تحریر : غفور خان عادل
شوکت یوسفزئ کسی تعارف کے محتاج نہیں ، قلم قبیلہ میں ایک منفرد مقام حاصل کرنے والے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کوچہ صحافت کے ایک با صلاحیت شخصیت آزاد صحافت کے علمبردار شوکت یوسفزئ نے میدان صحافت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد جب ان کو عوامی مسائل کے حل کیلئے شعبہ سیاست سے وابستگی کا احساس ہوا تو انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے پرچم تلے لوگوں کی خدمت کیلئے لنگوٹ کس کر باقاعدہ طور پر سیاسی میدان میں نمودار ہو گئے اور اس سیاست میں آ گئے اور چھا گئے شوکت یوسفزئ کا شمار اگر ایک طرف صوبہ خیبر پختونخوا کے صف اول کے صحافیوں میں ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کو ان کے قائدانہ صلاحیتوں نے سیاست کی بلندیوں پر پہنچا دیاہے خیبر پختونخوا کے وزیرا طلاعات وتعلقات عامہ شوکت یوسفزئ طویل عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ رہے اور وہ بنیادی طور پر قلم قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں شوکت یوسفزئ تین بار پشاور پریس کلب ، یونین آف جرنلسٹس کے صدر کے عہدے پر فائر رہے ہیں بطور پریس کلب خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر پریس کلب کے صحافیوں کے حقوق کیلئے نمایاں خدمات سرانجام دیں ان کو وزیراطلاعات کا منصب سونپنا تحریک انصاف کی قیادت کا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے شوکت یوسفزئ صحافی ہونے کے ناطے وزارت اطلاعات ، تعلقات عامہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور عوام و حکومت کے مابین ذرائع ابلاغ کے ذریعے قریبی روابط کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں شوکت یوسفزئ کو جو حکومتی عہدہ ملا ہے وہ اس عہدے کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہوئے نہ صرف حکومتی موقف کو بہترا نداز میں لوگوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے بلکہ صحافیوں حکومت اور محکمہ اطلاعات میں رابطوں کا جو فقدان محسوس کیا جا رہا ہے وہ ان رابطوں کی بحالی کیلئے بھی کردار ادا کرینگے
ان کو وزارت اطلاعات و تعلقات عامہ کی وزارت ملنے سے صحافی حلقوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور خصوصاً کارکن صحافیوں نے شوکت یوسفزئ کو اُمید کی ایک کرن قرار دیتے ہوئے یہ توقع رکھے ہوئے ہیں کہ اب صحافیوں اور اخباری مالکان کے تحفظات دور ہو سکیں گے تاہم شوکت یوسفزئ جہاں تک صحافیوں کیلئے قابل تقلید شخصیت ہے وہاں سیاستدانوں اور خصوصاً نوجوانوں کیلئے ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے سیاست میں آنے والے نوجوان سیاست کے حوالے سے مستفید ہو سکتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ حاصل کر سکتے ہیں ویسے تو شوکت یوسفزئ سے راقم الحروف کا تعلق دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے اور ایک وقت تھا جب شوکت یوسفزئ بشام میں اور میں اور سلیمان یوسفزئ مینگورہ سوات میں پشاور کے اخبارات کیلئے بحیثیت نمائندے کام کرتے تھے ہم نے شوکت یوسفزئ کو ایک محبت بھرا انسان پایا ان کی مٹھاس باتوں میں اپنائیت پائی ہے اور جب انہوں نے بشام سے صحافتی اُڑان بھرا اور وہ پشاور میں روزنامہ مشرق سے وابستہ ہو گئے
تو مجھ جیسے کارکن صحافیوں کو ایک نیا حوصلہ ملا شوکت یوسفزئ نے مجھ جیسے کارکن صحافیوں کی بھر پور حوصلہ افزائی کی اور جب سوات میں روزنامہ مشرق کیلئے لکھنا بھی ایک بڑا جرم تصور کیا جاتا کسی کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ مشرق کیلئے لکھے تو اس وقت شوکت یوسفزئ نے ہماری ٹوٹی پھوٹی مضامین اور آرٹیکلز مشرق کے کلر ایڈیشن میں شائع کرکے وہ جمود توڑ ڈالا جس کو سوات سے تعلق رکھنے والے کوئی لکھاری اپنی تحریر مشرق میں شائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا شوکت یوسفزئ کو یاد ہو گا کہ جب وہ خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر تھے تو انہوں نے صوبہ بھر کے کارکن صحافیوں کو ایک حوصلہ دیکر ان کو معاشرتی برائیوں کیخلاف لکھنے کا حوصلہ دیا اور جب میں نے ایک ظلم کے خلاف لکھا تو سوات کے بااثر لوگ اور انتظامیہ اور بد قسمتی سے ہمارے بعض صحافی بھائی جو اس وقت سینئر صحافی تھے بھی میرے خلاف ہوگئے اس وقت آفتاب احمد خان صوبے کے وزیراعلیٰ تھے اور میری مخالفت میں سوات کے با اثر لوگوں پر مشتمل 40 رکنی جرگہ پشاور جا کر وزیراعلیٰ کو میری شکایت کرنا چاہی تو میں نے شوکت یوسفزئ سے رابطہ کیا اور ان کو پورے صورتحال سے آگاہ کیا جس پر اس باہمت شخصیت نے مجھے حوصلہ دیا کہ آپ فکر نہ کرے اگر سوات کے لوگوں کا جرگہ آیا ہے اور ایک صحافی کے سچ لکھنے پر احتجاج کر رہے ہیں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جرگہ کو وزیراعلیٰ سے ملاقات کا وقت بھی نہیں ملا مایوس ہو کر واپس لوٹ آیا جس کے بعد مجھے اور میرے نوجوان صحافی ساتھیوں جن میں فیاض ظفر ، حفیظ اللہ امین ، دولت مند ناشاد ، شمشاد حقانی ، حبیب ملنگ مرحوم ، جہانزیب خان ، فضل مولا خان ، شعیب خان ، صلاح الدین یوسفزئ ، عبداللہ شاہ حق پرست ، علی ربی مراد ، ملتان خان ، احسان اللہ خان ، ہلال احمد دانش ، انور علی ، سید اقتدار علی شاہ ، سلیم شاد یوسفزئ ، ابراہیم خانخیل ، حیدر علی ، عبدالرحمان ، امجد علی خاندان ( امریکہ ) ، نذر حسین عارف ، علی شیر میاں اور دیگر شامل تھے کو ایک ایسا حوصلہ مل گیا کہ ہم نے یہ عزم کر لیا کہ ہم معاشرتی نا ہمواریوں کے خلاف لکھتے رہیں گے یہ شوکت یوسفزئ تھے جنہوں نے کارکن صحافیوں کو حوصلہ دیا ، اب جبکہ محترم شوکت یوسفزئ کو ایک اہم حکومتی منصب مل گیاہے تو ان سے صحافیوں نے کافی توقعات وابستہ کر رکھے ہیں اور وہ صحافیوں کے مسائل اور انفارمیشن کے تعاون کو بھی خوب طرح جانتے ہیں ۔
شوکت یوسفزئ الیکشن 2013 میں پشاورسے منتخب ہوئے وہ صوبائی کابینہ کاحصہ بھی رہے ان کی کارکردگی بہتر رہی جس کیوجہ سے ان کو الیکشن 2018 کیلئے بھی نامزد کیا گیا لیکن اس بار انہوں نے پشاور کی بجائے اپنے آبائی علاقہ شانگلہ سے الیکشن لڑا اور شانگلہ کے لوگوں نے ان کو بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب کرایا لیکن جب خواتین کا ووٹ کم پڑا تو ان کو دوبارہ الیکشن لڑنا پڑا اور شانگلہ میں تمام سیاسی جماعتوں نے شوکت یوسفزئ کے خلاف ایکا کیا لیکن مقامی سطح پر ان جماعتوں کی مقامی قیادت اور کارکن شوکت یوسفزئ کا ساتھ دیا اور دوبارہ الیکشن میں شوکت یوسفزئ پہلے سے زیادہ لیڈ کے ساتھ کامیاب ہوئے ان کی کامیابی کے بعد وہاں کارکنوں کو بھی حوصلہ مل گیا ہے شوکت یوسفزئ کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں ان کو وزارت اطلاعات و تعلقات عامہ کاقلم دان سونپا گیا چونکہ شوکت یوسفزئ الیکٹرانک میڈیا میں تحریک انصاف اور حکومتی موقف بہتر اندازمیں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اکثر میڈیا ٹاک شوز میں جم کر بولنے کے عادی ہے تو ان کو جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ اپنے فرائض بطریق احسن ادا کرینگے اب جبکہ شوکت یوسفزئ کو ایک ایسا منصب دیا گیا ہے جس کے تحت وہ عوام ، حکومت اور صحافیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکیں گے شوکت یوسفزئ ایک تجربہ کار صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با صلاحیت سیاستدان بھی ہے اور ہم جیسے کارکن صحافیوں اور لوگوں نے شوکت یوسفزئ سے کافی توقعات وابستہ کر رکھے ہیں صحافت کی دُنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے شوکت یوسفزئ صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک ابھرتے ہوئے سیاستدان ہے جو دیگر سیاستدانوں کیلئے قابل تقلید ہے ۔
3,353 total views, 2 views today