قارئین کرام! بہ خدا، زندگی میں دو بار قتل کرنے کو جی چاہا۔ پہلی بار آج سے ٹھیک چار سال پہلے جب عدن (میرا بڑا بیٹا) اس دنیا میں نہیں آیا تھا اور اس کی ماں درد زِہ سے بلبلا رہی تھی، جس ڈاکٹرنی سے اس کا علاج جاری تھا، اس نے یہ کہہ کر بے چاری کو اپنے حال پہ چھوڑا کہ چھٹی کے دن چاہے کوئی جیے یا مرے، وہ اپنے بچوں کے ساتھ (شہر سے باہر)وقت گزارتی ہے۔ اس دن میرا اُس درندہ صفت ڈاکٹرنی کا قتل کرنے کو جی چاہا تھا۔ دوسرا قتل کرنے کو آج سے کوئی ہفتہ بھر پہلے جی چاہا۔ یہ دوسری خواہش پہلی والی سے زیادہ شدید ہے، بلکہ شدید تر ہے اور ایسا کیوں ہے؟ یہ سمجھانے کے لیے مجھے ماضی کی کتاب کھولنا ہوگی اور اس کے پنوں پر اَٹی گرد اڑانا ہوگی۔
آج سے کوئی دس گیارہ سال پہلے کی بات ہے، جب مجھے تازہ تازہ اصول پسندی کا بخار چڑھا تھا۔ کوئی گاڑی غلط پارک کرتا، غلط اوور ٹیک کرتا، کسی پر ظلم ہوتا یا کسی کا حق مارا جاتا، تو میں بھڑ جاتا۔ اس حوالے سے کئی بار مجھے سخت حزیمت اٹھانا پڑی، مگر اس معاشرے پر فِٹ نہ آنے والے کئی جرأت مند افسانوی کرداروں کو پڑھ پڑھ کر میں خو د کو ہر اُبھرتے ہوئے سورج کے ساتھ ان جرأت مند کرداروں میں سے کسی ایک کے سانچے میں اتارنے کی کوشش کرتا اور بدلے میں مجھے منھ کی کھانا پڑتی۔ ان دنوں مَیں رضاکارانہ طور پر ایک ادارے کے ساتھ منسلک ہوا جو معاشرے کے گھسے پٹے طبقوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی توانائی خرچ کرنے والے جوانوں کی تلاش میں تھا۔ میں نے روزانہ دو گھنٹے زندگی اس ادارے کے لیے وقف کردی۔ وہاں ایک دن میں اپنے دو رفقائے کار کے ساتھ ان کی ایک ’’زیادتی‘‘ پر ٹکرا گیا۔ بات دور تک پہنچی۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اس زیادتی کا راستہ روکوں گا، چاہے اس میں مجھے جان سے ہاتھ کیوں نہ دھونا پڑے۔ ادارے کے سربراہ نے جب میرا پاگل پن دیکھا، تو اس نے مجھے محمود رفیق کے حوالے کر دیا۔ جی ہاں، وہی محمود رفیق جنھیں باقی ماندہ دنیا ’’بابو‘‘ اور میں پیار سے ’’بابو جانی‘‘ کہہ کر پکارتا ہوں۔
محمود رفیق بابو کو جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ کی سنت پر عمل پیرا شخصیت ہیں، یعنی آپ اس کے ایک گال پر تھپڑ مار دیں، تو وہ بندۂ خدا بڑے پیار سے آپ کو اپنا دوسرا گال پیش کریں گے۔ اور میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آپ اس کے دوسرے گال پر بھی تھپڑ رسید کریں گے، تو وہ ماتھے پر بل ڈالے بغیر ایک مہین مسکراہٹ کے ساتھ آپ کو اپنا پہلے والا گال پھر پیش کریں گے۔
بابو جانی نے اُس وقت ایک چھوٹی سی کہانی میرے گوش گزار کی اورمجھے بڑی آسانی سے سمجھایا کہ کس طرح کتابوں کی زندگی سے نکل کر عملی زندگی جینا ہے۔ کہانی بڑی دل چسپ ہے اس لیے اس کا لب لباب پیش کرتا چلوں:
’’کسی محلے میں ایک عمر رسیدہ شخص رہتا تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی راست گوئی سے کام لے کر گزاری تھی۔ اس لیے اگر کوئی اس کے ساتھ دھوکا کرتا، تو اسے کوفت سی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ وہ دودھ لینے ایک ایسی دکان پر حاضر ہوا، جس کے سائن بورڈ پر جلی حروف میں لکھا تھا کہ ’’یہاں خالص دودھ ملتا ہے۔‘‘ اس بزرگ نے ایک کلو ’’خالص دودھ‘‘ کے پیسے ادا کیے، مگر بدلے میں اسے ایسا دودھ ملا کہ جس میں پانی وافر مقدار میں ملایا گیا تھا۔ بالفاظ دیگر دودھ بے حد پتلا تھا۔ بزرگ نے ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کے بندے جو کہتے ہو، وہ کرکے دکھاتے کیوں نہیں؟ باتوں باتوں میں نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ شام کو دودھ والا، بزرگ کے صاحب زادے کے پاس آیا اور اسے کہا کہ ’’تمھارا والد پاگل ہوچکا ہے، اسے کسی اچھے سے پاگل خانے میں داخل کراؤ۔ ورنہ وہ ایک دن پورے خاندان کے لیے مسئلہ کھڑا کر دے گا۔‘‘ اگلے روز مذکورہ بزرگ گھر کے ساتھ ہی ایک کریانہ فروش سے اس کے نامناسب رویے پر گرم ہوا۔ اس نے بھی گھر آکر بزرگ کے بڑے بیٹے سے کہا کہ ’’بڈھا سٹپٹا گیا ہے، اس کا کسی اچھے سے ڈاکٹر سے معائنہ کراؤ۔‘‘ اس کے علاوہ وہ اہل و عیال کے ساتھ بھی اپنے اصولوں کی بنیاد پر لڑتا جھگڑتا رہتا تھا۔ اس کی بدقسمتی کی انتہا دیکھئے کہ گھر والوں کو بھی وہ ’’ابنارمل‘‘ ہی دکھائی دیتا تھا۔ جب باہر سے تواتر کے ساتھ شکایات آنے لگیں، تو ان کا شک یقین میں بدل گیا اور یوں ایک نارمل انسان کو اپنی اصول پسندی اور دیانت زدگی کی وجہ سے پاگل خانے بھیج دیا گیا۔‘‘
میں نے کہانی غور سے سنی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ آج کے بعد اس معاشرے میں رہنا ہے، تو اپنی روش بدلنا ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ آج بھی ظلم اور ظالم دونوں مجھے کھٹکتے ہیں، مگر اب نوبت کم از کم مار کٹائی تک نہیں پہنچتی۔
قارئین کرام! آج وہی محمود رفیق بابو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، جو دوسروں کو جینا سکھاتے تھے۔ ابھی کل پرسوں انھوں نے مجھے کال کرکے کہا کہ یہاں کے ایک ’’مشہور و معروف‘‘ نفرالوجسٹ سے وہ علاج کرا رہے تھے۔ بعد میں جب افاقہ نہ ہوا، تو انھوں نے پشاور کے ایک نفرالوجسٹ سے رجوع کیا۔ پھر ایک دن کوئی بیس پچیس دن بعد انھیں بہ امرِ مجبوری پہلے والے ’’مسیحا‘‘ کے پاس آنا ہوا۔ ڈاکٹر کے اسسٹنٹ نے ڈاکٹر کے کان میں دھیرے سے کہا کہ یہ ہمارا مریض تھا، مگر اب علاج کسی اور ڈاکٹر سے کروا رہا ہے۔ بابو جانی کا کہنا تھا کہ میں اس وقت جاں بہ لب تھا، مگر ڈاکٹر نے مجھ پر کچھ ترس نہ کھایا اور کہا کہ آج میری خود طبیعت خراب ہے، اس لیے میں آپ لوگوں کی کچھ مدد نہیں کرسکتا۔
بہ قول ضرار رفیق (بابو کے چھوٹے بھائی) : ’’اگر اس رات بابو کی حالت بروقت تھوڑی سی بھی سنبھل جاتی، اور مجھے اس کی زندگی کا خطرہ لاحق نہ ہوتا، تو میں اسی وقت اس ڈاکٹر کا خون کر دیتا۔‘‘
قارئین کرام! جو لوگ بابوجانی کو نہیں جانتے، وہ مجھ پر لعن طعن کریں گے کہ اس تحریر پر میں نے ان کا قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ جب کہ میرا کہنا ہے کہ اگر یہ بابو جانی کے علاوہ کوئی اور ہوتے، تو میں پھر بھی قلم اٹھاتا۔ میں آپ سب سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس قسم کے درندوں کو مسیحائی کا حق ہے، جو ایک مریض کو محض اس لیے سسکتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں کہ اس نے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کسی اور مسیحا کی طرف دیکھا ہے؟
جواب دینے سے پہلے ایک لمحے کے لیے سوچئے کہ آپ کے گُردے زندگی کی دوڑ میں آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ایک مشین آپ کے جسم کو صاف خون فراہم کر رہی ہے۔ آپ کی شریک حیات آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو لیے آپ کے سرہانے بیٹھی ہے۔ آپ کے پھول سے بچوں کے چہرے آپ کی بیماری کی بہ دولت مرجھائے ہوئے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو محمود رفیق بابو یا پھر ضرار رفیق کی جگہ لے آئیں۔مجھے یقین ہے اس کے بعد آپ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ایسے مسیحاؤں کو جینے کا کوئی حق نہیں۔
836 total views, 2 views today