئ۔۔۔ یہ کیفیات قلمبند کرنا یا ان احساسات کو سیاھی میں پرونا بشری طاقت سے باہر ہیں۔۔)(حضرت علی فرماتے ہیکہ ان کی تعداد دنیا میں تین سو ھوتی ھے ان کا ہیڈکواٹر شام ہے ان میں سے سات سب سے اونچے مرتبے پر ھوتے ہیں پھر ترتیب وار مقام در مقام ھوتے ہیں جب پہلے سات میں سے کوئ وفات پا جاتا ہے تو جو ان کی جگہ پر آنے کے لائق ھوتا ہے انہیں ان کے منصب پر فائز کر دیا جاتا ہے اللہ اپنے ان لاڈلوں کی وجہ سے رحمتیں نعمتیں بارشیں برساتے ہیں عذاب کو دفع فرماتے ہیں اور مسلمانوں پر رحم فرماتے ہیں ان کا وجود دنیا کے لیے باعث رحمت ہے اور یہی ابدال مکہ و مدینہ میں امام مہدی کو تلاش کریں گے)(توضیحات شرح مشکاۃ)۔۔۔اپنے بزرگوں کے واقعات پڑھا کریں عقل حیران ھو جاتی ہے کیونکہ یہ مقام ھی ایسا ہے جہاں عقل کی انتہاء اور عشق کی ابتداء ھوتی ہے تصوف و سلوک میں صرف تڑپ و عشق چلتا ہے رب معشوق اور بندہ عاشق ھوتا ہے اللہ کو پانے کے لیے دنیا کی ہر چاہت کو روند ڈالتا ہے جسے عشق الہی کی ذرا سی بھی چاشنی لگ جاۓ وہ دنیا سے بےخبر دیوانہ مجنوں ھوجاتا ہے لیکن یہ چاشنی پانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہے دنیا کی ٹھوکریں نہیں بلکہ دین کے لیے۔۔۔کوئ بھی بہادر اگر کامیاب ھوتا ہے تو اللہ کے ولی کا غلام بننے کے بعد۔۔بہت کم ایسا ھوا ہیکہ کوئ شخص اپنے نفس کی بلبوتے پے کامیاب ھوا ھو۔۔۔دین کی راہ پے چلنے کے لیے تزکیہ نفس ضروری ہے جب تک نفس کچلا نہ جاۓ شیطان پیچھا نہیں چھوڑتا۔۔اور کامل متبع سنت پیر و ولی وھی ھوتا ہے جس کی ایک ایک ادا سے سنت کی خوشبو پھوٹ رہی ھو اللہ کی اطاعت کا نور چہرے سے ٹپک رہا ھو۔۔آج کل کے کاروباری درباری مزاری مجاور نہیں جو دو سال تک غسل تک نہیں کرتے یہ صرف شیطان کے چیلے اور پیٹ کے غلام ھوتے ہیں۔۔۔۔۔
تصوف کو وھی سمجھ سکتا ہے جو عشق جانتا ھو عقل لڑانے والے اندھے کنؤوں میں ھی گرتے ہیں۔آج برصغیر پاک و ہند میں تصوف کو ایک پرانی اختراع سمجھا جاتا ہے لوگ غلط سمجھتے ہیں تنگ نظری سے دیکھتے ہیں پرانے لوگوں کا رواج سمجھتے ہیں تصوف ناپید ھوتی جا رہی ہے کیونکہ لوگوں کو عشق الہی کے مقابلے میں نفسِ شیطانی عزیز ہے ۔اور یہ اللہ والے نفس و شیطان کے خلاف ج ہ اد کرتے ہیں خواہشات کو کچلتے ہیں اور شیطان لوگوں کے لیے برے اعمال مزین کر کے انہیں گمراہ کرتا ہے یہی وجہ ہیکہ جن اسلامی رہنماؤوں یا علماء کے دل تصوف و سلوک سے خالی تھے انہوں نے اپنی قیادت اور زبان و قلم کے ذریعے بہت لوگوں کو گمراہ کیا جبکہ تصوف اسلام کا سب سے اہم ترین شعبہ ہے جب تک نفس کی پاکی نہیں ھوتی انسان اللہ کی محبت کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا۔۔۔لیکن ترکی سیکولر اسٹیٹ ھونے کے باوجود بھی اگر اسلامی اقدارپر باقی ہے تو انہیں اولیاء کی بدولت سے اور انہوں نے کس باریک بینی اور عمدہ لطافتی سے سیریز میں اصل نقشہ کھینچ کر ہمیں بتایا اس سے یہی معلوم ہوتا ہیکہ مسلمان کا دل دین کی طرف تصوف کے کٹھن رستے پر چلے بغیر راغب نہیں ھو سکتا۔اگر ارطغرل و عثمان پر اہل اللہ کا سایہ نہ ھوتا تو سلطنت کا آنا تو محال ایک شہر بھی فتح کرنا مشکل ھوتا۔۔جب دل کی سلطنت پاک ھوتی ہے تو زمینیں اپنا منہ کھول دیتی ہے۔۔ماڈرن دور کے بناسپتی لوگ اسی لیے تصوف کو بدعت کہتے ہیں کہ وہ انہیں نفس و شیطان کی راہ پے چلنے سے راحت ملتی ہے جبکہ نفس کو کچلنا دنیا بھر سے لڑنے سے مشکل ہے۔۔آپ آج مشاھدہ کر لیں نامحرموں کے بھرے بازار سے نگاہیں پست کر کے گزر جائیں تو معلوم ھو گا کہ نفس کتنا بڑا دشمن ہے اور دل پے کیا گزرتی ہے لیکن نفس کو کچلنے کے بعد جو سکینہ اللہ کی طرف سے نازل ھوتا ہے قلم لکھنے سے قاصر ہے۔۔۔۔ہم جیسے گنہگاروں پر تو صحبت اولیاء فرض ہے ہم اپنے نفس کا مقابلہ بغیر اولیا کی صحبت کے نہیں کر سکتے۔۔۔آج بھی جنید بغدادی ابراہیم ادھم بایزید بسطامی شمس تبریز مولانا رومی رحمھم اللہ جیسی روحانی شخصیتیں ہمارے ملک پاکستان میں موجود ہے ہمیں ان کی جوتیاں اٹھا کر نفس کو ذلیل کروا کے عشق الہی کی راہ پے چلنا چاہیے وگرنہ ہم نفس و شیطان کے حملوں سے بچنے کی طاقت نہیں رکھتے یہ باتیں ایسی ہیکہ ضبط میں آ ھی نہیں رہی بس اتنا کہو گا کہ عقل کے مارو کو مقام عشق اور تصوف کی حقیقت سمجھ نہیں آسکتی۔۔کیونکہ یہ تکوینی معاملات ہے۔۔۔۔۔۔اللہ ہم سب کو نفس و شیطان کے زہریلے حملوں سے بچا کر اپنے مقربین کی غلامی عطا فرماۓ اور ہمیں صحبت اولیاء و صالحین نصیب فرماۓ آمین
#علی_معاویہ۔۔
1,354 total views, 4 views today