تحریر؛۔ حمزہ یوسفزئی
پروفیسر بخت ذادہ دانش کے نام سے آج کل ہر طبقے کے لوگ چاہے جوان ہو، بوڑھے ہو، بچے ہو یا خواتین ہر کوئی ان کے نا م سے واقف ہے لیکن بہت ہی کم لوگ انکے بارے میں جانتے ہے دانش صاحب کے بارے میں جاننے سے پہلے ان سے پہلے ملاقات کا تزکرہ قارئین کرام کیساتھ شئیر کرنا لازمی سمجھتاہو، آج سے تقریباً دوسال پہلے ملاکنڈ یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران دانش صاحب سے ملاقات ہوئی انکی مختصر انٹرویو کی اورساتھ ہی ساتھ چند اشعار بھی سنے اور میرے یہی انٹرویو سوات کے دو ویب چینلز نے علیحدہ علیحدہ نشر کی، ہمارے توقعا ت سے برعکس وہ انٹرویو خوب وائرل ہوئی لیکن مجھے دانش صاحب اور انکو میرے مزاج پسند آئی اور وہاں سے ہمارا باقاعدہ رابطہ شروع ہو ا جو دن بہ دن طول پکڑتا جارہا ہے۔
گزشتہ ہفتے سوات کے خپل کور ماڈل سکول کے آڈیٹوریم ہال میں زلمی ادبی ملگری کے زیر اہتمام بخت ذادہ دانش کے کتاب کی تقریب رونمائی کی گئی جس میں زندگی کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی ،تقریب کیلئے مجھے زلمی ادبی ملگری سوات کے جنرل سیکٹری سمیع اللہ گران اور خود دانش صاحب نے بھی مدعو کیا تھا، وقت کی پابندی کا خیال رکھتے ہوئے میں اپنے دوست کما ل شاکر کے ہمراہ ہال پہنچا تو ہال میں ارگنائزنگ ٹیم کے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا لیکن چند ہی لمحو ں میں ہال مکمل بھرگیا یہاں تک کہ لوگ ہر جگہ کھڑے کھڑے دکھائے دینے لگے، تقریب میں تحریک انصاف کے حاجی فضل مولااور عوامی نیشنل پارٹی کے واجد علی خان جبکہ بخت ذادہ دانش کے استاد محترم پروفیسرڈاکٹر اظہار اللہ اظہار نے بطور صدر محفل شریک رہے، تمام مہمانان گرامی کے پہنچنے پر تقریب کا باقاعدہ آغاز سٹیج سیکٹری سمیع اللہ گران نے تلاوت کلام پاک سے کیاجس کیلئے قاری شاہد کو مدعو کیا گیا، قاری شاہد کے تلاوت کے بعد زلمی ادبی ٹولنہ کے صدر پروفیسر عطاء الرحمان عطا نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کیا جس کے بعد روایتی طور پر ایک بہترین زرد چمکتے دمکتے پلاسٹک کوو رمیں بند پروفیسر بخت ذادہ دانش کے پہلے شعری مجموعے “زہ بہ نہ لیوانے کیگم “کی با قاعدہ رونمائی خود دانش صاحب ، واجد علی خان ، روغانے بابا اور صدر زلمی ادبی ملگری نے کی جس کے بعد ٹولنہ کے تما م کابینہ بشمول مہمانان گرامی نے مصنف کتاب بخت ذادہ دانش کو عزت واحترام کے چادر میں لپٹے پگڑی تحفہ کردی جو پورے تقریب کے دوران دانش صاحب کی سر کی زینت بنی رہی۔
تقریب میں نورحسین خادم نے”زہ بہ نہ لیوانے کیگم “کتاب سے چند منتخب اشعار پڑھے، جس کے بعد سعید اللہ خادم نے کتاب پر تضمین کے غرض سے “زما نہ بہ دہ دہ سرہ زڑگے پاتے کیدو”پیش کیا جس سے حاضرین خوب محضوض ہوئے ،اس کے بعد نورملک نور نے ترنم میں “دہ پرہرونوں دہ لوستو ہنر مے ایزدہ کڑو،دہ دردونوں دہ لوستو ہنر مے ایزدہ کڑو،چہ پہ مخ باندے می پریواتے دانشہ ، داغمونوں دہ لوستو ہنر مے ایزدہ کڑو “پیش کیااس کے بعد ایک اور نظم “پہ سینہ کے می دانش پشان سڑے راوریدو”کو انور عاطر نے پیش کیا، اب اس کے بعد عوام کو قدرے بوریت میں ڈالنے والے لیکن میرے اور ادب کے عاشقوں کیلئے سب اہم سیگمنٹ کتاب پر تاثرات پیش کرنے کیلئے طاہر بونیری کو مدعو کیا گیا، انہوں نے سب سے پہلے دانش صاحب کا تعارف انہی کے کتاب کے بیک کوور پر موجوداباسین صاحب کے نام کے اوپر لکھے گئے تعارف سے یوں کروایا، پروفیسر بخت ذادہ دانش شیرزمان کے گھرمیں سال 1980میں براوول دیر اپر میں پیدا ہوئے،انگریزی میں ہزارہ یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کرچکے ہے اور شہید بی بی یونیورسٹی شرینگل میں بطور استاد محترم تعینات ہے،انٹرنیٹ کے جدید دور میں اپنے منفرد انداز کے وجہ سے پشتو کے لکھنے اور سمجھنے والوں میں نہایت ہی قلیل عرصہ میں وائرل ہوئے، طاہر بونیری نے مزید کہا کہ دانش صاحب سے میں نے پہلے مرتبہ ودویہ ہال میں ہونے والے مشاعرے میں سنا، انہوں نے مزید کہا کہ کتاب ہذامیں گیارہ قطعات، بارہ نظمیں اور 78غزلیات شامل ہے، طاہر بونیری نے کتاب کے بارے میں نہایت ہی اہم معلومات شئیر کی لیکن ساتھ ہی ساتھ “دانشہ ھغہ پورے چم تہ نوے ملا راغے، دانشہ دغہ پاتے چم بہ دے لیوانے کئی”اور “دا اوس چہ پسے ٹول خلق اولاڑ دے او خاموش دے، دانشہ پہ مذہب کے دہ مولا نہ مخکے سہ وو”کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ دانش صاحب بھی غنی بابا کے طرز پر عمل پیرا ہے اوع یہ ہمارے جیسے مذہب پسندانہ معاشرے میں میرے نظر میں صحیح نہیں، تاثرات کے بعد فضل سبحان افغانی نے دانش صاحب کے اعزاز میں نظم “دا تصویردہ چا دے “پیش کیا، اس کے بعد ایک اور مقالے کیلئے پروفیسر ڈاکٹر علی خان چینار کو مدعو کیا گیا، ڈاکٹر علی کا مقالہ بھی مجھے نہایت پسند آیا
انہوں نے کہا کہ دانش صاحب نے اپنے فکر و سوچ کو عوام اپنے شاعری میں عوام کے سامنے لا کر رکھ دیا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ دانش صاحب نے اپنے شاعری کو رومانی، سماجی اور فنون لطیفہ جیسے کیفیات کو سامنے رکھ کر ایشیاء میں عواپ کے ساتھ ہونے والے معاشرتی برائیوں اور ناانصافیوں کا زکر کر رکھا ہے ، انہوں نے دانش صاحب کے شاعری میں میرے پسندیدہ چیز یعنی خیال، مکالمہ، بے بسی اور بے خودی کا بھی تزکرہ کیا ڈاکٹر علی خان نے خیالات کے پیکر کا مثال اس شعر سے دیاکہ “زما تصویر ئے چا تہ اوخو وو۔۔۔۔۔۔ وائیل ئے اے جیئنی تہ دا پیجہ نے” ڈاکٹر علی خان نے دانش صاحب کے شاعری میں طبقاتی کشمکش اور مزاحمت کے عنصر کا بھی زکر کیا اور اسکے مثاک کے طور ایک شعر جس کا صرف ایک مصرعہ مجھے یاد ہے کہ “تہ راوڑہ پہ دے لاسو کے دی سپینے سپینے خکاری”کو سنایا ، ڈاکٹر علی چنار کا مقالہ اگر چہ لمبا لیکن مجھے نہایت ہی پسند آیا۔
اس کے بعد دیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر رضوان اللہ شمال، ندیم چراغ، پروفیسر عطا ء الرحمان عطا، بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانے، محمد حنیف قیص اور ظفر علی نازنے نظمیں پیش کئی، تقریب سے اپنے خطاب میں پی ٹی آئی رہنما حاجی فضل مولا نے اپنے خطاب میں کہا کہ سوات میں دانش صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی سوات کے عوام کیلئے اعزاز کی بات ہے انہوں نے اپنے خطاب میں زلمے ادبی ملگری کے ادبی پروگرامز کیلئے مینگورہ میں ہال بنانے کے مطالبے کو اعلی حکام تک پہنچانے کی یقین دہانی بھی کروائی، تقریب سے عوامی نیشنل پارٹی کے واجد علی خان نے بھی خطاب کیا،انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ دانش صاحب کی شا عری میں غنی خان بابا کے طرح غم دوران، غم جاناں،معاشرتی برائیوں اور بدکرداریوں کا زکر موجود ہے جس میں نوجوانوں کیلئے مشعل موجود ہے، دانش صاحب کے استاد محترم ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار نے تقریب میں بحثیت مہما ن خصوصی شرکت کی انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج اپنے شاگرد کی کتاب کی تقریب میں شرکت انکے لئے اولاد کے جوانی کے طرح خوشی کا زریعہ ہے ، انہوں نے دانش صاحب کے نظم “ھغہ پیرہ چہ پیران ئے مریدان دی، ھغہ پیرہ منجورہ دہ باچا”کے طرز پر اپنا بنایا گیا نظم بھی پیش کیا جس سے حاضرین خوب محضوض ہوئے۔
تقریب کے آخری مقرر بخت ذادہ دانش کے خطاب سے پہلے معروف سنگر منتظر نے ایک ٹریک “اے زما پختون بچیا، اے زما تکڑہ بچیا”کو پیش کیا اب آخر میں دانش صاحب کی باری تھی انکو مدعو کرنے پر ہال بھر میں موجود لوگوں نے کھڑے ہوکر انکا استقبال کیا، دانش صاحب نے زلمی ادبی ملگری کے تمام کیبینٹ کے نام لے کر ایک ایک کا شکریہ ادا کیا ، انہوں نے سوات کے عوام کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سوات کے عوام نے ادب اور دانش صاحب کو ہمیشہ عزت دی ، دانش صاحب نے چند نئے اشعار
سترگے غٹے ووے ، اوگدے وی تری راتیر شوم
پیالے ڈکے وے پراتے وے ترے راتیر شوم
ما دہ بدو پہ بدل کی بد او نہ کڑل
گنے خے ڈیرے موقع وی تری راتیر شوم
اور چند دیگر اشعار کو پیش کیا جس نے حاضرین پر سحر طاری کی، دانش صاحب کے کلام کے بعد ادبی تنظیم کے جانب سے مہمانان گرامی میں شیلڈز تقسیم کی گئے جس کے بعد سٹیج سیکٹری سمیع اللہ گران نے پروگرام کے اختتام کا باقاعدہ اعلان کیا اور اعلان کیساتھ ہی روایتی طور دانش صاحب کے ساتھ چاہنے والوں کا سیلفیز اور تصاویر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
swatchildhumza@gmail.com
6,137 total views, 2 views today