تحریر نصیر اللہ ایڈوکیٹ
نظام تعلیم کی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ ایک قوم اپنی تہذیب و ثقافت مذہبی اقدار و روایات کے لحاظ سے اور مروجہ سائنسی و ٹیکنالوجیکل تجربات اور تحقیقات کو مد نظر رکھ کر مربوط ریاستی نظام تعلیم مرتب و متشکل کیا جاکر اپنا نظام تعلیم ترتیب کرتی ہے۔ اس طرح حکومتی سر پرستی میں عوام الناس کے لئے مرتب کردہ نظام تعلیم یکساں نظام تعلیم کہلاتی ہے۔ ہر ملک اپنے گردو پیش کا جائزہ لیکر اپنی ماضی و مستقبل کے آئینے کی مطابقت سے تعلیمی نظام بناتی ہیں ۔جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ سکولز کالجز اور یونیورسٹیز اپنا جدا گانہ سلیبس اور اپنا تعلیمی پروگرام پیش کرتی ہیں ۔ سادہ لفظوں میں نظام تعلیم وفاقی، صوبائی یا مقامی سطح پر پالیسی کے مطابق طالب العلموں کے لئے مختلف مدارج کے مطابق نظام تعلیم پر مشتمل ہوتی ہیں ۔
پاکستان کی ایک مشکل یہ ہیں کہ اس میں بھی دیگر ممالک کی طرح طبقاتی تعلیمی نظام ہیں ۔ایک طرف گورنمنٹ آف پاکستان کے سلیبس کیمطابق تعلیمی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں جبکہ دوسری طرف حکومتی بے توجہی اور نا اہلی کیوجہ سے کمرشل پرائیوئٹ ادارے اور یونیورسٹیوں کی بھر مار ہیں جو کہ باقاعدہ طور پر اب ایک صنعت کا درجہ رکھتی ہوئی تعلیم سے کھلواڑ کرنےکے مترادف ہیں۔ اس طرح دونوں اطراف مختلف قسم کی تعلیم ہائے دیتی آئی ہیں جسمیں سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور وڈیروں کے لئےپرائیویٹ سکولز سسٹمز ،ایچی سن، ایڈورڈ کالج وغیرہ میں اولیول ۔ اے لیول اور دیگر نظام ہائے پڑھائے جاتے ہیں جبکہ مدارس کی تعلیم اس کے علاوہ ہیں جس کی کئی قسم کی بورڈ بنائے گئے ہیں یعنی یہ مختلف قسم کے دینی اسباق مختلف مکاتب فکر کے رو سے پیش کرتے ہیں ۔
تعلیم منظم طریق سے معلومات حاصل کرنے یا دینے کا عمل ہیں ۔جس کے ذریعے معاشرہ اپنا مجموعی علم، ہنر، روایات اگلے نسلوں کو پہنچاتا ہے۔تعلیم دیگر ذرائع کے علاوہ سکولوں اور مدرسوں میں فراہم کیجاتی ہیں۔
ہمارے وطن میں آزادی سے لیکر اب تک یکساں نظام تعلیم شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ہے۔ اگرچہ2013 اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کی ذمہ داری قرار پائی ہیں لیکن صوبے تا حال اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کس طرح یکساں نظام تعلیم کے اہداف سر کئے جاسکتے ہیں؟ جوابًا عرض ہیں جس طرح مذکورہ سطور میں ہم نے نظام تعلیم کا تذکرہ کرکے اس کا حل بھی کسی حد تک دیا ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے اہداف ہیں جو اگر حاصل کرلئے جائیں تو یکساں نظام تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ پہلے ہم دیکھتے ہے کہ یکساں نظام تعلیم ہم کس طرح بنا سکتے ہیں؟ جوکہ مندرجہ سطور میں اسکا احاطہ کیا گیا ہے۔
1۔ حکومت کو چاہئےکہ ايك سال سے ليكر سكول جانے كی عمر تك كے بچوں كی نگہداشت اوراعلی معيار كی ابتدائی تعليم کےمتعلق اپنے معاشرے کے اقدار و روایات کے مطابق کوالٹی ایجوکیشن کیلئےاز سر نو پالیسی تشکیل دیا جائے ۔ اسطرح سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کیلئے یکساں نظام تعلیم کاسلیبس بنایا جائیں۔
2 ۔ پرائمری اور ہائر ایجوکیشن کی سطح پر بچوں کیلئے سکولز میں توجہ ،باہمی ربط، دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کی صلاحیت، تخلیقی سوچ کیمطابق ہنر کورسز میں شامل کئے جائیں ۔
3 ۔ پڑھنے، لکھنے، بولنے و سننے، زبان کی قواعد، ذخیرہ الفاظ اور تخلیقی مہارت کی ہنر سکھانے کیلئے اساتذہ کو پیشہ وارانہ تربیت دی جاکر کورسز کروائے جائے اور بعد ازاں طالب العلم کےتعلیمی ضروریات کیمطابق جدید ٹیکنالوجی کےاستعمال کے مدد سے اسے یاد کروائے جائے۔
4۔ پرائمری سے لیکر ہائر ایجوکیشن تک کئیریر کونسلنگ کا ادارہ عمل میں لایا جاکر بچوں کی مختلف النوع دلچسپیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے متعلقہ شعبہ ہائے میں داخلے دئیے جائیں۔
5۔ یکساں نظام تعلیم کیلئے سکولوں اور یونیورسٹیز کی سطح پرسیمینار ،کنونشن ورکشاپ کے اجلاس منعقد کئے جاکر طالب العلموں کے تعلیمی ضروریات کیمطابق عملی جامہ پہنایا جائے ۔
6۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ دوسری زبانوں کے ترجمعے کیلئے ایسے ادارےبنائے جہاں کہی بھی ممکن ہو دنیا میں سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تحقیقات وتجربات کی کتابوں کا کم از کم اردو زبان میں اسان ترجمعے شائع کر دئیے جائیں ۔
7 ۔ صوبائی حکومت ابتدائی تعلیم میں لازمی مضمونوں کے علاوہ تمام مضامین کی تشکیل مادری زبا نوں میں کرتے ہوئے اسان فہم انداز میں اس کی ترتیب کریں۔
8 ۔ پرائیویٹ سکولوں کونیم حکومتی( سیمی گورنمنٹ) کا درجہ دینے، جس طرح بھی قانون اس کی اجازت دیں حکومتی نظام تعلیم کو رائج کیا جائیں۔
8۔ اساتذہ کی صحیح تربیت کا نظام بنایا جائے اور اس مقصد کیلئے ریگولر ٹریننگ سینٹر قائم کئے جائیں نیز پرائمری سکولز و کالجزکیلئے یونیورسٹی لیول کے اساتذہ کی بھرتی اور اسکے لئے ٹریننگ ورکشاپ کا انتظام کیا جائیں۔
9 ۔ بچوں پر کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ کم کرکے معیاری فنی پریکٹکل تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی کے مدد سے کیا جائے ۔ کتابیں اور کاپیاں حکومتی سرپرستی میں فراہم کئے جائیں۔ اور فنی نظری ،بصری مہارت کے کلاسیں تشکیل دئیے جائیں تاکہ بچوں کو اعتماد حاصل ہو ۔
10۔ قانون ،صحت، زراعت کے تعلیم مادری زبان میں کمپیوٹر کے مدد سے یا جس طرح ممکن ہو دئیے جائیں۔
11۔ روزانہ کی جسمانی ورزشیں ، تقریری مقابلے،ڈرامے ، قوالی ،رقص ، پیروڈی، تقریبات اور دیگر صحت افزا مقامات کے سیر ہائیکنگ ،ٹریکنگ اور تقریب لازمی گردانے جائیں۔
12۔ ای ڈی اوز اور ڈی ڈی اوز کو روزانہ کی بنیاد پر سکولوں کا سروے کرنے کا پابند کیا جائے۔ اور سکول ، کالج پرنسپلز سے روزانہ کی بنیاد پر پراگرس رپورٹ مانگا جائیں ۔
13 ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اخبارات سے لیکر چینلز پر تعلیم کے فروغ کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔
14 ۔ تہذیب ثقافت مذہب ،تمدن اورکلچر کے متعلق اسباق تحریر کرکے پرائیمری سکولز سے کالجز و یونیورسٹیز کے حد پڑھائے جائیں ۔
15 ۔ قران اور حدیث ترجمعے کیساتھ اور ناظرہ کے کلاسز اور اسباق تیار کرکے بچوں کو پڑھائے جائیں ۔
16 ۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے مضامین کو عالمی سطح کےمضامین کے ہم پلہ ترتیب دئیے جائیں۔ اورہر قسم تعصبات سے پاک نظام تعلیم بنا یا جائے۔
17 ۔ انگلش اور عربی کو رابطہ مضامین کے طور پڑھایا جائے اور اس کے لئے سکول سلیبس سے ہٹ کر کلاسیں لئیے جائیں ۔
18۔ متوازن خوراک کے موضوعات کو تعلیمی نصاب میں شامل کر دئیے جائیں ۔ معاشرتی اخلاق کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے تاکہ بچوں کو شعوری اور اخلاقی تعلیم کا ادراک ہوسکیں ۔
19 ۔ طالب العلموں کو آنے والی نسلوں کے لیڈر بننے کے لئے تیار کیا جاکر اس کے لیے مختلف پروگرامات و مقابلے کروائیں جائیں۔
20 ۔ نادار اور غریب بچوں کو الاونسز جاری کئےجائیں یا بصورت دیگر اسکے علاج معالجہ ،خوراک، ہاسٹل اور دیگر مفت سہولتیں روپیوں کے شکل میں دئیے جائیں۔
معزز قارئین کرام!! میں کوئی ایجوکیشنسٹ نہیں ہو البتہ میری ناقص رائے کیمطابق مذکورہ نکات ایک بہتر معاشرے کے ترقی کے لئےاز بس ضروری ہے۔ ایجوکیشن کے فیلڈ سے وابسطہ افراد سےمفید آرا معلومات لئے جاسکتے ہیں۔پاکستان کا آئین وقانو ن یہ کہتا ہے کہ پانچ سے سولہ سال کے عمر تک کے بچوں کی ”مفت اور لازمی“ قرار دی گئی ہیں اسلئے اس کیلئے اقدامات اٹھائے جاکر تعلیمی بجٹ 15 سے 20فیصد کیا جانا چاہئے ۔چونکہ پرائیویٹ سکولز جو کسی حد تک معیاری تعلیم دینے میں کامیاب ہیں اورحقیقت حال یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم اور سیکنڈری تعلیم بشمول ہائر ایجوکیشن او لیول اور اے لیول، پر صرف چند پرائیویٹ سکولوں و کالجز کا قبضہ ہو چکا ہے اسکو ریاستی تحویل میں لیا جاکر اسے نیم حکومتی ادارے گردانے جائیں اور تعلیم کے شعبے میں خاص کر کمرشلزم کی وباء کا قلع قمع کیا جائیں۔
کم از کم ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دئیے جائیں ۔اور اہستہ اہستہ دیگر علوم کو قومی زبان اردو میں پڑھائے جانے چاہئیں۔ تعلیم کا مقصد صرف فقط سندیں بانٹنا نہیں ہوتا بلکہ اس سے معاشرے کےترقی کے منازل طے کی جاتی ہیں اسلئے گھوسٹ سکولوں اور اساتذہ کو سسپنڈ کردئیے جائیں۔ سرکاری بشمول پرائیویٹ سکولوں، کالجوں کے خستہ حالت کا جائز ہ لیکر از سر نو تعمیر کئے جائیں اور سکولوں میں لیٹرین، فرنشنگ ، ڈسکس ٹیبل، پلے گراونڈ وغیرہ فراہم کئے جائیں اور اس طرح کھیلوں کو رواج دیا جائے۔
کمپوٹر کی تعلیم لازمی قرار دی جائیں اور اس سائنسی ترقی کے دور میں کمپوٹر کے ذریعے تعلیم دینے کا بندوبست کیا جائے اور اگر حکومتی بجٹ اجازت دے تو قابل طالب العلموں کو بالخصوص اور دیگر طالب العلموں کو باالعموم کمپیوٹر دئیے جائیں نیز ہر سکول اور کالج میں انٹر نیٹ کی سہولت بھی دی جائیں۔
دینی قرانی تعلیم گھر میں والدین کے ذمے قرار دئیے جائیں اورگھر ٹیوشن کا رواج ختم کیا جائے ۔ کیونکہ بچوں کا سارا ٹائم سکول کے کاموں گزر جاتا ہیں اور وہ اس کے کھیلنے کودنے جو کہ بھی صحت اور ذہنی صحت کیلئے ضروری ہیں کے لئے وقت نہیں ملتا اس لئے بدیں اوقات بچوں کا ذہن تعلیم سے اکتا ہٹ محسوس کرنے لگتا ہیں اور اس طرح بچوں کے سکول کے سرگرمیوں وغیرہ میں دلچسپی ختم ہو کر رہ جاتی ہیں
نصیر اللہ خان ایڈوکیٹ
موبائل نمبر: 03369442930
پتہ: ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن مینگورہ سوات
1,635 total views, 2 views today
Comments