تحریر ایم سرور خٹک
کہتے ہیں کہ جادو وہ ہے جو سر چڑھکر بولے۔اسی طرح اگر ہم کہیں کہ تبدیلی وہ ہے جو صاف نظر آئے تو شاید تبدیلی کا مفہوم واضح ہو سکے ۔صوبہ خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت تبدیلی کے ایک واضح ایجنڈے کا منشور لے کر عوام کی عدالت میں گئی اور عوام نے اس پر اعتماد کرکے اس کو اپنے منشور پر عمل کرنے کا موقع فراہم کیا۔پی ٹی آئی کے اس منشور کے ساتھ ہم خیالی کے پیش نظر جماعت اسلامی بھی اتحادی بنی۔ گزشتہ چار ساڑھے چار سالوں میں اس حکومت نے اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے نظام کی تبدیلی کے جو اقدامات کئے اس تحریر میں ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ تحریر صرف ان اقدامات کا احاطہ کرے گی جو ایک عام آدمی کو زبانی یاد ہیں۔راقم بھی عام لوگوں کی طرح دیکھ ، سن اور پڑھ رہا ہے اس تحریر میں کسی قسم کی ڈیٹا اور دستاویزات کاسہارا نہیں لیا گیا ہے ۔ راقم کے ذہن میں تبدیلی کا جو نقشہ ابھرا ہے اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
موجودہ صوبائی حکومت نے تعلیم ، صحت ، پولیس اور پٹوار کو تبدیلی کے اولین نکات میں شامل کیا تھا چنانچہ این ٹی ایس کے ذریعے جالیس ہزار سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی بھرتی ، مانیٹرنگ سسٹم اور بائیو میٹرک کے ذریعے حاضری کے نتیجے میں اساتذہ اور استانیوں کی غیر حاضریوں کے افسانوں کے ابواب کا خاتمہ ہوا۔پی ٹی سی فنڈز کے استعمال کے معجزاتی نتائج بر امد ہوئے چنانچہ میر ے گاؤں بیرگئی(کرک)کے گرلز پرائمر ی سکول میں اس فنڈ سے دو کمرے بمع برآمدہ اور ماربل فرش تعمیر ہوئے ۔ پرانے دو کمروں بمع بر آمدہ کی دیواریں اور چھتیں نئے تعمیر ہوئیں ۔ بجلی گیس ٖفٹنگ ، تین باتھ رومز کی تعمیر ، واٹر ٹینک کی تعمیر، پلے ایریا اور چاردیواری کی تعمیر نو مکمل ہوئی۔اس اسکول پر تقریباً22لاکھ روپے خرچ ہوئے ۔ اسی طرح اسی گاؤں کے بوائز پرائمری سکول کی مضبوط ترین چاردیواری بمع گیٹ کی تعمیر 1974میں سکول کی تعمیر کے بعد دو سال قبل مکمل ہوئے۔ اس کے علاوہ اس سکول میں شمسی توانائی کی بجلی بھی فراہم کی گئی ۔ اسی طرح صوبہ کے ہر سکول میں اتنے ہی فنڈ خرچ ہوئے۔ پرایمری سکولوں میں دو کمروں اور دو اساتذہ ؍استانیوں کی جگہ 6کمروں اور 6اساتذہ ؍استانیوں کی پالیسی نافذ کی گئی جس کی اہمیت اور نتائج محتاج بیان نہیں ۔ صوبے کے فرنیچر کے بغیر سکولوں کو اربوں روپے کا فرنیچر فراہم کیا گیا۔غریب اور امیر بچوں کو یکساں تعلیم کی فراہمی کیلئے تمام سرکاری سکولوں کو انگلش میڈیم کیا گیا اور یونفارم میں بھی پینٹ شرٹ اور شلوار قمیض کا اختیار دیا گیا ۔ ہزاروں سکولوں کا درجہ بڑھایا گیااور ہائی سکولوں میں ہائر سیکنڈری سکول قائم کرنے کو اہمیت دی گئی۔ اسی طرح یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بی ایس نظام کو فروغ دیا گیا تاکہ دنیا کے تر قی یافتہ ممالک کے ساتھ تعلیمی مماثلت پید ا کی جا سکے ۔
گزشتہ ادوار میں قائم یونیورسٹیوں کو محکم کیا گیا اور ان کی اپنی عمارات کی تعمیر کے کام کی حوصلہ افزائی کی گئی۔وی سی کے عہدے کیلئے پی ایچ ڈی کی ڈگری لازمی قرار دے کر سفارش کا راستہ بند کیا گیا ۔نئے کالج، میڈیکل کالج اور ٹیکنیکل کالج قائم کئے گئے اور صوبہ میں ملک کا پہلا گرلز کیڈٹ کالج مردان میں قائم کیا گیا ۔تعلیمی بورڈ میں سرکاری سکولوں کے پوزیشن ہولڈر ز طلبہ کیلئے پر کشش انعامات اور مراعات نافذ کی گئیں ۔اسی طرح معلمین کی حوصلہ افزائی کیلئے بھی لاکھوں روپے فی کس انعامات مقرر کرکے تعلیم کے میدان میں مثبت مقابلہ و مسابقت کی حوصلہ افزائی کی گئی۔امتحانات میں نقل کے خاتمہ کیلئے دیگر اقدامات کے علاوہ ھالوں میں CCTVکیمروں کے ذریعے نگرانی کا انتظام کیا گیا ۔
جہاں تک صحت کے شعبہ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ پالیسی اپنائی گئی کہ عمارات کا نیا جنگل تعمیر کرنے کی بجائے صوبہ کی موجودہ ہسپتالوں میں طبی عملہ، تشخیصی مشینری ، لیبارٹریوں ، ادویات اور دیگر سہولیات میں اضافہ کر کے صوبہ کے عوام کی صحت کی ضروریات بہتر طریقے سے پوری کی جائیں گی ۔ چنانچہ صوبہ کے بڑے بڑے ہسپتالوں کو ترقی یافتہ ممالک کے طرز پر خود مختاری دی گئی ۔ہسپتالوں میں موجود اربوں روپے کی تشخیصی مشنری کی مرمت کی گئی ۔ صوبہ بھر میں ڈاکٹروں اور Specialistsکی تمام آسامیوں کو پر کیا گیا ماسوائے ان پوسٹوں کے جن کے سپیشلسٹ دستیاب ہی نہیں ۔اسی طرح صوبہ کی تمام خواتین نرسوں کو بھرتی کیا گیا ہے ۔اب بھی اگر خاتون نرس کی کوئی پوسٹ خالی ہے تو وہ اس لئے کہ صوبہ میں کوئی تربیت یافتہ بے روزگار نرس موجود ہی نہیں۔ایمرجنسی میں تمام ہسپتالوں میں تما م علاج مکمل مفت ہے جس سے عوام بھی مطمئن ہیں۔ اب صوبہ میں آئی ٹی کے ذریعے دور دراز کے مقامی ہسپتالوں کے مریضو ں کو بڑے شہروں کے ماہر ڈاکٹروں کی خدمات بھی فرہم کی گئیں۔ شعبہ صحت میں انقلابی اقدام غریبوں کو صحت کارڈ کے ذریعے مہلک بیماریوں کے علاج کے لئے فی گھرانہ تقریباً پانچ لاکھ روپے کی مفت طبی سہولیات کی فراہمی کا ہے جس سے تقریباً دو کروڑعوام مستفید ہوگئے ہیں ۔ڈاکٹروں کو پروفیشنل الاونس اور نان پریکٹسنگ الاونس کا انقلابی اقدام کیا گیا جس کے تحت ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی تنخواہیں تقریباً دوگنی ہوگئیں ۔بائیومیٹرکی حاضری کے ذریعے ڈاکٹروں اور محکمہ صحت کے عملہ کو حاضری کا پابند بنایا گیا ۔
محکمہ پولیس کو مکمل آزادی دی گئی ۔آن لائن ایف آئی ار متعارف کر لیا گیا ۔موبائیل پر اعلیٰ پولیس افسران کو براہ راست شکایات بھیجنے کا انتظام کیا گیا ۔تھانوں میں عوام کو با عزت ماحول فراہم کیا گیا ۔ٹورسٹ پولیس ،جدید ترین سائنسی تفتیش ،فرانزک لیبارٹریوں کا قیام، پولیس ٹریننگ کے متعدد سپیشلسٹ سکولوں ، کالجوں اور اکیڈمیوں کا قیام وغیر ایسے اقدامات ہیں جو کے پی پولیس کو نہ صرف پاکستان بلکہ علاقے کے بہت سے ممالک میں ایک ممتاز مقام فراہم کرتے ہیں اور جن کا اعتراف نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔روایتی نظام میں عوام کو پٹواری سے سخت تکلیف تھی ۔ موجودہ حکومت نے لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائز ڈ کیا جو تقریباً مکمل ہے اس نظام کے ذریعے عوام کو جائیداد کی لین دین اور ریکارڈ رکھنے میں رشوت اور بد عنوانی سے پاک نظام فراہم ہوجائے گا جبکہ سخت احتسابی نظام اور شکایات کے ذریعے اس شعبہ کو بڑی حد تک عوام دوست بنایاجا چکا ہے۔ موجودہ حکومت نے قانون سازی میں بھی ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور سو سے زائد عوام دوست اور دور جدید کے تقاضوں پر مبنی قوانین پاس کئے اور بہت سوں میں ترمیم کرکے ان کو عوام دوست بنایا۔ رائٹ ٹو انفارمیشن اور رائٹ ٹو سروسز ایکٹ خصوصاً قابل ذکر ہیں جن کو عالمی اداروں نے بھی بہترین قوانین قرار دیا ہے ۔ سونامی بلین ٹری صوبائی حکومت کا وہ دور اندیشیانہ اقدام ہے جس کے تحت تین چار سال کے مختصر عرصہ میں ایک ارب پودے اگا کر موسم، ماحول ، سیاحت اور صحت عامہ کے شعبوں میں رسک لے کر اربوں روپے سرمایہ کاری کی گئی اور عملی ثبوت فراہم کیا کہ یہ حکومت نہ صرف موجودہ عوام بلکہ آئندہ نسلوں کی بھی خیر خواہ ہے۔جنگلات کی کٹائی کی بھی آئرن ہینڈ کے ساتھ حوصلہ شکنی کی گئی اور اس سلسلے میں چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر جارحانہ کاروائی کی گئی ۔سونامی بلین ٹری کو عالمی سند بھی ملی اور یہ دنیا بھر میں ایک منفرد مہم قرار پائی۔ اس اقدام کے نتیجے میں صوبے کے قدرتی حسن میں روز بروز اضافہ ہوگا اور اسکے فوائد بے شمار ہوں گے۔
حکومت نے آتے ہی تحصیل سطح پر کھیلوں کے گراؤنڈ ز کی فراہمی کا اعلان کیا تاکہ نوجوانوں کومقامی سطح پر صحت اور تفریح کے مواقع فراہم ہو سکیں۔جن تحصیلوں میں زمین بر وقت فراہم کی گئی وہا ں پر گراؤنڈز مکمل ہوگئے اور یہ سلسلے تیزی سے جاری ہے۔کرکٹ میں ڈویژنل ٹیلنٹ ہنٹ مقابلے قومی ہیرو عمران خان کے نام سے منعقد کئے گئے جہاں سے نامور کھلاڑی پید ا ہوئے اور ہو رہے ہیں۔اضلاع کی سطح پر سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ کے ما بین تما م کھیلوں کے مقابلوں کا اہتمام سرگرمی سے کیا جا رہا ہے۔
۔موجودہ صوبائی حکومت نے محکمہ سیاحت اور محکمہ ثقافت میں نئی روح پھونکی ۔ کالام ، مالم جبہ ، گبین جبہ، جاروگو، کاغان، نتھیاگلی ، ہنڈ اور دیگر مقامات پر اربوں روپے کے تر قیاتی ، سیاحتی ، تفریحی اور ماحولیاتی منصوبے مکمل کئے۔ کالام ترقیاتی ادارہ قائم کیا گیا اور گلیات ترقیاتی ادارہ کو فعال بنا کر نتھیاگلی اور اردگر د علاقوں میں تجاوزات کا خاتمہ کیا اور وہاں پر ایک نئی حسین دنیابسائی ۔ صوبائی حکومت نے ریسٹ ہاوسز میں مفت قیام کو سختی سے روکااور نتھیاگلی کے اہم ترین ریسٹ ہاوسز کو سیاحوں کیلئے کھول دیا پشاور اور دیگر شہروں میں پارکوں کی بحالی کی گئی جبکہ پشاور میں بہت بڑا چڑیا گھر قائم کیا گیا ۔ سیاحت دوست اقدامات کے نتیجے میں سوات اور کاغان میں گزشتہ گرمیوں میں اور عیدین کے مواقع پر 25,25لاکھ سیاحوں کا ریکارڈ قائم ہوا۔محکمہ ثقافت کے تحت صوبہ کے شاعروں ، فنکاروں اور دیگر ہنرمندوں کو 30ہزار روپے ماہانہ مالی امداد کا اجراء کیا گیا جو ملک بھر میں ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ اس امداد کے طریقہ کار میں بہتری کی گنجائش موجود ہے کیونکہ امداد سے بہت سے مستحق خواتین و حضرات محروم رہے جن کو ٹی وی سکرینوں پر دلدوز انداز میں روتے دھوتے دیکھا گیا۔ اگر مالی امداد کی رقم 15تا20ہزار ماہانہ کی جائے اور سلیکشن کمیٹی میں ہر تحصیل سے ایک مخلص دانشور شامل کیا جائے تو اس سکیم کے فوائد اور ثمرات بہت زیادہ بڑھائے جا سکتے ہیں ۔محکمہ سیاحت و ثقافت نے مختلف فیسٹیولز میں مقامی فن، ادب، موسیقی ، دستکاریوں اور فوڈ سٹالز کے ذریعے ثقافت کے فروغ کیلئے اہم کر دار اد ا کیا ۔
سماجی بہبود کے سلسلے میں بھی اہم کام ہوا۔ انصاف فوڈ سپورٹ کے تحت اربوں روپے کی غریبوں کو سبسیڈی ، انصاف صحت کارڈ کے تحت تقریباً دو کروڑ آبادی کو مہلک بیماریوں کے علاج کی سہولت، ہزاروں اہل فن و ہنر کو محکمہ ثقافت کے کروڑوں روپے کے و ظائف ، قابل طلبہ کیلئے انعامات اور و ظائف ،60سال سے زائد عمر کے شہریوں کیلئے ٹرانسپورٹ اور علاج میں سہولیات، معذوروں کیلئے خصوصی مراعات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اداروں کے استحکام اور ان کے کام میں شفافیت کے سلسلے میں موجود ہ حکومت کے اقدامات بھی مثالی ہیں ۔ حکومت نے صوبائی سیکرٹریوں کو مانیٹرنگ آفیسر مقرر کرکے اضلاع میں جاری تر قیاتی منصوبوں میں حائل مشکلات کو دور کیا۔ مانیٹرنگ رپورٹس کے ذریعے بہت زیادہ دیرینہ مسائل حل ہوگئے اور رکے ہوئے ترقیاتی کام مکمل ہوگئے ۔ ای ٹینڈرزکے نفاذ کے ساتھ ترقیاتی کاموں میں میرٹ قائم ہوا اور بہت سی قباحتوں کا خاتمہ ہوا ۔علاوہ ازیں ڈائر یکٹوریٹ جنرل پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ بھی تمام مکمل شدہ ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ اور ایولیوویشن کر تا ہے جس سے تر قیاتی منصوبوں میں شفافیت میں بہت مدد ملتی ہے ۔
صوبائی حکومت نے جمہوری نظام میں میرٹ اور شفافیت کو اولین راہنما اصول قرار دیا تھا ۔ چنانچہ تمام محکموں میں این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی کی گئی جس کے تحت غریب ترین خاندانوں کے لکھے پڑھے بچے بغیر سفارش کے تمام محکموں ، خصوصاً تعلیم ، صحت اور پولیس میں بھر تی ہوئے جس کے نتیجے میں پرجوش اور پر عزم نوجوان محکموں میں بھرتی ہوئے۔ یوں موثر طور پر تمام محکموں میں نئے پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی۔ مذکورہ بالا محکموں کے علاوہ بقیہ تمام محکموں نے بھی اہم کام مکمل کئے اور روایتی طور طریقوں کو چھوڑ کر اپنے اپنے محکموں میں تبدیلی کا رخ متعین کیا۔ اس تحریر کو مشت از خروارے سمجھا جائے۔ یہ صرف ان اقدامات کا سرسری ذکر تھا جو تبدیلی کے ایجنڈے کے موتیوں میں چمکدار موتیوں کی طرح نظر آرہے ہیں۔
سرور خٹک
2,131 total views, 2 views today