رپورٹ:وقار احمد سواتی
لوگ جب اپنے محدود آمدنی سے اپنے کنبے کا پیٹ نہیں پال سکتے تو اپنے معصوم بچوں کو اسکول بیجنے کے بجائے اپنے ساتھ ہی محنت مزدوری پر لگاتے ہیں۔ وہ بچے جس کو اپنے عمر میں اسکولوں سے علم سمیٹنا تھے،وہ کچروں کی ڈھیر وں سے رزق تلاش کرتےہیں۔پاکستان میں لاکھوں بچے کم عمری میں ہی معاشی فکر میں لگ جاتے ہے،یہ بچے نہ تو تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچپن کا مزا لے پاتے ہے۔غربت نے ان کا بچپن چھین کر ان کے چہروں پر سنجیدگی طاری کردی۔جن بچوں نے اپنی ہاتھوں سے علم کے شمع روشن کرنا تھی،ان کے پھول جیسے ہاتھ رنگے ہوئے ہے اور ان بچوں کے شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے، ان میں احسا س محرومی پیدا ہوجاتی ہے۔جس کے باعث یہ بچے مختلف قسم کے منشیات اور دیگر جرائم کے راہ اختیار کرلیتے ہیں۔
پاکستان میں حکومتی سطح پر چائلڈ لیبر کے خاتمے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سال سے دوسرے تک مسلسل چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اورتاحال درست اعداد کے شمار کی کوشش نہیں کی گئی۔
چائلڈ لیبر کی بنیادی وجہ معاشرے میں والدین کی غربت اور تنگ دستی ہے۔ غربت اور تنگ دستی سے مجبور یہ بچے انکھوں میں ہزاروں خواہشیں لئےاپنے گھر والوں کے لئے محنت مزدوری کررہے ہیں اور محنت مزدوری کرنے والے یہ بچے جس کے عمر 5سال سے 14سال کے درمیان میں ہوتے ہیں وہ زراعت، کارخانوں، ورکشاپوں، ہوٹلوں اور دیگر مختلف جگہوں پر اپنے والدین اور گھر والوں کے پیٹ پالنے کیلئے نہایت کم اجرت میں محنت مزدوری کررہے ہیں۔جس سے ان بچوں کا نہایت قیمتی وقت اور بہترین تعلیمی سال ضائع ہوتے جارہے ہیں۔
بدقسمتی سے ان بچوں کیلئے جو معاشرے میں مختلف جگہوں پر محنت مزدوری کررہے ہیں ان کیلئے ماحول درست ہے نہ ہی خوراک صحیح ہوتا ہے،مسائل کی وجہ سے ان بچوں کے جسمانی اور ذہنی نشونما مسلسل خراب ہو جاتی ہے۔اور اکثر اوقات مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں ۔
12 جون تو چائلڈ لیبر ڈے کے حوالے سے منایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود محنت کشوں اور خاص کر کم سن محنت کش بچوں کی مسائل کے حل کے لئے اس قدر سنجیدہ اقدامات نہیں لئے گئے جتنے چاہئیے،بین الاقوامی چائلڈ لیبر ڈے کے باوجود یہ کمسن مزدور کار بچے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔
چائلڈ لیبر سے متاثرہ ایک کمسن بچے حمزاء(فرضی نام) نے کہا کہ ہم سارادن محنت مزدوری کرتےہیں،ہمیں دوسرے لوگوں کے طرح حقوق نہیں مل رہے۔ بچےکا کہنا تھا کہ اگر وہ کام نہیں کریں گے تو گھر کا چولہا کیسے چلے گا،اس لئے ہم مجبورا کام کررہے ہیں کیونکہ ہم غریب لوگ ہیں ، امدنی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے والدین کے اوپر قرضہ چڑھا ہو اہے۔
اس موقع پر ایک والد سے جب بچے پر کام کرنے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم بہت غریب ہے اور اخراجات بہت زیادہ ہے اگر یہ بچے کام نہیں کریں گے تو ہمارے لئے گزارہ مشکل ہو جاتا ہے،ہمارے بچے بھی ہمارے ساتھ کام میں لگے رہتے ہیں ہم حالات کی وجہ سے ان کو نہیں پڑھاسکتے۔انہوں نے دھیمی دھیمی انداز سے کہا کہ دل تو ہمارا بھی کرتا ہے کہ ہمارے بچے بھی تعلیم حاصل کریں لیکن گھر کے حالات ایسے ہیں،اور غربت کی وجہ سے ہم ان کو نہیں پڑھا سکتے،دل تو کرتا ہے کہ ہمارے بچے بھی اسکول جائیں اور پڑھے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ہمارے ساتھ بچوں کی حصول تعلیم کی مدد میں مدد کریں۔
چائلڈ لیبر ایک ناسور بنتاجارہاہے جس کو ختم کرنے کیلئے حکومت اور مخیر حضرات کو چاہئے کہ وہ زکواۃ اور بیت المال کے ذریعے ان والدین کی مالی معاونت کر ے تاکہ یہ والدین بچوں کو تعلیم دلوا کر اپنا اور ملک کا مستقبل سنواریں۔
بچوں کے حقوق کا عالمبردار اور ممتاز قانون دان شوکت سلیم ایڈوکیٹ نے چائلڈ لیبر ڈے کے حوالے سے صحافی وقار سواتی کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سے مشقت لینا انسانی حقوق،ملکی،بین الاقوامی اور اسلامی قانون کے خلاف ورزی،غیر انسانی اور غیر اسلامی ہے،کم سنی میں محنت مزدوری کرنے سے بچوں کے نشونما،تعلیم وتربیت ،صحت ،مستقبل ،سماجی اور نفسیاتی عمل ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔اس میں تشخص اور معاشرے میں ایک فعال کردار ادا کرنے سے رک جاتا ہے۔دوسری طرف معاشرے،خاندان اور ریاست پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے بچوں کے عزت نفس،خودی اور صلاحیتوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور معاشرہ ترقی کے بجائے تنزل کے طرف جاتا ہے،ہمیں بحیثیت قوم اس قبیح رسم کے خلاف ایک موثر اقدام اٹھانا وقت کا تقاضا ہے۔
لیبر یونین کے مرکزی صدر فضل حمید نے چائلڈ لیبر ڈے کے حوالے سے گفتگو کوتے ہوئے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں اور خصوصاسوات میں چائلڈ لیبر میں زیادتی کی بنیادی وجہ یتیم بچے ہیں جو مالاکنڈ ڈویژن میں حالیہ دہشتگردی،سیلاب اور زلزلہ میں یتیم ہو چکے ہیں ۔جبکہ اکثر بچوں کے والدین ان افات میں معذور ہو چکے ہیں جو کہ اب کام کرنے کے قابل نہیں ۔ اب ان کے بچے کام کررہے ہیں اور اپنے گھر والوں کے لئے روزی کماتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور مخیر حضرات کو چاہئے کہ وہ اپنے علاقوں میں چائلڈ لیبر پر نظر رکھیں اور ان کے کفالت اور ان کے اخراجا ت کا بندوبست کرے تاکہ آج کے یہ بچے کل کے مستقبل میں ملک وقوم کا نام روشن کریں۔
نوٹ:(لکھاری وقار احمد سواتی نے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس کیا ہے اور چائلڈ لیبر سمیت انسانی حقوق کے لئے لکھتے ہیں)
1,209 total views, 4 views today