ترقی کام یابی کا نام ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ ترقی کی راہ پر گام زن ہو۔ کیوں کہ ترقی ہی میں اونچا نام ہے۔ اسی میں عزت چھپی ہوئی ہے اور ساری دنیا کی قدردانی بھی۔ آج کل دنیا بڑی تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کی آپس میں ترقی کے لیے ایک دوڑ لگی ہے۔ اور ہر ملک چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرے تاکہ دنیا کی امامت کا بیڑا وہ ہی اٹھائے۔ اس کی سرزمین پر عوام کو بڑی مقدار میں روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔ غربت اور مہنگائی کا نام بھی نہ ہو اور ملک کے ہر فرد کو خوش حال زندگی گزارنے کے لیے بہترین ماحول میسر ہو۔
ترقی کی اس دوڑ میں ہمارا پیارا پاکستان ابھی بہت پیچھے ہے۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ پاکستان کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ چاہے تعلیمی لحاظ سے ہو، خوشحالی کے لحاظ سے ہو یا پھر صحت کے لحاظ سے ہو۔ ہمارا ملک مختلف اشیاء برآمد کم اور درآمد زیادہ کرتا ہے، جو کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے خسارہ تصور کیا جاتا ہے۔ بہت سے سالوں یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہاں کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے اوراس میں روز افزوں اضافہ ہوتا جار ہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہ پایا گیا، تو بہت جلد پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک (آبادی کے لحاظ سے) بن جائے گا۔
یہاں پر لوگ بڑی مشکل سے اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روزی کماتے ہیں اور اُنھیں اچھی تعلیم دلوانے کی اسطاعت نہیں رکھتے۔ جب بچہ دس سال کا ہوجاتا ہے، تو اُسے تعلیمی اداروں میں بھیجنے کی بجائے کسی ورکشاپ، تندور یا کسی فیکٹری بھیج دیتے ہیں۔ جو اُن کی زندگی کو تباہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر لوگ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ غربت کی وجہ سے بعض لوگ بیرونی ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ ان میں بعض لوگ اپنی زندگیوں کو مشکلات اور دشواریوں میں گزار کر اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی خاطر اپنی خوشیوں کو قربان کر دیتے ہیں۔
اگر ہمارے ملک کا چین سے موازانہ کیا جائے تو چین ایک ایسا ملک ہے جو پاکستان کے بھی بعد میں معرض وجود میں آیا ہے۔ اور پاکستان نے ہی پہلے اس کو اقوام متحدہ میں تسلیم کیا تھا۔ شروع میں وہاں پر بھی غربت، بے روزگاری اور جہالت نے ڈھیرے ڈال رکھے تھے۔ تعلیم کو کوئی جاننے والا نہ تھا اور ترقی کا تو خیال ہی محال تھا۔لیکن آفرین ہے چینیوں پر کہ انھوں نے بحیثیت قوم اپنی تگ و تاز جاری رکھی اور اپنے آپ کو ایک جفا کش قوم کی حیثیت سے منوایا۔ آج ان کا ایک نام ہے۔
باقی ماندہ دنیا کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے زوال کی دو ہی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے، چاہے دوسرا بھاڑ میں چلا جائے۔ ہم اگر واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔اس طرح دوسری بڑی وجہ ہمارے زوال کی ہمارے سیاست دان ہیں جو ہل من مزید کے مصداق اس پیارے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ہمیں ایوانوں میں ایسے نمائندوں کو بھیجنا چاہیے جو بعد میں ملک و قوم کی خدمت کریں نہ کہ ملک کے اندر اور باہر جائیدادیں بناتے پھریں۔
اگر ہم ان دونوں بڑی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو پھر ہمارا پیارا وطن درست خطوط پر استوار ہوجائے گا اور ہم بھی سر فخر سے بلند کرکے دنیا کی باقی ماندہ اقوام کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ملانے کے قابل ہو جائیں گے۔
1,362 total views, 2 views today