تحریر ؛۔ شہزاد عالم
عام انتخابات قریب آتے ہی ملک کے دیگر حصوں کی طرح سوات میں بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھر پور انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اور سوات کا سیاسی ماحول مکمل طور پر انتخابی ماحول میں تبدیل ہو چکا ہے سیاسی جماعتوں کے ٹکٹوں کے حصول کیلئے الیکشن لڑنے کے خواہش مند افراد کی کوششیں جاری ہے تاہم تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی اُمیدواروں کی نامزدگی کا عمل مکمل نہ ہو سکا ہے اور اُمیدواروں کی نامزدگی میں سیاسی جماعتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے عوامی نیشنل پارٹی کو سب سے پہلے اُمیدواروں کی نامزدگی کا اعزاز تو حاصل ہو گیا تھا لیکن انتخابی حلقوں میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ردو بدل کے بعد ان کو بھی یہ مشکل پیش آ گئی ہے کہ ایک ایک حلقے میں اے این پی کے دو دو اُمیدوار آمنے سامنے آ گئے اور ان میں سے کسی ایک نامزد کرنا پارٹی کیلئے مشکل مرحلہ ہے اس طرح حلقہ بندیوں میں ردو بدل نے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور اس صورتحال کا سامنا حکمران جماعتوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی کرنا پڑ رہا ہے ، دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل ،قومی وطن پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے اُمیدواروں کی نامزدگی کا عمل تاحال مکمل نہ ہو سکاہے اس طرح سوات میں ان دنوں سیاسی جماعتوں سے مستعفی ہونے اور کسی دوسرے سیاسی جماعت میں شمولیتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور کسی جماعت کو فائدہ اور کسی جماعت کو نقصان ہوارہاہے اگر سیاسی اتار چڑھاؤ کے حوالے سے سوات کے سیاسی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کو سیاسی نقصان اُٹھانا پڑا ہے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کبل میں مسلم لیگ ن کا جلسہ ایک بڑا سیاسی پاور شو تھا لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس جلسہ کے بعد متوالے اس طرح غائب ہو گئے اورسوات میں ان کی کوئی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آ رہی اور ویسے بھی مسلم لیگ ن حقیقت میں ” ون مین شو ” پارٹی بن چکی ہے اور مسلم لیگ خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام ہی پارٹی کے حوالے سے کارکنوں پر ہر فیصلہ مسلط کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتے ہیں اور ان کا ہر فیصلہ کارکنوں کو قبول کرنا ہو گا کارکن اور پارٹی کے صف اول کے ساتھیوں کو اس کی پاسداری کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے مسلم لیگ میں ون مین شو کے ذریعے پارٹی کی سرگرمیوں کو مخصوص علاقوں اور مخصوص دنوں تک محدود رکھا گیا ہے اور اس پارٹی کے ڈان نے تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کو ایک سیاسی جماعت کے بجائے ڈرائنگ روم تک محدود کر رکھا ہے اور اس پارٹی میں آج تک جمہوری طریقے سے پرائمری سطح سے لیکر صوبائی سطح تک عہدوں کا انتخاب بھی نہیں کرایا گیا ہے
سوات میں سیاسی درجہ حرارت اسمان کو چھونے لگا ،پی ٹی ائی کا گراف بلند ،عوامی نیشنل پارٹی ،ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی بھی مقابلے کے موڈ میں ہیں ،اے این پی نے امیدواروں کو اعلان کردیا ہے ،پی ٹی ائی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کا ناموں کا اعلان جلد ہوگا ،سوات میں ائندہ عام انتخابات کیلئے سیاسی درجہ حرارت عروج پر پہنچ گیا ہے اور جلسوں و جلوس کا سلسلہ جاری ہے اور سیاسی میدان سجنے لگیں ہے اس سلسلے میں اے این پی کے قائد اسفندیار ولی خان ،جے ائی سراج الحق ،جے یو ائی کے مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ کے میاں نواز شریف سمیت دیگر پارٹی قائدین قوت کا مظاہرہ کر چکے ہیں جبکہ وقفے وقفے سے سیاسی سرگرمیاں جاری ہے اس طرح مقامی قائدین کے سرگرمیوں میں تیزی ائی ہے اور انہوں نے غمی خوشی میں شرکتوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے اور کارنر میٹنگ بھی جاری ہے .
اس وقت سوات میں پی ٹی ائی سب سے بڑی قوت ہے اور حکومت کا ایک مہینہ رہ جانے کے باوجود دیگر پارٹیوں اہم شخصیات پی ٹی ائی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں جس سے انکی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،سوات میں نئے حلقہ بندیوں کے بعد حلقوں کے نمبر تبدیل ہوگئے ہیں اور مینگورہ شہر کے بجائے حلقہ کی نمبرز کالام سے شروع ہوگئے ہیں جس کے مطابق پی کے ٹو ،تھری ،فور ،فائیو ،سکس ،سیون ،اٹھ اور نو جبکہ قومی اسمبلی کے دو ،تین اور چار ہوگئے ہیں اور صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں ایک ایک حلقہ زیادہ ہو گیا ہے
مینگورہ شہر میں عوامی نیشنل پارٹی نے بھی سرگرمیاں تیز کردی ہے اور مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری واجد علی خان اور ضلعی صدرشیر شاہ خان سمیت تمام رہنماء متحرک ہوگئے ہیں اور کارنرز میٹنگ کا سلسلہ تیز کردیا ہے اور عوامی نیشنل پارٹی سے نئے حلقے پی کے فلور جوکہ اسلام پور ،مرغزار ،کوکاری ،گل کدہ نمبر دو تین ،سنگوٹہ ،چارباغ اور سیر تلیگرام پر مشتمل نیا حلقہ بن گیا ہے اس سے ایک طرف ن لیگ کے امیر مقام کا انتخابات میں حصہ لینا متوقع ہے تو دوسری طرف اے این پی کی جانب سے تحصیل ناظم اکرام خان کا نام گردش کررہا ہے اگر اکرام خان کو امیدوار نامزد کیا گیا تو اسکی جیت کے امکانات زیادہ ہونگے کیونکہ ان کا علاقے میں اپنا ایک بڑا ووٹ موجود ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحصیل نظامت کے دوران اسلام پور ،مرغزار اور دیگر علاقوں میں بے تحاشہ ترقیاتی کام کئے ہیں اس وجہ سے وہ عوام میں کافی مقبول ہے تو مخالف پارٹی کے امیدواروں کے مشکلات بڑھ سکتے ہیں
اس طرح پاکستان تحریک انصاف کے ڈویژنل صدر محمود خان اور ضلعی صدر فضل حکیم خان بھی عوامی خدمت کیلئے پیش پیش ہیں لیکن پی ٹی ائی کی جانب سے ٹکٹوں کا اعلان نہ ہونے کے وجہ سے ابھی تک امیدوار سامنے نہیں اسکیں ،لیکن اسکے باوجود پی ٹی ائی کی پوزیشن مستحکم ہے ،کیونکہ صوبائی وزیر محمود خان اور فضل حکیم علاقے میں عوام کی خدمت عہدوں کے باوجود خادموں کی طرح کر رہے ہیں اور ہر وقت عوام کی بیچ میں موجود ہونے کے وجہ سے عوام میں مقبول نظر آرہے ہیں
دوسری جانب سوات کی تاریخ میں ریکارڈ ترقیاتی کام پی ٹی ائی کے دور میں ہوئے ہیں جس میں مینگورہ شہر میں بیوٹیفیکیشن کی مد میں ایک کروڑ اٹھارہ کروڑ روپے کی لاگت سے مینگورہ شہر کے اندرون سڑکوں کی تعمیر و مرمت سمیت شہر کی تزین و ارائش پر سوات کی تاریخ میں پہلی بار کام جاری ہے جس سے عوام کافی مطمعن نظر ارہے ہیں اور ائندہ عام انتخابات میں پی ٹی ائی مقابلے کی موڈ میں ہوگی اور تمام پارٹیوں کا مقابلہ پی ٹی ائی سے ہوگا
دوسری جانب مسلم لیگ ن کی عوامی نیشنل پارٹی سے اتحاد کی باتیں گردش کر رہی ہے اگر اتحاد ہوبھی جائیں تو اس سے ن لیگ یا اے این پی کو فائدہ نہیں پہنچے گا .
قومی وطن پارٹی میں بھی پریشر گروپ بن گیا ہے اور اندرونی اختلافات کھل کر سامنے اگئے ہیں جبکہ سابق چیف جسٹس اف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کے بھائی اور کامران خان خاندان کے رفیع المک نے بھی قومی وطن پارٹی سے استفی دے دیا ہے اور امکان ہے کہ وہ پی ٹی ائی میں شمولیت اختیار کر یں جس کے وجہ سے قومی وطن پارٹی مشکلات کا دوچار ہوسکتی ہے
مینگورہ شہر سمیت سوات میں سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم کے سیاست کو نظر انداز نہیں کیا سکتا ہے انکا علاقے میں ایک بڑا ووٹ بینک اس وجہ سے موجود ہے کہ ایک طرف وہ شہر میں دس ہزار دکانداروں کی نمائندگی کرتا ہے تو دوسری طرف صبح سے رات تک صرف اور صرف عوام کے کاموں کے سلسلے میں کچہری ،پولیس سٹیشن ،دفاتر اور جرگوں میں مصروف رہتا ہے اور ٹارگٹ پر ہونے کے باوجود عوام کی خدمت کیلئے خود کو وقف کردیا ہے اور انکے ایک اواز پر لبیک کہنے کیلئے سیاسی و سماجی شخصیات اور تاجر برادری ہر وقت کھڑے ہوتے ہیں انکا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے اور انہوں نے پی کے پانچ اور این اے تھری کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائیں ہیں اور اگر انکو ٹکٹ دیا گیا تو دوسرے پارٹیوں کو وہ ٹف ٹائم دینگے کیونکہ 1993 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انہوں نے ساڑھے پانچ ہزار جبکہ ستانوے میں صوبائی حلقے میں انہوں نے ازاد حیثیت سے ساڑھے سات ہزار ووٹ حاصل کئے تھے دوسری پارٹی رہنماء عبدالرحیم کو ٹکٹ ملنے کی صورت میں خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے ہیں اور وہ اس حلقے سے مظبوط امیدوار کے طور پر سامنے ائیں گے ۔اور اگر پی ٹی ائی کی جانب سے نئے شامل ہونے والے اور نوجوانوں میں مقبول انجینئر عمر فاروق کو ٹکٹ دیا گیا تو پھر تو کانٹے کی مقابلے کی توقع ہے کیونکہ انجینئر عمر فاروق ایک سنجیدہ اور با صلاحیت شخصیت اور نوجوانوں میں کافی مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار سیاست دان اور ڈلہ فرہ کا مالک ہے اور ہر وقت انکے ساتھ مقامی لوگوں اور پی ٹی ائی کے کارکنوں کو ایک جم غفیر جمع ہوتا ہے اور انکی سیاست پارٹی نہیں بلکہ ان کے گرد کھومتی ہے وہ جہاں بھی ہو انکا ڈلہ انکے ساتھ ہوتا اور یہی حال عبدالرحیم کا ہے تو دونوں میں کانٹے کے مقابلے کی توقع ہوگی
سوات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاست کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اب والی سوات خاندان کے اخری چشم و چراغ شیر یار امیر زیب اور انکے بیٹے امیر زیب شیر یار کے پی پی پی میں شمولیت سے پارٹی مذید مضبوط ہوگئی ہے کیونکہ انکے ابو اجداد نے 52 سال سوات سٹیٹ ہر حکومت کی تھی اور انکے دور کے بروقت انصاف ،ترقی اور خوشحالی اور امن کو اج بھی لوگ یاد کرتے ہیں اور انکا علاقے میں مضبوط ووٹ بینک موجود ہے .
پہلے ہی سے سوات کے اہم پراچہ خاندان کے ریاض احمد خان ایڈوکیٹ اور سابق جج شمشیر علی خان کے وجہ سے پارٹی عوامی خدمت کیلئے تیار رہتی تھی لیکن اب انکے انے کے بعد پارٹی کی پوزیشن مذید مضبوط ہوگئی ہے اور انکو بھی کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
سوات میں ایم ایم اے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اسکی طاقت کا صحیح اندازہ امیدواروں کو ٹکٹ ملنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ جماعت اسلامی سوات کے امیر محمد امین ،جے یو ائی کے اسحاق زاہد اور مولانا حجت اللہ علاقے میں معروف ہے اور ایم ایم اے کے ٹکٹوں کی تقسیم کے فارمولے کے بعد انکی صحیح طاقت معلوم ہوگی کہ کس کس پارٹی کو کونسے حلقوں کے ٹکٹ دئے جاینگے ۔مسلم لیگ ن کی جانب سے سوات میں عرصہ سے سابق ایم پی اے قیموس خان صدر چلے آ رہے ہیں ان کو امیر مقام نے تا حیات صدر مقرر کیا ہے لیکن دیگر کابینہ کے حوالے سے کوئی پتہ نہیں ہے دیگر اراکین کون ہے تاہم کافی عرصہ سے سوات کے ایک نامی گرامی شخصیت انجینئر عمر فاروق کو جنرل سیکرٹری کے عہدے پر رہنے کا حکم صادر فرمایا گیا تھا لیکن جب ان کی طرف سے مسلم لیگ ن کے ساتھ اور خصوصاً صوبائی صدر کے ساتھ اُصولی اختلافات سامنے آئے تو انہوں نے پارٹی کو خیر باد کہہ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور ان کے ساتھ مسلم لیگ ن کے دیگر کارکنوں کی تحریک انصاف میں شمولیت سے اگر ایک طرف سوات میں ن لیگ کے ضلعی جنرل سیکرٹری اور ساتھیوں کی ن لیگ کو خیر باد کہنے سے پارٹی کو نقصان ہوا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف کو فائدہ ہوا ہے اور جب ن لیگ میں ضلعی جنرل سیکرٹری کا عہدہ خالی ہوا تو اس کیلئے جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے سید حبیب علی شاہ بالکل تیار تھے
جنہوں نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا اور ان کو ضلعی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر براجماں کر دیا گیا سوات میں قوم لالہ گان کا سیاست میں ایک منفرد مقام حاصل ہے اور ان کو مائنس نہیں کیا جا سکتا قوم لالہ گان کے بزرگ سید محمد علی شاہ باچہ لالہ جو کہ کئی بار صوبائی وزیر اورممبر صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں اور مسلم لیگ سے ان کا خاندانی تعلق چلا آ رہا ہے لیکن امیر مقام کی طرف سے ایسے خاندان کو نظر انداز کرنا جن کی پہچان صرف اور صرف مسلم لیگ ہے مسلم لیگ کیلئے نقصان کا باعث ہے اور آج کل سید محمد علی شاہ باچا لالہ خاموش رہتے ہوئے پارٹی کی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو چکے ہیں اس طرح سوات کی رائل فیملی ( والئی سوات ) کا خاندان بھی امیر مقام کیوجہ سے مسلم لیگ کو چھوڑ چکے ہیں یا خاموش ہیں شہریار امیر زیب اور ان کے ساتھیوں نے امیر مقام کے نا مناسب رویہ کیوجہ سے پی پی پی میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ والی عہد کے فرزند عدنان اورنگزیب اور ان کے ساتھیوں نے مکمل خاموشی اختیار کی ہے اور اس طرح اپر سوات سے تعلق رکھنے والے الحاج شجاعت علی اور ان کاخاندان بھی مسلم لیگ سے بد ظن ہو چکا ہے تاہم اگر مجموعی طور پر سوات میں مسلم لیگ کے سیاسی پس منظر دیکھی جائے تو یہ جماعت ایک شخص کے گرد گھوم پھر رہی ہے اور انجینئر امیر مقام جو کہ آئندہ الیکشن کیلئے اُمیدواروں کو نامزد کرینگے تو اس نے تاحال کسی اُمیدوار کو نامزد نہیں کیا تاہم ایک ایک حلقے سے کئی افراد کو یہ اُمید دے چکے ہیں کہ ان کو نامزد کر دیا جائے گا اور گزشتہ الیکشن میں بھی انہوں نے اس طرح کا طریقہ کار اپنایا ہوا تھا جو ان کی اور پارٹی کی بد ترین شکست کا سبب بنا ، اُمیدواروں کی نامزدگی کے حوالے سے ہر ایک کو اُمید میں رکھا گیا ہے
جس سے الیکشن کے خواہش مند لیگیوں میں نہ صرف تشویش پائی جاتی ہے بلکہ ٹکٹ کی آس لگائے ہوئے بیٹھے افراد تذبذب کا شکار بھی ہے سوات میں مسلم لیگ ن کو اگر ڈرائنگ روم سے نکال کر ایک عوامی جماعت کی طرح سرگرمیوں کی اجازت دی جائے اور اوپر سے فیصلے مسلط ہونے کی بجائے باہمی مشاورت کو اپنایا جائے اورمشاورت کے ساتھ پارٹی پارٹی چلائی جائے تو شاید مسلم لیگ سوات میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکے گی اگر اس طرح ایک شخص کے گرد پارٹی گھومتی رہی تو پھر سوات میں ن لیگ کے بہتر مستقبل کی توقع رکھنا عبث خیالی کے سوا کچھ نہیں ۔
2,478 total views, 2 views today