ناصرعالم
ایک طرف جہاں زندگی تیز سے تیز تر ہوجارہی ہے تودوسری طرف لوگ اس دوڑمیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگارہے ہیں اور اس دوڑدھوپ میں وہ وقت بچانے اورپیٹ کی آگ بجھانے کیلئے فاسٹ فوڈ ہی کو ترجیح دینے لگے ہیں،راستہ چلتے فوڈپاتھ،کسی سپاٹ یا دکان سے برگر،شوارمایا دیگر اسی طرح کے کھانے کی تیار چیزیں لے کر چلتے چلتے کھا لیتے ہیں جووقتی طورپر بھوک تو مٹادیتی ہیں مگر ماہرین کے مطابق انسانی صحت کیلئے زہرقاتل ہیں جن کا استعمال کئی قسم کے امراض کا سبب بھی بن سکتا ہے مگر لگتاہے کہ یہ ریڈی میٹ کھانے ان کی مجبوری بن چکے ہیں،تاہم اس صورتحال میں لوگوں کو روایتی اور گھریلوقسم کے پکوان فراہم کرنے کیلئے مینگورہ کے رہائشی ایک شخص نے کودرین کے نام سے ٹابہ کھولا جہاں پر لوگوں کو کودرین یعنی مٹی کے برتنوں میں روایتی کھانے پیش کئے جاتے ہیں ٹابے نے کم وقت میں اتنی شہرت پائی کہ اب لوگوں نے مصروف ترین زندگی سے وقت نکال کر اس طرف کا رخ کرلیا ہے جہاں پر دوپہر سے لے کر سہ پہر تک اتنا رش نظرآتا ہے کہ مزید مہمانوں کوکافی دیر تک اپنی باری کاانتظار کرنا پڑتا ہے یہاں پر جنگلی ساگ،موسمی سبزیاں،لسی،مکھن،دیسی سرکہ واچار،سرے پائے ودیگر روایتی کھانے دستیاب ہیں جن کا مزہ مٹی کے برتن میں دوبالا ہوجاتا ہے،کھانوں،سالن اور پکوان کے ساتھ ساتھ یہاں پر پانی اور لسی بھی مٹی کے برتنوں میں ہی پیش کئے جاتے ہیں،سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے مین بازارمیں قائم اس ٹابے میں نرخ بھی اس قدر کم رکھے گئے ہیں کہ ہر عام خاص اسے آسانی کے ساتھ برداشت کرسکتا ہے جہاں پر دن بھرعام اورمڈل کلاس لوگوں کے ساتھ ساتھ اب شہرکے بڑے بڑے لوگ بھی روایتی کھانوں سے لطف اٹھاتے نظرآتے ہیں جن کا کہناہے کہ مقامی سطح پر انہیں ایسے ذائقہ دار اور کم نرخ میں کھانے میسر آنا کسی نعمت سے کم نہیں،گاہکوں کا مزید کہناہے کہ جو مزہ اورلطف کوردرین کے کھانوں میں ہیں وہ فاسٹ فوڈ اوردیگربازاری کھانوں میں ہرگزنہیں یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہومگر دوپہر کے کھانے کیلئے یہاں پہنچ جاتے ہیں،یہاں پر نہ صرف کھانے روایتی ملتے ہیں بلکہ ماحول بھی گھر جیسا ہے جہاں بیٹھ کر ان کی تھکن دور ہوجاتی ہے اور انہیں سکون ملتا ہے،کودرین کے مالک ناصرخان نے پوچھنے پر بتایا کہ کافی عرصہ سے ان کی یہ خواہش تھی کہ یہاں کے لوگوں کو ایسے روایتی کھانے اور پکوان دوں جو نہ صرف ذائقہ دار ہو بلکہ ان کی صحت پر بھی بہتراورمثبت اثر ڈال سکے کافی سوچ بچھار کے بعد یہاں پر یہ ریسٹورنٹ کھولاپہلے کم لوگ آتے تھے مگر اب رش اتنا بڑھ گیا ہے کہ اسے قابو کرنا میرے لئے مشکل ہورہاہے جبکہ اس میں روزبروز اضافہ بھی ہورہاہے اپنی سہولت کیلئے کئی افراد کو یہاں پر کام پرلگادیا جس سے وہ بھی برسرروزگار ہوگئے یہاں پر کام کرکے ان کی روزی روٹی بھی چل نکلی ہے،
ان کا مزیدکہناتھاکہ میں خود یہ کھانے گھر میں تیار کرکے ریسٹورنٹ پہنچاتاہوں اس کے علاوہ خود جاکر جنگلی ساگ اور دیگر سبزیاں،دیسی لوبیا،چھولے اپنے ہاتھ سے خرید تاہوں اسی طرح دہی،مکھن اورلسی بھی گھر میں تیار کرتاہوں،بڑھتے ہوئے رش کے پیش نظر کودرین کی دوسری شاخ کھولنے کیلئے بھی سوچ رہاہوں مگر یہاں سے فرصت ہی نہیں ملتی بعض اوقات تو جب میں صبح سالن اوردیگر اشیاء گھر سے لاتاہوں تو کئی لوگ بند ریسٹورنٹ کے سامنے انتظارمیں پاتاہوں،مجھے کافی خوشی مل رہی ہے کہ میرے ہاتھ کے تیار کردہ روایتی کھانوں کو لوگ اتنی پسند کرتے ہیں،اب تو لوگ یہاں کھاناکھا کر اپنے ساتھ پارسل بھی لے جاتے ہیں جبکہ فون پر بھی آرڈرملتے ہیں جنہیں بروقت پورا کرنا میرے لئے کافی مشکل ہے مگر لوگوں کا شوق دیکھ کر ان کی ڈیمانڈ پوری کرنے کی کوشش کرتا ہوں،ناصرخان ایک تعلیم یافتہ ادبی تخلیقی شخص اورپینٹنگ وٹیلرنگ کے بھی بہت ماہرہے جنہوں نے شوقیہ طورپر کوردرین کے نام سے ٹابہ کھولا جس نے اتنی شہرت پائی اوروہ اتنے مصروف ہوگئے کہ اب انہیں ٹیلرنگ اورپینٹنگ کیلئے بھی وقت نہیں ملتا۔
1,009 total views, 2 views today