تحریر: وقار احمد
آج کا دن یعنی بیس نومبر یونیورسل چائلڈ ڈے یا بچوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن اور مہینے سے بچوں کیلئے، ان کے والدین،اساتذہ اور معاشرے کے افراد کیلئے ایک خاص سبق ملتا ہے۔بیس نومبر “بچوں کا عالمی دن “اقوام متحدہ نے چودہ نومبر 1954کو تجویز کیا تھا کہ دنیا کے تمام ممالک بیس نومبر کو بچوں کے بھائی اور ان کے فلاح وبہبود کے طور پر منائیں۔1959میں بیس نومبر کے دن ہی ڈیکلیریشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ اور 1989میں کنونشن ان دی رائٹس آف دی چائلڈ کو جنرل اسمبلی نے منظور کیا۔

بیس نومبر بچوں کے حقوق کا عالمی دن ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ بچوں کو جینے اور مکمل جینے کا پوراحق ہے،مگر ہماری ہاں حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو جینے کا ورا حق نہیں دیا جارہا اور بعض جگہوں پر تو کم سن بچوں پر حد سے زیادہ ظلم وجبر کیا جارہا ہے۔ہمارے ہاں بچوں پر ظلم وستم کے ایسے بہت سارے واقعات رونما ہوچکے ہے اگر ہم کچھ عرصہ پہلے صوبہ پنجاب کے علاقہ قصور کے گاوں حسین خان والا میں بچوں کے ساتھ بہت سی جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوئے اور سینکڑوں کے تعداد میں مرد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں،اس طرح اگر میں صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کو دیکھ لیں تو وہاں پر بھی بچوں کے اغوا کے جنسی ذیادتی اور ان کے ویڈیو بنانے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں، صوبہ سندھ کے علاقوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں اور ان کے داستانیاں موجود ہے جو کہ کم سن معصوم بچوں کے ساتھ نہایت ظلم وجبر ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اگر ہم دیکھ لیں تو وہاں پر بھی بچوں کے ساتھ ظلم کے داستانیاں دیکھنے اور سننے میں آیا ہے اور خاص کر جنگ زدہ علاقوں میں جس میں خاص کر افغانستان، عراق اور دیگر جنگ ذدہ علاقوں میں بچوں کیساتھ نہایت ظلم ہوا ہے اور ہورہا ہے،کم سن بچوں اور خاص کر اسکول جانے کی عمر میں بچے نہایت سخت انداز میں اپنے زندگیاں گزارتے ہیں کیا ان بچوں کا اسکول جانے کا عمر نہیں ہے؟ کیوں ان بچوں پر ظلم وستم ہورہا ہے؟ کیوں ان کو اپنے بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے؟
سوشل میڈیا پر بھی بعض تصویر دیکھنے کو ملتے ہیں جو کم سن بچوں کے ہوتے ہیں ان میں بعض تصاویر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔پاوں میں جوتوں کے بغیر ایک معصوم بچی ایک جوتوں کے دکان کے باہر کے طرف سے شیشے میں دیکھ رہی تھی۔کیا ان معصوم سی بچی کے دل میں جوتے پہننے کا خواہش نہیں ہوگا؟ہاں کیوں نہیں مگر وہ یہاں اس وقت میں بے بس ہے۔ بعض اوقات ایک خاندان میں نو عمر بچی نوکرانی ہوتی ہے تو جب یہ خاندان والے باہر ہوٹل میں کھانے کیلئے جاتے ہیں تو ساتھ یہ نوکرانی بھی لے جاتی ہے اور جب کھانا کھانے کا وقت اجاتا ہے تو ان نوکرانی کو کئی دور بیٹھا کر خاندان والے خود کھانا کھا جاتے ہیں۔ ان بے چارے نوکرانی کے دل اس وقت کیا ہوتا ہے ان کو احساس نہیں ہوتا؟ مگر افسوس ہمارے ان معاشرے کے لوگوں کہ ان کو نہ اپنے حقوق کا پتہ ہے نہ دوسرے لوگوں کا۔ بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کے بعد بعض جگہوں پر تو بچے ذہنی اور نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور ان اتنا ٹھیس پہنچ چکے ہیں کہ وہ اب گھر سے باہر نہیں جارہے اور نہ اسکول جاتے ہیں جبکہ ان بچوں کو تو گھر میں بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے مگر حومتی اداروں اور نجی اداروں نے ان بچوں کیلئے کچھ نہیں کیا ہے۔ حکومت اور حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں کے ساتھ ان معاشرے کے صاحب استظاعت لوگوں کا بھی یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ ان بے چارے بچوں پر ظلم کے بجائے رحم کا معاملہ کرے۔
یونیورسل چائلڈ ڈے دنیا بھر میں بچوں میں اگاہی پیدا کرنے اور ان کے بنیادی حقوق دینے کا ایک دن ہے مگر بچوں کے اغواء اور ان کے ساتھ ظلم وذیادتی پر ان بچوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 5 سے 14سال کے عمر کے بچے تقریبا 153ملین بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہے مگر افسوس کے حکومت اور بچوں کیلئے کام کرنے والے ادارے بچوں کے مسائل کے حل، ان کے زندگی بہتر بنانے اور زیادتی کا شکار بچوں کی نفسیاتی مدد میں ناکام نظر آرہے ہیں۔
اگر حکومت او ر نجی اداروں نے بچوں کی حرمت اور غلامی، چائلڈ عصمت فروشی اور بچوں کی فحش نگاری سمیت چائلڈ لیبر کی بدترین شکلوں کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو یہ مستقبل قریب نئی آنے والے نسلوں کیلئے شدید نقصان کا باعث بن جائے گا۔
Email: waqar.swaty93@gmail.com
179 total views, 8 views today
Comments