سن انیس سو اکانوےء میں جب انگریز کے قدموں نے اس سرزمین کوچھوا اور ان کا دہشت زدہ حملہ قبائلی علاقے پر ہوا، تو مجاہدین نے بھی قبائل کے دست راست بن کر غازی کوٹ کے مقام پر انگریز پرشب خون مارا۔ تاہم انگریز کی کثیر تعداد کے سامنے نہ جمتے ہوئے واپس لوٹے۔ 1893ء میں مجاہدین نے ملکا کے قریب امازئی میں نوآبادی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت انگریز نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ اس کے بعد جب بھی انگریز ملاکنڈ یا سوات پر حملہ کرتا، تو مجاہدین مولوی عبداللہ کی قیادت میں سربہ کف میدان جہاد میں حاضر ہوتے۔
1894ء میں سر تور فقیر کی سرکردگی میں سوات اور بونیر کے غیور عوام نے ملاکنڈ پر حملہ کرکے انگریز کے رونگٹے کھڑے کردیے۔ ان کے اسلحہ ڈپو کو اُڑادیا اور ان کے لشکر کی بڑی تعداد کونیست ونابود کرکے دم لیا۔ اس تاریخی جنگ میں بونیر کے سالارزئی قبیلے نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ اور جواں مردی کے جوہر دکھائے جس پریہ علاقہ انگریزوں کی نظر میں معتوب ٹھہرا اور لشکر کے ساتھ علاقہ سالارزئی پر یورش کی۔ انگریز لشکر کی قیادت جنرل سربنڈن بلڈ کر رہے تھے۔ انگریز نے مورہ تنگے پر قبضہ کیا اور اہل بونیر کی قوت کومنتشر کرنے کے لیے جنگی حکمت عملی کے تحت دوسرا حملہ براستہ پیر سائے چملہ پر کیا، جس سے بونیر کے لوگوں کی قوت تقسیم ہوگئی اور بونیر کوروندا گیا۔ نتیجتاً اہل بونیر پر جرمانہ لگا کر اُنیس جنوری کو واپس لوٹے۔ اس جنگ میں ہندوستانی مجاہدین اپنے قبائلی میزبانوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ لڑے اور جنگ کے بعد پھر سے وادی چغرزئی کی گود میں سر رکھ دیا۔ واضح رہے کہ اس انگریزی حملے میں مشہور ماہر آثار قدیمہ اور نیشنل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اسٹین گورا لشکر کے ساتھ تھے۔ اُس نے یہاں بدھ مت کے مختلف مقامات کی رپورٹ تیار کی، جو گیرارئی تختہ بند اور بامپوخہ وغیرہ میں دیکھے گئے تھے۔ یہ بونیر کی دھرتی پر مرتب ہونے والی غالباً پہلی آرکیالوجیکل سروے رپورٹ مانی جاتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی انگریز کے خلاف تحریک اُٹھی، تو مجاہدین نے ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 1915ء میں جب مجاہدین اسلام اور عظیم حاجی صاحب ترنگزئی نے سدھوم کی سرحد پر ہل چل مچائی، تو بھی مجاہدین اُن کے دست راست بنے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا اتحاد بھی آپس کے اختلافات کا شکار ہوگیا اور یوں مجاہدین دو دھڑوں میں تقسیم ہوئے۔ ایک ٹولہ مولوی نعمت اللہ کے زیر قیادت آسمس میں رہا جب کہ دوسرا ٹولہ مولوی فضل الٰہی کے زیر کمان چمرکنڈ (باجوڑ) کو ہجرت کرنے پر مجبورہوا۔
چمر کنڈ مجاہدین کے لیے سازگار میدان جہاد رہا۔ کیوں کہ حاجی صاحب ترنگزئی نے آخردم تک انگریزوں پر عرصۂ حیات تنگ کیے رکھا اور مجاہدین ترانگزئی صاحب کے شانہ بہ شانہ میدان میں پیش پیش رہے۔
چمر کنڈ مجاہدین کے لیے سازگار میدان جہاد رہا۔ کیوں کہ حاجی صاحب ترنگزئی نے آخردم تک انگریزوں پر عرصۂ حیات تنگ کیے رکھا اور مجاہدین ترانگزئی صاحب کے شانہ بہ شانہ میدان میں پیش پیش رہے۔
1,316 total views, 2 views today