تحریر خورشید علی
صائمہ انور ایڈوکیٹ کی عمر با28 سال ہے اور وہ سوات بار میں پہلی خاتون تھی جس نے وکالت شروع کی، ان دنوں خاتون وکیل کا تصور سوات سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن میں نہیں تھا، صائمہ انور کہتی ہے کہ 2011 میں وکالت کی لائسنس حاصل کرکے باقاعدہ طور پر پریکٹس شروع کیا،صائمہ انور ایڈوکیٹ اس بات پر خوش ہے کہ یو این ڈی پی کے تعاون سے سوات ڈسٹرکٹ بار میں خواتین کیلئے الگ فیمیل بار روم بنایا گیا ہے، جس میں اب خواتین وکلاء بیٹھ کر اپنے کیسوں کی تیاری اور موکلین سے ازادی کیساتھ بات کرسکتی ہیں
۔انہوں نے کہا کہ خواتین بار کی تعمیر سے ہمیں کافی سہولیات میسر آچکی ہے۔بار کے قیام سے پختون ثقافت میں خواتین کو ایک آزاد انہ ماحول فراہم ہوسکے گا ۔ اس کافائدہ یہ ہے کہ ہماے خواتین وکلاء کو علحٰیدہ بیٹھنے کی جگہ میسر ہوچکی ہے ، جس میں وہ معاملات اور وکلائنٹس کیساتھ آسانی سے بات کرسکتے ہیں جس سے خواتین کلائنٹس کی مشکلات میں بھی کافی کمی آچکی ہیں۔
صائمہ انور ایڈوکیٹ وکلات کے ابتدائی دنوں کے حوالے سے کہتی ہے کہ شروع میں مجھے اپنے گھر والوں کی طرف سے کافی مشکلات کا سامنا تھا اور ہمارے خاندان والے اس بات کیلئے بلکل تیار نہیں تھے کہ سوات بارمیں مرد وکلاء کے ساتھ میں بھی پریکٹس کروں ، انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا معاشرہ اور ثقافت میں خواتین کا اس طرح گھر سے نکلنا اور مردوں کیساتھ گھل مل کر کام کرنا مشکل ہے لیکن وقت کیساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوتا گیا اور اب تو خواتین بار کی وجہ سے ہمیں مزید سہولیات میسر ہو چکی ہیں اور خواتین سائلان / کلائنٹس کو بھی سہولیات میسر ہو
چکی ہیں ۔
صائمہ انور کی طرح اس وقت سوات بار کونسل میں چار خواتین لائسنس یافتہ ہیں جس میں مہناز ایڈووکیٹ کا تعلق تحصیل مٹہ سے ہے ، تحصیل مٹہ جو کہ ایک پسماندہ علاقہ ہے اور حالیہ دہشت گردی میں اس علاقے کو کافی نقصان پہنچا ہے ، مہناز ایڈووکیٹ باقاعدہ طورپر روز انہ یہاں ڈسٹرکٹ بار روم میں وکالت کررہی ہے،مہناز نے سوات نیوزڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سوات اور پھر ہمارے تحصیل میں خاتون کی نوکری کو لوگ عجیب سمجھتے ہیں اور ان خواتین کو پسند نہیں کرتے اور پھر جب وہ نوکری وکالت ہو تو پھر مزید مشکلیں اجاتی ہیں، لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود میں نے اس فیلڈ کو اسلئے پسند کیا تھا کہ غریب اور بے بس خواتین کی مدد کرسکوں، خواتین بار کے قیام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سوات ڈسٹرکٹ بار میں خواتین بار کے قیام سے اب ہماری مشکلیں تقریبا ختم ہوچکی ہے ، ہمارے کلائنٹس ہمارے ساتھ بیٹھ کر اپنے کیس کے متعلق بات چیت کرسکتے ہیں۔
ضلع سوات میں اب خواتین وکلاء کیلئے یو این ڈی پی کے تعاون سے ڈسٹرکٹ بار میں بننے والا خواتین وکلاء بارکے قیام سے انتہائی خوش اور مطمئن دکھائی دیتی ہیں ، خواتین وکلاء کیلئے بار کی انعقاد سے خواتین وکلاء کو ایک آزاد ماحول فراہم ہوا ہے اور وہ بلا جھجک بار روم میں اپنی پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔لیکن صائمہ انور ایڈوکیٹ اس حوالے کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں، کہ فیمیل بار روم میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے انہوں نے کہا کہ فیمیل بار کی چھت ٹھیک نہیں ہے اس کے علاوہ کمپیوٹر، فیکس، سکین ، ان لائن لائبریری ، لائبریری میں کتابوں کی عدم دستیابی سمیت دیگر اہم مسائل حل ہونے سے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے، یواین ڈی پی ، ضلعی انتظامیہ، جوڈیشل افسران اور صوبائی حکومت اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔
عائشہ بی بی کا تعلق تحصیل کبل کے علاقہ بانڈئی سے ہے ، وہ خواتین بار کے قیام سے کافی خوش دکھائی دے رہی ہے ، وہ کہتی ہے کہ پچھلے سات سال میرا کیس عدالت میں چل رہا ہے ہے پہلے میرا وکیل ایک مرد تھا اب میں میرا کیس خاتون وکیل لڑرہی ہے، جس سے مجھے بہت اسانی ہوئی ہے میں اپنی پوری بات تسلی اور بلا جھجک کہہ دیتی ہوں، لیکن اس سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اب خواتین بار بھی بنا یا گیا ہے جس میں خواتین انتہائی اسانی سے اور بلا روک ٹوک آ جاسکتی ہے ،اپنے وکیلوں سے اپنے کیس کے متعلق بات کرسکتی ہے ۔
سوات بارروم میں پانچ سو (500 )سے زیادہ وکلاء کی تعداد ہے ، یہاں پر وکلاء کی بہت زیادہ مسائل ہیں ، لائبریری میں کتابوں کی بہت زیادہ کمی ہے جبکہ لائبریری کیلئے جگہ کی بھی انتہائی کمی ہے،سوات نیوز ڈاٹ کام سے سوات بار روم کے جنرل سیکرٹری عنایت اللہ خان ایڈووکیٹ اور عمرفاروق پا پا ایڈووکیٹ نے خواتین بار کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ خواتین بار کے قیام سے اب خواتین وکلاء کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور خواتین جو مرد وکیلوں کے پاس نہیں اتے تھے اب خواتین وکلاء کے پاس جائیں گے جس سے خواتین کو انصاف مل سکے گا اوروہ اپنی بات تسلی کیساتھ کر سکیں گے۔انہوں نے کہاکہ ڈسٹرکٹ بارسوات گلکدہ میں مسائل تو بہت ہیں لیکن ہال اور کارپارکنگ کی جگہ نہ ہونے کیوجہ سے کافی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ بار روم کا کینٹین بھی چھوٹا ہے ۔
سوات ڈسٹرکٹ بارکے صدر محمد ظاہر شاہ خان جس نے 1984 میں باقاعدہ وکالت شروع کی اور اسی سوات بار سے اپنی وکالت / پریکٹس کا آغاز کیا انکا کہنا تھا کہ یہ نہایت یہی خوشی کی بات ہے کہ خواتین کیلئے بارروم میں ایک علیحدہ بارروم تعمیر کیا گیا ، یو این ڈی پی نے حجرہ فاؤنڈیشن کے تعاؤن سے بنایا ہے اسکافائدہ یہ ہے کہ ہماے خواتین وکلاء کو علحٰیدہ بیٹھنے کی جگہ میسر ہوچکی ہے ، جس میں وہ معاملات اور وکلائنٹس کیساتھ آسانی سے بات کرسکتے ہیں جس سے خواتین کلائنٹس کی مشکلات میں بھی کافی کمی آچکی ہیں ۔
سوات فیمیل بارروم کے قیام میں ہجرہ ارگنائزیشن نے بھی پھر کردار اداکیا ہے، ادارے کے اعلیٰ عہدیدار سید عمر شاہ کا کہنا ہے کہ خواتین بار کے قیام کیلئے یو این ڈی پی کیساتھ مشترکہ کام کیا، جس کے بعد عمارت کی تعمیر کیلئے یو این ڈی پی امادہ ہوئی ، فیمیل بار روم کے درپیش مسائل کے حوالے سے سید عمر شاہ نے کہا کہ لائبریری کے قیام سمیت دیگر مسائل کیلئے یو این ڈی پی کیساتھ رابطہ کرینگے تاکہ خواتین وکلاء کے یہ مسائل بھی حل ہو،انہوں نے کہا کہ ہمارا ادارہ خواتین وکلاء کو بھرپور سپورٹ فراہم کرنا ہمارے ادارے کا مشن ہے، تاکہ خواتین اپنے مسائل اور بے انصاف کیلئے اواز اٹھائیں انہوں نے کہا کہ ہمارے ادارے نے پچھلے سال وکالت کرنے والے چار طالبات کو سکالر شپ دی تھی ۔اس سال بھی ہم مزید چار طالبات کو سکالر شپ دینگے تاکہ وہ وکالت کرکے دکھی انسانیت کی خدمت کرسکیں انہوں نے کہا کہ معذور افراد، خواتین ، بزرگ شہریوں کیلئے عدالت میں فری لیگل ایڈ ڈیسک بنا یا گیا ہے، تاکہ معاشرے کے ان بے بس لوگوں کو بھی انصاف مل سکیں، انہوں نے کہا کہ ہمارا ادارہ ڈسٹرکٹ بار کے علاوہ تحصیل بار روم اور ضلع بونیر میں خواتین وکلاء اور معاشرہ کے بے بس لوگوں کیلئے کام کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین اور مردوں کو قانونی امداد کے حوالے سے ہماری ٹیمیں اگاہی پروگرامات کا انعقاد بھی کرتی ہے، تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو قانون تک رسائی اور معلومات ہوں۔
خواتین بار روم کے قیام کے بعد صائمہ انور ایڈوکیٹ نے اس امید کااظہار کیا کہ انے والے دور میں خواتین کو ان مسائل ومشکلات کاسامنا نہیں کرنا پڑیگا ، جس کا ہمیں ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کووکالت کے شعبے میں اگے انا چاہئے تاکہ اس ملک کے اکثریت سے زیادہ ابادی والے خواتین کو اپنے حقو ق اور انصاف مل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یو این ڈی پی ا ور ہجرہ ارگنائزیشن کے مشکور ہیں جنہوں جو خواتین وکلاء کے مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں۔
906 total views, 1 views today