تحریر، حکیم عثمان علی
سوات کے سرد موسم میں 2018کے عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں جاری ہیں، صوبائی حکمران پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے صوبائی وزراء اور ممبران اسمبلی کی جانب سے آئے روز افتتاحی تقریبات اور شمولیتوں جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے ،پارٹی کے مرکزی سرگرمیوں میں مصروف حلقہ این اے 29کے ممبر قومی اسمبلی مراد سعید نے بھی سوات کو وقت دینا شروع کردیا ہے ،پارٹی ٹکٹوں کے حصول کیلئے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے، 2013کے عام انتخابات میں حلقہ پی کے81میں بہت کم مارجن سے شکست کھانے والے جے یو آئی کے سابق امیدوارسید حبیب علی شاہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں شمولیت کیلئے پر تول رہے ہیں لیکن آئندہ انتخابات میں انہیں حلقہ پی کے 81کے بجائے این اے 29کا ٹکٹ ملنے کا امکان ہے کیونکہ پی کے 81سے ن لیگ کی صوبائی صدر اور وزیر اعظم کے مشیر انجینئر امیرمقام خود امیداور ہیں،عوامی نیشنل پارٹی صوبہ بھر کے تمام حلقوں کیلئے امیدوار نامزد کر کے منفرد اعزاز حاصل کرچکی ہے ،ان کے تمام نامزد امیدواروں کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے جبکہ دوسری طرف ایم ایم اے کی بحالی سے مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے کارکنوں میں نیا جذبہ پیدا ہوگیا ہے البتہ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند پارٹی ٹکٹوں سے ہاتھ دھوسکتے ہیں، سوات میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں کا مختصرجائز ہ لینے کے بعداس سیاسی ڈائری میں صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی سرگرمیوں اور ممکنہ پارٹی امیدواروں پر تبصرہ کر رہے ہیں، سوات کے عوام نے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو مختلف انتخابات میں خدمت کرنے کا موقع دیا ہے 1988میں حلقہ این اے )21 موجودہ این اے (29سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر شہزادہ امانی روم مرحوم ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اس طرح 1988کے عام انتخابات میں پی ایف 65(موجودہ پی کے 80)سے پی پی پی کے ٹکٹ پر ملک فدا محمد خان ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے،1993 کے عام انتخابات میں (حلقہ پی ایف 65)موجودہ پی کے 80کے عوام نے پی پی پی کے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر محبوب الرحمن کو ایم پی اے منتخب کیا تھا،اس طرح 1993میں پی ایف 67موجودہ (پی کے84) سے سابق صوبائی وزیر دوست محمد خان بطور ایم پی اے کامیاب ہوئے تھے،بحرین کالام کے حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک حضرت علی خان 1988اور 1993میں دوبارایم پی اے منتخب ہوئے تھے ، اس طرح 1988میں این اے 22(موجودہ این اے 30)سے ڈاکٹر محبوب الرحمن ایم این اے منتخب ہوئے تھے جبکہ 1993میں پی پی پی کے حمایت سے پیپلز ڈیموکریٹ الائنس کے مشترکہ امیدوار سابق صوبائی وزیر محمد افضل خان لالا بطور ممبر قومی اسمبلی کامیاب ہوئے تھے ، لیکن 1997میں پاکستان پیپلز پارٹی کا گراف نیچے گرنا شروع ہو گیا کیونکہ سابق وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کو صوبائی صدارت سے الگ ہو نے پر پارٹی ڈھڑا بندی کا شکار ہوگئی جس سے پارٹی کے سیاسی ساکھ کو بے حد نقصان پہنچ گیا جب آفتاب شیر پاؤ نے الگ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی شیر پاؤ کے نام سے بنائی تو پی پی پی ورکرز دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے جس کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں پی پی پی کا کوئی امیدوارکامیاب نہ ہوسکا، 2008میں حلقہ این اے 30سے پی پی پی کے امیدوار سید علاؤالدین ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تا ہم سوات کے دیگر سات صوبائی حلقوں اور ایک قومی اسمبلی کی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار منتخب ہوئے تھے اور این اے 30میں پی پی پی کے امیدوار کو اے این پی کی حمایت حاصل تھی ، آفتاب شیرپاؤ کی جانب سے اپنی الگ جماعت بنانے کے بعد بھی پی پی پی سوات میں اختلافات ختم نہ ہوسکے بلکہ ڈھڑا بندی جاری رہی ، ایک ہی وقت میں پی پی پی کے دو ضلعی صدور اور دیگر عہدیدارکے الگ الگ تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا جس کا نتیجہ پی پی پی کے امیدواروں کی مسلسل ناکامی کی صورت میں نکلا، مشرف دور میں دو دفعہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات 2001 ،2005میں پیپلز پارٹی کے اچھے خاصے امیدوار کامیاب ہوئے تھے جس کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے پی پی پی کے مرحوم ڈاکٹر محبوب الرحمن ضلع ناظم منتخب ہوئے تھے
لیکن 2015کے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کی اندرونی اختلافات کی وجہ سے پارٹی اتنی کمزور ہوگئی کہ پی پی پی کے انتخابی نشان تیر پر کوئی امیدوار الیکشن کیلئے تیار نہیں تھا جبکہ بہت سے سیاسی رہنماؤں نے اپنے خاندان کے لوگوں کو آزاد حیثیت سے میدا ن میں اتارا لیکن پھر بھی کوئی کامیابی نہ مل سکی پورے ضلع سوات میں ضلع کونسل کے سطح پر یوسی قمبر سے ایک ضلع کونسلر (موجودہ ضلعی صدر) عرفان حیات چٹان اور انور خان لالا بطور تحصیل کونسلر کامیاب ہوئے یو سی قمبر کے عوام نے شہید فضل حیات چٹان کی شہادت اور ان کی بے مثالی خدمات کی وجہ سے عرفان چٹان کو کامیاب بنایابلکہ انہوں نے تحصیل کی سطح پر ہونے والے انتخابات میں بھی تیر کے نشان پر مہر لگایا ، اب بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی میدان میں آنے کے بعد ملک بھر کی طرح سوات میں بھی پیپلز پارٹی روز بروز فعال ہورہی ہے شاہی خاندان کے سپوت اور سابق لیگی رہنماء شہریار امیر زیب کی پی پی پی میں شمولیت کے بعد پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا ہے ،سابق صوبائی وزیر انجینئر ہمایون خان کو پارٹی صدر نامزد کرنے کے بعد سوات میں گروپ بندی کے خاتمے کیلئے دونوں گروپوں کے اہم رہنماؤں کو نظر انداز کرکے نوجوان رہنماء اور شہید فضل حیات خان چٹان کے بھائی ضلعی کونسلر عرفان چٹان کو ضلعی صدر مقرر کردیا گیااور ان کے ساتھ سابق ضلعی نائب صدر اقبال حسین بالے کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا، نئی قیادت کی نامزدگی سے پارٹی میں بظاہر گروپ بندی ختم ہوگئی ہے ،نوجوان صدر نے پارٹی میں جان ڈالنے کیلئے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لائی ہے ، آنے والے انتخابات میں پی پی پی کیساتھ کسی بڑی سیاسی جماعت کے اتحاد کا امکان نہیں ، اے این پی اور پی ٹی آئی نے پہلے ہی اکیلے پرواز کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، مذہبی جماعتیں آپس میں اتحاد کر رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی پی پی پی کے اتحاد کا کوئی امکان نہیں اس لیے 2018کے عام انتخابات میں پی پی پی نے سوات کے دو قومی اسمبلی کے حلقوں اور سات صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر حصہ لینے کی تیاریاں شروع کر رکھی ہے اسلئے تمام حلقوں کیلئے بہت امیدواران پر تول رہے ہیں سوات میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے اضافے سے مزید ایک امیدوار کو الیکشن میں موقع مل سکتا ہے ، حلقہ این اے 29کیلئے پی پی پی کے ممکنہ امیدوار شاہی خاندان کے سپوت شہریار امیرزیب ، سابق ضلع صدر شمشیر علی خان ایڈوکیٹ اور دوست محمد خان لنگر خیل شامل ہیں،
ان امیدواروں کے علاوہ نوجوانوں سمیت دیگر پارٹی عہدیدار بھی درخواستیں دے سکتے ہیں ، حلقہ این اے 30سے پی پی پی کے ٹکٹ پر سابق ممبر قومی اسمبلی سید علاؤ الدین ، ملک خورشید علی ، کمال خان شمع خیل اور یاپارٹی میں دوبارہ شامل ہونے والے سابق وزیر دوست محمد خان الیکشن لڑ سکتے ہیں،حلقہ پی کے 80سے سابق امیدوار ریاض خان ایڈوکیٹ ، شاہی خاندان کے فرزند اور سے ضلعی کونسلر امیر زیب شہریار نظریاتی اور سرگرم ورکر ڈاکٹر پرنس فضل الرحمن ، ڈپٹی جنرل سیکر ٹری سوات بخت شیروان ، سابق ضلعی صدر شمشیر علی خان ایڈوکیٹ ،ضلعی جنرل سیکرٹری اقبال حسین بالے ، شمشیر علی عثمان ، نوجوان رہنما سجاد باغی ایڈوکیٹ میں کوئی ایک امیدوار نامز د ہوسکتا ہے حلقہ پی کے 81سے سابق ضلعی جنرل سیکرٹری روح الامین لالا ، ضلعی صدر عرفان چٹان،پی کے 81کے صدر پرنسپل خورشید خان، سابق ضلعی صدر سلیم شاہ محمد خان اور شہریار امیر زیب میں کسی ایک امیدوار کو پارٹی ٹکٹ مل سکتا ہے ، حلقہ پی کے 80کیلئے ممتاز خان ایڈوکیٹ آف بریکوٹ، ضلعی سیکرٹری اطلاعات مختیار خان، عطاء الرحمن گران ، عرفان ودود ، سابق امیدوار شہزاد میں کسی ایک کو پروانہ مل سکتا ہے ، حلقہ پی کے 83کیلئے سابق امیدوار برائے صوبائی اسمبلی اور تحصیل کونسلر نجیب اللہ خان ، تحصیل کبل صدر محبوب علی خان ، وزیر زادہ آف علی گرامہ اور احسان اللہ خان میں کسی ایک کو ٹکٹ مل سکتا ہے ، تاہم نجیب اللہ خان کو مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا ہے ، حلقہ پی کے 84سے سابق صوبائی وزیر دوست محمد خان، سابق امیدوار انور زمان خان ، سید اکبر خان اور فریدون ایڈوکیٹ امیدوار ہوسکتے ہیں، حلقہ پی کے 85سے سابق امیدوار ملک خورشید خان ، ملک نوازش علی خان میں کسی ایک کو پارٹی ٹکٹ ملنے کا امکان ہے تاہم دیگر امیدوار بھی پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے درخواستیں دے سکتے ہیں ،پی کے 86سے سابق امیدوار اور پی پی پی کے اپر سوات کے صدر شاہی خان ، سعد اللہ خان اور یاسر بیروم خان میں کسی ایک امیدوار کو ٹکٹ دیا جاسکتا ہے ، تاہم اس حلقے کیلئے شاہی خان کو مضبوط امیدوار تصور کیا جار ہا ہے جس نے حلقہ سمیت اپر سوات میں سیاسی سرگر میوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے ، ایک طرف پی پی پی کے متوقع امیداواران تیاریاں کر رہے ہیں تو دوسری طرف پارٹی میں اندرونی اختلافات بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں، صوبائی سطح پر ڈھڑا بندی کا امکان پیدا ہوگیا ہے،صوبائی صدر ہمایون خان کو عہدے سے ہٹانے کیلئے پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے سابق صوبائی عہدیداروں سمیت اضلاع کے سابق عہدیدار سرگرم ہوچکے ہیں اور باقاعدہ احتجاجی تحریک شروع کررکھی ہے جس میں وہ پیپلز یوتھ ارگنائزیشن کے سابق عہدیدار وں کو بحال کرنے اور موجودہ صوبائی صدر کو بر طرف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، اس طرح ضلع ملاکنڈ کے علاقہ تھانہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی رہنما لعل خان اور دیگر رہنما سابق سینئر وزیر اور سابقہ صوبائی صدر رحیم داد خان یا کسی اور مقبول رہنما کو صوبائی صدر نامزد کرنے کیلئے پس پردہ تحریک چلارہے ہیں، بیشتر اضلاع میں بھی صوبائی صدر ہمایون کے فیصلوں پر تنقید ہورہی ہے اس لیے2018کے عام انتخابات میں پی پی پی کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے پارٹی کے اندر اختلافات کا خاتمہ ضروری ہے ورنہ پی پی پی کی کارکردگی 2002,2008,2013کے انتخابات کی طرح 2018میں بھی مایوس کن ہوسکتی ہے ، تاہم 2018میں صوبے کے عوام کس پارٹی کے امیدواروں کے حق میں فیصلہ دے سکتے ہیں اس لیئے انتخابات کے انعقاد تک انتظار کرنا ہوگا.
2,278 total views, 2 views today