تحریر؛۔ خورشید علی
ہزاروں سال پرانی تہذیبی تاریخ اپنے دامن میں سموئے سوات کی خوبصورت واددئ ’’کڈونہ ‘‘ دور جدید میں اپنے حال پر نوحہ کناں ہے جسے ہر دور حکومت میں یہاں سے منتخب ہونے والے حکومتی نمائندوں نے نظر انداز کیا ہوا ہے اس وادی کی ایک بچی جو ہانپتی کانپتی پہاڑی پر چڑھ رہی تھی بمشکل اس کی عمر چھ سے سات سال تک ہوگی لیکن جب وہ اپنے گاؤں سے مرغزار تک سفر کرتی ہے تو اس کو دو سے تین گھنٹے لگتے ہیں، وہ ایک ایسے دور درازکے پہاڑی اور خوبصورت وادی کڈونہ گاؤں کی رہائشی ہے جس کی اپنی ایک تاریخ ہے وہ تاریخ نہ ایک سال پرانی ہے نہ ایک سو سال اور نہ ایک صدی پرانی ہے، بلکہ اس وادی نے ہزاروں سال پرانی تاریخ اپنے دامن میں محفوظ رکھی ہوئی ہے، تبت ، جاپان، کے لوگ اس وادی کو مقدس ترین مانتے ہیں، جبکہ اہلیان سوات اس وادی کو ریاستی دور کا اولین دارالحکومت گردانتے ہیں۔ریاست سوات کے اولین حکمران بادشاہ صاحب نے جب ریاست کی بنیاد رکھی تو انہوں نے اس وادی کو منتخب کیا ، یہاں پر ان کا دربار بھی تھا جسمیں وہ اہم فیصلے کیا کرتے تھے، جبکہ مقامی لوگوں نے ریاست کے اولین حکمران باچا صاحب کو پہاڑوں جیسے سخت سیکورٹی فراہم کی تھی ،
وادی مرغزار سے جب کچے راستے پر آپ وادی ایلم کی جانب پیدل سفر شروع کرتے ہیں تو آپ کو جگہ جگہ خوبصورت چشمے اور ساتھ ساتھ گزرتا دریا آپ کا ہم سفر ہوگا، اپنے دامن میں تاریخ سمیٹے یہ علاقے جدید دور میں پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے، جب آپ اوپر پہاڑوں کی جانب جاتے ہیں تو راستے میں ہر چند قدم کے فاصلے پر بوڑھے، جوان، خواتین بچے شہر کی طرف آتے ہوئے ملیں گے، اس میں وہ بچے بھی ہونگے جو ہر صبح نماز سے پہلے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور دو سے تین گھنٹے پیدل فاصلے طے کرکے مرغزار میں واقع ہائی سکول آتے ہیں اور جب واپس پہنچتے ہیں تو شام کا اندھیرا چھایا ہوا ہوتا ہے۔اس وادی تک پہنچنے کیلئے شاہی خاندان کے چشم وچراغ میاں گل اسفندیار امیرزیب مرحوم نے ایم آر ڈی پی کے تعاون سے تقریبا چار کلومیٹر سڑک پہاڑی کاٹ کر بنائی ہے،
اس نے علاقہ کے عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے اباؤ اجداد کے اولین تخت تک سڑک بنائیں گے تاہم سوات کے کشیدہ حالات کے دوران ان کو شہید کردیا گیا اور یوں یہ خوبصورت وادی سڑک کی نعمت سے محروم ہوگئی ہے ۔کڈونہ اور جوگیانو چم تک درجنوں صحافی ، سینکڑوں سیاح اور ہزاروں بدھ مت کے پیروکار سفر کر چکے ہیں لیکن اس سڑک کی تعمیر کا خیال کسی کو نہیں آیا ہے، اس سڑک پر چار دیہات آباد ہیں جس میں کڈونہ،سربابو سرجوزو،مرتراپنڈو شامل ہیں، ان چار گاؤں کی رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے گزشتہ انتخابات میں اس گاؤں کے عوام نے متفقہ طور پر تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی عزیز اللہ گران کو ا س لئے ووٹ دئے تھے کہ وہ چارسے پانچ ہزار آبادی والے اس درے کے عوام کو سڑک کا تحفہ دیں گے،
تاہم چار سال سے زائد گزرنے کے باوجود وہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا، پاکستان تحریک انصاف کے ایک بزرگ کارکن شیر سے جب ہماری بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ایم پی اے عزیز اللہ گران دو مرتبہ اس وادی میں آئے ہیں انہوں نے ایک مڈل سکول اور سٹرک کی تعمیر کا وعدہ کیا تاہم ابھی تک سڑک پر کام شروع نہیں ہو سکا ہے، انہوں نے کہا کہ جب بھی علاقہ عوام کی ایم پی اے عزیز اللہ گران سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اے ڈی پی میں اس سڑک کو شامل کیا گیا ہے، لیکن نا معلوم اے ڈی پی میں شامل اس سڑک پر کام کب شروع ہو گا، اس وادی میں ایک بھی بیسک ہیلتھ یونٹ نہیں ہیں، علاقے میں چھوٹی بڑی بیماری میں مبتلا مریض آٹھ اور کبھی دس کلومیٹر تک کا راستہ پیدل طے کرکے مرغزار پہنچتے ہیں
اس کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر سنٹرل ہسپتال تک اپنے مریض لاتے ہیں، جب ہم اس وادی کی کوریج اور مسائل کے حوالے سے رپورٹس تیار کررہے تھے تو ہمیں ایلم وادی سے ہسپتال جانے والا ایک شخص ملا ، جو نماز فجر ادا کرنے کے بعد سفر پر نکلا تھا اور گیارہ بجے کے قریب وہ ہمیں راستے میں ملا ، اس کے کندھے پر سات آٹھ سال کا ایک بچہ بیٹھا تھا جس کی آنکھیں بھیگی تھی اور اس کی آنکھیں بیماری سے متاثرہ تھیں، وہ حسرت ویاس کی نظروں سے یہ سوال کررہا تھا کہ کیا ہم پاکستان کے باشندے نہیں ہیں جو اکیسویں صدی میں بھی سڑک کی نعمت سے محروم ہیں، اس کے ساتھ ایک بزرگ ستر سال کا بوڑھا بھی راستہ طے کرتا ہواہمیں ملا ،
اس نے کہا کہ ہر دوسرے تیسرے روز جب بیمارکو نیچے لایا جاتا ہے تو وہ پیدل سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملتے ہیں،مقامی لوگوں خانے ، اصغر، اور یعقوب کا کہنا ہے کہ ان دشوار گزار پہاڑیوں تک اشیاء ضروریہ پہنچانا بھی بہت زیادہ مشکل ہے، جو غریب لوگ ہیں وہ اپنے کندھوں پر آٹا، گھی ، چینی وغیرہ اپنے گھروں تک لے جاتے ہیں، جبکہ جن لوگوں کے پاس تھوڑا بہت پیسہ ہوتا ہے تو وہ اپنی اشیاء ضروریہ کو خچروں کے ذریعے اپنے گھروں تک پہنچاتے ہیں ، اس علاقے کی جانب سفر کرتے ہوئے سیاح اور مقامی لوگ کچے راستے پر سفر کرتے ہوئے جا بجا خچروں پر لدھے ہوئے سامان کے ساتھ نظر آتے ہیں ، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سات سو روپے پر آٹے کی چھوٹی بوری خریدتے ہیں اس پر تین سو روپے اوپر لے جانے پر خرچہ آتا ہے، انہوں نے کہا کہ ریاست سوات کو مدغم ہوئے کتنے سال ہوگئے ہیں لیکن کسی بھی حکومت کی نظر اس وادی پر اوریہاں پر مقیم باشندوں کی مشکلات پر نہیں پڑی ہے، انہوں نے کہا کہ دو ہزار سے زائد گھراس وادی میں آباد ہیں،
اس کے باوجود یہاں سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پوری وادی میں چار پرائمری سکول ہیں لیکن مڈل اسکول ایک بھی نہیں ہے، جو بچے پرائمری تک پڑھ لیتے ہیں ا نہیں پھر مڈل سکو ل کیلئے مرغزارجانا پڑتاہے دو تین مرتبہ بچے مرغزار جانے کے بعد بیمار پڑ جاتے ہیں اور سکول کو چھوڑ دیتے ہیں،مقامی لوگوں نے کہا کہ اب ساٹھ سال گزرنے کے بعد کہیں پی ٹی آئی حکومت کو توفیق ہوئی اور ایم پی اے عزیز اللہ گران نے مڈل سکول تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے جس پر کام شرو ع ہو گیا ہے، مقامی آبادی نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس علاقہ میں بی ایچ یو ، سڑک اور ایک دوجگہ پل کی تعمیر کرے تاکہ اس وادی میں رہائش پذیر عوام کی مایوسی کا خاتمہ ہو سکے ۔
4,096 total views, 2 views today