فیچر: ایچ ایم کالامی
عکاسی: فضل غنی
وادی کالام ایشیاء کی زمین کا وہ ایک ٹکڑا ہے جس کے حسن کے افسانے دنیا کے طول وعرض میں سنے اور سنائے جاتے ہیں۔وادی سوات کی کشیدہ حالات اور تباہ کن سیلاب سے پہلے جب یہاں کا انفراسٹرکچر تھوڑا بہت اچھا تھا تو جوں ہی بہار اپنے جوبن پر آتا ، دنیا کے کونے کونے سے سیاحوں کا فوج ظفر موج اس وادی کارخ کیا کرتے تھے، مگر اب صورت حال اس کے بر عکس ہے!
سوات کی کشیدہ حالات کے بعد ایک طرف غیر ملکی سیاحوں نے یہاں سے منہ موڑ لیا تودوسری طرف تباہ کن سیلاب نے سڑکوں کو خش و خاشاک کی طرح اڑا یا تو مقامی سیاحوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ شب ہجراں کے کیا افسانے سنائیں کوئی صرف یہی نہیں اپنا سب کچھ گنوانے کے بعد اب یہاں کے باسی بھی اس وادی سے ناطہ توڑکر پیٹ کی آگ بجھانے شہروں کی جانب مصروف سفر ہیں۔بقول شاعر!
سکھ میں تیرے ساتھ چلیں گے دکھ میں سب مکھ موڑیں گے
دنیا والے تیرے بن کر تیرا ہی دل توڑیں گے
وادی کالام کیمعیشتکا نوے فیصد دارومدار سیاحت پر ہے۔ جب سیلاب نے یہاں کی سڑکوں ، بجلی ، مواصلات سمیت پورا کا پورا انفراسٹکچر بتاہ کرکے رکھ دیا تو یہاں کی سیاحت چاروں شانے چت ہوگئی۔اور یہاں کے باسیون کا دانہ پانی بند ہوگیااور ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا سوائے شہروں میں دردر کے خاک چھاننے کے۔
چونکہ موسم سرما میں یہاں کا موسم منفی بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، اور وادی بارہ سے چودہ فٹ تک پتلی برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے ۔جو سڑکوں سمیت تمام زمینی راستوں پر قدرتی کرفیولگا کر یہاں کے باسیوں کو گھروں میں محصور کرکے رکھ دیتی ہے، اور بازاروں میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اس بات سے بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ نقل مکانی میں موسمی تبدیلی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور قابل فکر امر ہے کہ جنگ اور سیلاب کے بعد شہروں کی طرف نقل مکانی میں پچاس فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔
ماہرین عمرانیات شہروں کی طرف نقل مکانی کے عوامل کو روزگار ، موسم ، معیاری تعلیم اور سہولیات گردانتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو نقل مکانی انسانی زندگی کو پر آسائش بنانے کے لئے اچھا عمل بھی ہے۔ لیکن وادی کالام جیسی حسین وادی سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے منفی اثرات بھی کچھ کم نہیں، وادی کالام کی بہ نسبت شہروں میں روزگار، صحت اور تعلیم کے بہتر سہولیات موجود تو ہیں ۔ لیکن اس وادی کے باشندوں کا شہروں کی جانب گامزن سفر ہونے کے ان گنت منفی اثرات رونما ہوتے ہیں۔ شہروں کا زہر آلود ماحول کا جسمانی صحت پر اثر انداز ہونا، سماعت خراش ماحول اور برق رفتار دوڑ دھوپ سے انسانی نفسیات کا متاثر ہونا تو عام مشاہدے کی بات ہے۔
لیکن وادی کالا م کے باسی تو
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
کے مصداق موسم سرما کی اس قلیل مدت نقل مکانی میں نہ تو شہروں میں معقول آمدنی کے روزگار سے وابستہ ہوسکتے ہیں نہ وادی کالام کے ققحطزدہ سرما کے کچھ مہینے برداشت کرسکتے ہیں۔ اس عارضی نقل مکانی کے کارن ان کی زندگی پر انتہائی منفی اور برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے برا اثر نظام تعلیم پر پڑتا ہے، بچے چار یا پانچ مہینے وادی کالام کے مقامی سرکاری سکولوں میں پڑھائی کے بعد جب شہروں میں جاتے ہیں تو وہاں ان کو سرکاری سکولوں میں چند مہینوں کے لئے داخلہ لینا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ۔ اور پرائیویٹ سکولوں یا اکادمیوں کی فیسیں ان کی وساطت سے باہر ہوتی ہے ۔موسم سرما کی نقل مکانی کے باعث تعلیم سے محروم غریب بچوں کے مشکلات کے ازالہ کے لئے مقامی غیر سرکاری تنظیم ’’گاؤری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروگرام‘‘ نے موبائل سکولز کے قیام کا ایک لائحہ عمل ترتیب دیا جس کے تحت شہروں میں نقل مکانی کرنے والے بچوں کی پڑھائی تنظیم کی جانب سے مقرر کردہ اساتذہ شہروں میں بھی جاری رکھ سکیں، لیکن نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کا مختلف شہروں کی طرف سفر کرنا اور بڑے بڑے شہروں میں تتر بتر ہونا اس عمل میں رکاوٹ بنا۔ حال ہی میں تنظیم کے کارندے مختلف شہروں میں گئے اور نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی سر توڑ کوششیں کررہے ہیں کہ نقل مکانی کرنے والوں کو کئی ایک شہروں میں ایک ساتھ ٹھکانے بنائے جائیں ۔ اگر یہ تنظیم اس مقصد میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کے کچھ نہ کچھ ثمرات بچوں کو ملیں گے۔
اس کے علاوہ نقل مکانی کے دوران یہاں کے باشندوں کو انتہائی خطرناک حادثات کا سامنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہاں کے باشندے مال مویشی پالتے ہیں اور’’ دوران نقل مکانی’’ خاندان کے لوگ مال مویشی اور دوسرے گھریلوں روزمرہ لے اشیاء ٹرکوں میں لاد کر سیلاب سے تباہ شدہ ان خطرناک سڑکوں سے ہوتے ہوئے شہروں میں داخل ہوتے ہیں۔ خراب سڑکوں کے باعث رونما ہونے والے حادثات میں اب تک کئی خاندان اجڑگئے ہیں اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہے۔ جس میں سے ایک دلخراش واقعہ پشمال کے مقام پر اتروڑ کے خاندان سے بھرا ٹرک الٹ کر کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے سترہ افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ اس کے بعد دوسرا واقع گبرال سے شین جانے والے خاندان کے ڈاٹسن قارندکی کے مقام تیس سو فٹ گہری کھائی میں جا گرنے سے ایک ہی خاندان کے دو افراد سمیت تین افراد لقمہ اجل بن گئے۔
سیلاب سے تباہ شدہ وادی کالام کا سڑک اب تک درجنوں قیمتی جانیں نگل چکا ہے لیکن ارباب اقتدارکو سیاسی کھیلوں سے فرصت تک نہیں ملتی کہ اس طرف بھی تھوڑی سی نظر کرم ڈالی جائے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وادی کالام کے ان مصائب زدہ باشندوں کے مسائل کا کس طریقے سے مستقل حل نکالا جائے۔ اس حوالے سے ہم نے ایک عوامی سروے کیا جس میں علاقہ باشندوں نے ان تمام مسائل کا وجہ حکمرانوں کو گردانتے ہوئے بتایا کہ ’’میلوں ٹھیلوں ‘‘ کے چار دن کی چاندنی سجاکر سیاست چکمانے کے بجائے اگر حکومت یہاں کے سڑکوں ،پلوں اور دیگر موصلاتی نظام کو بحال کریں تو سیاحت پھر سے پروان چڑھے گی اور یہاں کے باشندے پھر سے اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں گے۔جیسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ اس وادی کی معیشیت کا نوے فیصد سیاحت سے وابسطہ ہے اگر سیاحت پھر سے بحال ہوگئی تو ان کو شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ۔
1,644 total views, 2 views today