محترم کالم نگار عبداللہ طارق سہیل کے کالم ’’غروب شام‘‘ (روزنامہ نئی بات) کے مطابق پانچویں اور آٹھویں جماعت کے نصاب سے مطالعہ پاکستان کا مضمون خارج کردیا گیا ہے۔ کچھ یہی سلوک عربی کے مضمون کے ساتھ ہونے کا بھی اشارہ ہے۔ اتفاقاً ہم بھی مطالعہ پاکستان کے مدرسین میں سے ہیں۔ ہمارے یہاں پختونوں کے صوبے میں مطالعہ پاکستان دسویں اور بارہویں جماعت اور بی اے (چار سالہ نئے ڈگری نظام میں یہ ابھی پوری طرح واضح نہیں) میں داخل نصاب ہے۔ نصاب حکومتی ’’ماہرین‘‘ بناتے ہیں۔ ہم تو نظام کے آخری سرے پر ٹیچر کی حیثیت والے لوگ ہیں۔ نہ صوبائی حکومت کا کوئی ایسا نظام ہمیں معلوم ہے کہ وہ اساتذہ کے خیالات جمع کرکے اُن کی روشنی میں درستگی کے لیے غور کرتی ہے اور نہ اس وڈیرہ شاہی معاشرے میں وڈیرے اپنے علاوہ کسی کی بات سننے اور ماننے پر تیار ہوتے ہیں بلکہ زبان بندی ہماری حکم رانی کے کلچر کا ایک تسلیم شدہ عنصر ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے عہد حکومت میں مطالعہ پاکستان اس عرض سے نصاب میں شامل کیا گیا تھا کہ وہ بچے جو تحریک پاکستان اور آزادی کے بعد پاکستان کے مسائل سے بے خبر ہیں کسی حد تک ان سے واقف ہوجائیں۔ بدقسمتی سے اس مضمون کی کتابیں (ہمارے صوبے میں خصوصاً) اس ناقص ترین معیار کی لکھی گئیں، جو نہ تو تاریخ پاکستان کی تعریف آتی ہیں اور نہ مطالعہ پاکستان کی تعریف میں۔ چوں کہ نصاب؍ درسی مواد کی افادیت کے جانچنے کا کوئی عمدہ نظام ہمارے یہاں ہے ہی نہیں، اس لیے بچے اگر ان کتب کو ’’پڑھ‘‘ بھی لیں تو اُن کی بصیرت (Vision) وطن عزیز کے مسائل اور اُن کے عمدہ حل پر مفقود ہوتی ہے۔ اس وقت حال ہی میں متعارف کردہ دسویں جماعت کے لیے صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب میرے سامنے ہے۔ اس سے بیکار ترین نصاف شائد ہی کوئی ہو۔ یہ سن 2013ء میں متعارف کی گئی ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے اس انداز سے شروع کی گئی ہے کہ اُن حقائق کو چھپایا گیا ہے کہ کیسے بھٹو کی اقلیتی حکومت قائم ہوئی اور عوامی لیگ کی واضح اکثریت والی جماعت کو حکومت نہ ملی۔ پھر بھٹو کی حکومت اور اُس کے بعد کی حکومتوں کے حالات اس بھونڈے انداز سے تحریر کیے گئے کہ ذرا سا تیز اور ذہین بچوں کے دلوں میں اٹھنے والے سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں۔ مثلاً میری کلاس میں بچوں کے دو سوال کافی دل چسپ تھے۔ ایک بچے نے سوال کیا کہ آخر مشرقی پاکستان ہم سے کیوں الگ ہوگیا؟ دوسرے بچے کا سوال یہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے کیوں بھٹو کی حکومت ختم کی تھی۔ اس طرح مشرف کے اقتدار پر قبضے پر بھی بچے سوال کرتے ہیں کہ جب ایک منتخب اکثریتی حکومت کام کررہی تھی، تو اُس نے کیوں اسے ختم کیا۔ ان کے علاوہ ایسے بے شمار موضوعات شامل نصاب ہیں، جن کا کسی بچے کی ذہنی تربیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس کتاب کو تین خواتین (جن کا نام کتاب کے صفحہ 123 پر دیا گیا ہے) نے تالیف کی ہے۔ ایک اُن میں فی الحال خود طالبہ ہیں۔ دوسری ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں اور تیسری سرکاری ملازمہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ نو عمر خواتین ہیں، جنھوں نے پاکستانی حکومتوں کی تعریفیں کرکے اُسے مطالعہ پاکستان کا نام دیا۔ ہمارے صوبے میں بارہویں جماعت کا نصاب بھی کافی اصلاح طلب ہے۔ اگر پنجاب حکومت نے اس طرح کے بے ہودہ نصاب کی کتب کو خارج کردیا ہے، تو بہت اچھا کیا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ تقریباً ہر بچہ استعمال کرتا ہے۔ اب بچوں کو یک طرفہ (ٹھیک یا غلط) تعلیم نہیں دی جاسکتی۔ معمولی نوعیت کی تاریخی مہارتوں کو مطالعہ پاکستان کہنا بہت ہی زیادتی بلکہ کم ظرفی ہے۔
ہماری دانست میں تو مطالعہ پاکستان کا نصاب تنقیدی اصولوں پر استوار ہونا چاہیے کہ پاکستان کے معاشی، معاشرتی اور دفاعی مشکلات کیا ہیں؟ اُن کی وجوہات کیا ہیں؟ اور اُن کے پر امن حل کے لیے کیا اقدام ہونے چاہئیں۔ اعلیٰ سطح کی جماعتوں میں یہی مسائل بین الاقوامی، سیاسی اور مذہبی نکتہ ہائے نظر سے شریک نصاب کروانا چاہیے۔ لیکن ہوا یہ کہ چند مخصوص منظور نظر افراد سے چند بہت ہی معمولی اور بے اثر عبارات لکھوا کر اُسے مطالعہ پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ یہی رویہ اسلامیات لازمی کے ساتھ بھی اپنایا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسلام کے بنائے ہوئے معاشرتی، معاشی، دفاعی، حقوق انسانی، ماحولیات اور دوسرے علوم طلبہ کو سمجھانے کی کوشش ہوتی، یار لوگوں نے کچھ تبدیلی کے ساتھ وہی نصاب متعارف کرایا جو طلبہ پہلے ہی سے پڑھتے چلے آرہے تھے۔
ہمارے صوبے میں بیش تر نجی اسکولوں میں مطالعہ پاکستان کو وہ اہمیت بھی نہیں دی جاتی، جو اس کا حق ہے۔ بہت کم اداروں میں اس کے لیے مناسب اساتذہ موجود ہوں گے۔ ورنہ عموماً اس اہم مضمون کو وہ لوگ پڑھاتے ہیں جو اردو پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ جب کہ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ نوجوان بچوں کو پاکستان کی ضرورت، اہمیت، اس کی مشکلات، پھر اُن مشکلات کی وجوہات اور حل بتایا جائے۔
ہمارے خیال میں اسلامی تعلیمات بابت دنیاوی امور اور درست مطالعہ پاکستان کو الگ مضامین کی حیثیت سے ختم کرکے اُن کو اردو اور انگریزی کے نصاب کے ذریعے بچوں کو پڑھایا جائے۔ تاکہ عمدہ تربیت کے مقاصد بھی حاصل ہوں اور بچوں پر بوجھ بھی کم ہو۔
3,457 total views, 2 views today