سیدو بابا نہ صرف ریاست سوات بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں مذہبی طور پر ایک بلند پایہ حیثیت کے حامل انسان تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے جدید ریاست سوات کی بنیاد رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
فضل ربی راہیؔ اپنی کتاب ’’سوات سیاحوں کی جنت‘‘ صفحہ 166 پر سیدو بابا کے حوالے سے کچھ یوں رقمطراز ہیں: ’’اخوند صاحبِ سوات کا اصل نام عبدالغفور اور والد کا نام عبدالواحد تھا۔ آپ سوات کے علاقے شامیزئی میں جبڑی کے مقام پر 1794ء میں پیدا ہوئے۔ آپ افغان قوم کے مہمند قبیلے صافی سے تعلق رکھتے تھے، تاہم بعض مقامی بزرگوں کا خیال ہے کہ ان کا تعلق گوجر قوم سے تھا۔ اخوند صاحبِ سوات کو نہ صرف سوات بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں”سیدو بابا” کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔‘‘
ایک انگریز مؤرخ ٹونی جیکس اپنی کتاب “Dictionary of Battles and Sieges” میں مذکورہ جہاد کی تاریخ 6 مئی 1834ء لکھتے ہیں۔
سیدو بابا نے سپل بانڈئی میں مقیم ہو کر شادی کی۔ آپ کے دو فرزند میاں گل عبدالحنان اور میاں گل عبدالخالق پیدا ہوئے۔ 1848ء میں سپل بانڈئی کو خیرباد کہہ کر آپ مستقل سکونت کے لیے سیدو چلے آئے۔ اس وقت سیدو کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی، لیکن جب آپ نے اسے اپنی دائمی سکونت کے لیے منتخب کیا، تو اس کی اہمیت اور وقعت میں یکدم اضافہ ہوا۔ آپ کی وجہ سے سیدو تبدیل ہو کر “سیدو شریف” بن گیا۔
راہی صاحب کے مطابق: ’’1849ء میں جب سکھوں کو شکست دے کر انگریزوں نے پشاور پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا تو اخوند صاحب نے سوات، ملاکنڈ اور بونیر کو انگریزوں کے تسلط سے بچانے کے لیے اپنے تمام وسائل جمع کیے۔ پشتونوں کی باہمی دشمنی ختم کروانے اور ایک مضبوط و مستحکم محافظ فوج ترتیب دینے کے لیے آپ نے بار بار جرگے کیے اور شرعی حکومت کے قیام پر زور دیا۔ چنانچہ پہلی بار آپ نے “ستھانہ” کے سید اکبر شاہ کی نگرانی میں 1849ء میں حکومت قائم کی۔ یہ حکومت نازک اور ناگفتہ بہ حالات میں قائم ہوئی تھی اور ابھی اچھی طرح مستحکم بھی نہ ہوئی تھی کہ 1857ء میں سید اکبر شاہ وفات پا گئے۔ اس کے بعد بھی سوات میں مستحکم حکومت قائم کرنے کے لیے آپ نے اپنی مساعی جمیلہ جاری رکھیں۔
“جب ستمبر 1863ء میں انگریزی فوج کا ایک دستہ ملکا نامی گاؤں کو تباہ کرنے کے لیے بونیر کے علاقہ میں داخل ہوا، تو وہاں کے لوگوں نے انگریزوں کی خلاف شدید مزاحمت شروع کی۔ اخوند صاحب کا جذبۂ جہاد بھی شدت اختیار کرگیا اور آپ 26 اکتوبر 1863ء کو باقاعدہ جنگ پر آمادہ ہوگئے۔ انگریز فوج کے پاس ہر قسم کا جدید اسلحہ تھا اور ان کی تعداد دس ہزار تک تھی۔ اس مسلح اور منظم فوج کے مقابلے میں اخوند صاحب کے ساتھی معمولی دیسی ہتھیاروں یا محض لکڑی اور پتھروں سے مسلح تھے اور ان کی تعداد سات ہزار سے زائد نہ تھی۔ یہ لڑائی پوری شدت سے امبیلہ اور ملکا وادئ بونیر کے پہاڑی مورچوں میں 20 اکتوبر 1863ء سے شروع ہو کر 27 دسمبر 1863ء تک جاری رہی۔
“اخوند صاحب اور ان کے ساتھیوں نے نہتے ہونے کے باوجود بریگیڈئیر جنرل سرنیول چیمبرلین کی افواج کا جس جوانمردی سے مقابلہ کیا، وہ تاریخ کے صفحات میں ایک یادگار دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزوں کو بہت جانی نقصان اٹھانا پڑا، خود چیمبرلین بھی شدید زخمی ہوا۔ مجاہدین کی اکثریت بھی شہید ہوئی۔ انگریزوں کو اس لڑائی میں کوئی علاقہ نہیں ملا، لہٰذا انہوں نے ملکا میں آگ لگا دی۔ مجاہدین ختم نہ ہوئے اور انہوں نے اپنا مرکز دوسری جگہ بنالیا۔‘‘
دوسری طرف انگریزوں کے حوالے سے سیدو بابا کی پالیسی کو ڈاکٹر سلطان روم اپنے ایک مضمون “Abd al-Ghafur, the Akhund of Swat” میں تدبیر پسند اور اطاعت شعار رقم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سلطان روم کے مطابق سیدو بابا نے اس وقت علمِ مزاحمت بلند کیا جب قبائل نے ان پر زور ڈالا۔
سیدو بابا 21 جنوری 1887ء کو وفات پا گئے۔ سوات کے مرکزی شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلہ پر سیدو شریف میں آپ کا مزار واقع ہے۔
بشکریہ لفظونہ
2,448 total views, 2 views today