خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی، تو میرے ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں نے جیسے سکون کا سانس لیا۔ خیبر پختون خوا کے باسیوں کی خوشی کی تو کوئی انتہاء نہ تھی۔ ہر طرف خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ لوگ اللہ کے حضور سر بہ سجود تھے۔مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ روایتی انداز میں ہوائی فائرنگ سے خوشی کااظہار کیا گیا۔ یہ خوشیاں اس لیے منائی جا رہی تھیں کہ پی ٹی آئی کی ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ اتنا پر اثر تھا کہ بم دھماکوں، خود کش حملوں کی گونج اور گولیوں کے شور سے سہمے ہوئے پختون خوا کے عوام نے ووٹ ڈالتے وقت کچھ اور سوچا ہی نہ تھا اور یوں پی ٹی آئی ’’آگیا نی چھا گیا تے ٹھا کرکے‘‘ کے مصداق آگئی اور چھا گئی۔ لوگوں کوانصاف کی تحریک سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔لہٰذاانتخابات کے فوراً بعد ہی انصاف کا بول بالا ہونے اور اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے لوگوں کی بے تابی بڑھی۔ بالفاظ دیگر لوگ سرسوں ہتھیلی پر جمانا چاہتے تھے۔ لیکن عوام کو یہ بھی معلوم تھا کہ مرکز میں حکومت نہ ہونے کی وجہ سے تبدیلی کے لیے نوے دن ہر گز کافی نہیں۔ لیکن بعد میں جب نو مہینوں بعد بھی عوام کے حالات نہ بدلے اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اراکین کی تن خواہوں میں اضافہ کیا گیا، تو اس سے عوام کی بے چینی انگڑائیاں لینے لگی۔ کیوں کہ عوام تو اس انتظار میں تھے کہ کب وزیروں اور مشیروں کی تن خواہوں میں کمی کا اعلان کرکے انقلاب برپاکیا جائے گا۔ اراکین اسمبلی کی تن خواہوں میں اضافہ کر کے تاریخ دہرائی گئی ہے۔ ہاں ایک ساتھ اتنا بڑا اضافہ ایک ’’تبدیلی‘‘ ضرور ہے۔ عوام روزبہ روز مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ میرے خیال سے تو وزیروں کی اجرت بڑھانے سے زیادہ عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت تھی۔ ارکان اسمبلی میں چند ایک کے علاوہ زیادہ تر کا تعلق امیر وکبیر خاندانوں سے ہے۔ پھر ان امراء کو نوازنا کون سی ’’تبدیلی‘‘ ہے؟ عوام کو اگرچہ تبدیلی دیکھنے کی کوئی جلدی بھی نہیں اور وہ چند سال اور اس تبدیلی کا انتظار کر سکتے ہیں جس کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے، لیکن اراکین اسمبلی کے وارے نیارے کرنے میں اتنی جلدی معنی خیز ضرور ہے۔
پورے پختون خوا میں بالعموم اور سوات میں بالخصوص سڑ کیں اور آمدورفت کے راستے کھنڈرات کانقشہ پیش کر رہے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اس کی ذمے دار ر پچھلی حکومت تھی، جس نے پختون خوا اور سوات کے لیے کچھ نہیں کیا، لیکن آپ کے پاس ان کھنڈرات کو سڑکوں میں تبدیل کرنے کے لیے کیا فارمولہ ہے ؟ یا ایسا کرنے کی آپ نے ابھی تک سوچنے کی زحمت بھی گورا کی ہے یا نہیں؟
عوام اور خاص کر وہ عوام جس نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے، بلدیاتی انتخابات کے قریب آنے سے اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ ان کا دل اور انتخابات جیتنے کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے کیا کیا جا رہا ہے۔ عوام کو بلدیاتی انتخابات میں ایک دفعہ بھر پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے کیا اقدام کیے گئے ہیں؟ اگر بلدیاتی انتخابات میں عوام کے گلے شکوے دور نہ کیے گئے، تو کیا پی ٹی آئی پھر سے جیت پائے گی؟ ایسے میں اگر اے این پی یا کوئی دوسری پارٹی بلدیاتی انتخابات جیت جاتی ہے، تو بے چارے عوام کیا کیا بنے گا؟ کہ مرکز میں مسلم لیگ، صوبہ میں پی ٹی آئی اور پھر بلدیات میں ایک اور پارٹی کی جیت۔ یہ ملغوبہ کیا گل کھلائے گا؟
پی ٹی آئی کے کارکنوں اور راہ نماؤں کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں دور کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی گئی ہے؟ حال ہی میں محمد زیب اور اعلیٰ قیادت کے درمیان اختلافات سے جس انداز میں نمٹا گیا ہے اور جس طرح حید ر علی کو پارٹی میں لاکر ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس عمل سے نظرئے کے تحت پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے کارکنان میں بے چینی پھیل سکتی ہے اور مستقبل میں پارٹی کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہو سکتاہے۔ پارٹی کے اندر اورباہر جب اختلافات اور غلط فہمیوں کو تدبر سے حل نہیں کیا جاتا، تو اس کا اثر براہ راست عوام پر پڑتا ہے۔ کیوں کہ پارٹی راہ نماؤں کو آپس کی الجھنوں سے فرصت نہیں ملتی اور یوں عوام کے لیے ان کے پاس مشکل ہی سے ٹائم بچتا ہے۔
وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سامنے ایم ایم اے اور اے این پی کی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح عوام نے ان کو رد کیا۔ عوام کو نعروں سے زیادہ عملی کام یاد رہتا ہے۔ ایسا نہ ہوکہ وقت گزر جائے اور ’’تبدیلی تبدیلی‘‘کے نعروں کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت بھی تبدیل ہو جائے۔
عقل مند را اشارہ کافی است۔
1,072 total views, 2 views today