تحریر:مفتی سردراز فیضی
(صدر گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ سیدوشریف)
دوبیر کوہستان کے تاریخ میں انتظامی اور عدلیہ کی نسبت جب بھی بات ہوتی ہے تو سماجی شخصیات میں سے مولوی جبل قاضی ایک امتیازی انتظامی مقامی شخصیت سے یاد کیے جاتے ہیں۔ قاضی صاحب قوم سے کاکاخیل اور مقامی طور پر پالس خیل سے ان کا تعارف ہوتا، کیونکہ موصوف کے پانچویں پیڑی کے دادا پالس سے ہوکےآئے تھے۔ اس کے خدمات بطور ریاست سوات کے قاضی اور اس سے پہلے بھی تنازعات قطع کرنے کی وجہ سے ان کا ذکر خیر کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کا مطالعہ تفصیلا راقم نے اپنے مختلف تصنیفات میں کی ہیں لیکن یہاں بطور ورق تاریخ اس ویب صفحہ کی وساطت سے کوہستان اور باہر کی لوگوں تک پہنچائی جا رہی ہے۔ جب میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب(باچا صیب) نے ۱۹۲۶ میں پہلی دفعہ کوہستان پر حملے کی ٹھانی ، تو مشترکہ جرگہ کوہستان نے ایک قبائلی لخکر ( جنگجووں کا لشکر) تشکیل دی ، جنہوں نے مختلف اسٹریٹجک پہاڑوں کو مورچہ بنایا جن میں قابل ذکر بنکھڑ (المعروف بنکڈ) ہے جہاں بادشاہ صاحب کے فوج اور قبائلی لخکر کے درمیان تصادم ہوا ۔ فوج حملے کے ارادے سے پہاڑ کے دامن تک آئی تو یہاں کوہستان کے نہتے جوانوں نے (کور اور تانبیڑ ) بڑے پتھر جو کہ چٹانوں کو توڑ کر تیار کر رکھا تھا ، اور موروئی( شہتیر۔کاٹے درختوں کے موٹے موٹے تنے) پھسلائے جس نے فوجوں کے محدود صفوں میں تباہی مچائی۔ بادشاہ صاحب سمجھدار تھے، وہ قبائلی کوہستانیوں کی طبیعت جان کر دوبارہ جنگ کا ارادہ ترک کیا اور سیاسی اور ڈپلومیسی کا رستہ اختیار کیا۔
بڑے بڑے جرگوں کی بیٹھک ہونے لگی ، جن میں مقامی ملکوں ،علماء اور قبیلوں کے گھیرہ (سردار) کی ایک کمیٹی بنی اور یہ مذکورہ اشخاص کمیٹی کے زیتو (ارکان) تھے جو کوہستان کے لوگوں کے مختلف شرائط منوانے پہ بضد تھے۔ چونکہ بادشاہ صاحب کوہستان میں اپنے جرگہ ماران بھیجنے میں جھجکتے کیونکہ ان کو ذیادہ اعتماد شاید نہ تھا، تبھی تو یہ جرگے بیشتر سیدوشریف ،جوکہ یوسفزئی ریاست سوات کا صدر مقام تھا، میں منعقد ہوتے تھے۔ کندیا سے طلب کردہ وفدمیں ایک سرکردہ زیتو مقامی جوان (بعمرتیس سال) عالم مولوی جبل قاضی صاحب بھی شامل تھے۔ مذاکرات چندمتفقہ شرائط پر اختتام پذیر ہوئے؛ جن میں شرعی قرآن و سنۃ کے قانون کا نفاذ ، صاحب حیثیت لوگوں کی حیثیت تسلیم کرنا، مقامی رسم و رواج کے خلاف سرکاری احکامات و فرامین نہ جاری کرنا، مناسب اہم منصبات بھی مقامی لوگوں کو دینا اور انہیں محکوم ہونے کا احساس نہ دلانا اور دیگر شامل تھے۔حکومتی سازوسامان اور فوجی لاءولشکر لے کر براستہ مدین، بحرین، مانکیال درہ سے ہوتے ہوئے سرہ کاڑ پر سے کندیا میں اترے ، جہاں چھوٹے موٹےلکڑی کے بنے سرکاری املاک جن میں تحصیل دفاتر، اسکول، قلعہ وغیرہ بنائے ، اور سوات کو بذریعہ چوڑا رستہ جن پر خچر ، گھوڑے اور گدھے چلتے، کوہستان سے ملایا تھا، جو بھی مقامی لوگوں سے بنوایا تھا
no
اسیطرح ‘ملکانہ’ ایک سول (شہری) اعزاز تھا جس کو دیا جاتااسے ایک اہم حکومتی شخص مانا جاتا، جسکے بدولت بادشاہ صاحب سے رابطہ کرنا بھی ممکن تھا۔قاضی صاحب کو بھی یہی اعزاز سے نوازا گیا ، اس وقت موصوف دوبیر کے مختلف درسوں ؛مثلا: صاحب الحق والدِ مولانا زین العابدین سکنہ مھولا دھا(ملا خیل دھار) جنکو دوبیر میں سب سے ذیادہ ملکانہ (ملک ہونے کا اعزازی وظیفہ)ملتا تھا، ملا پائندہ خان المعروف سیریاں مھولا (سیرئی ملا)، ملا یعقوب المعروف مولی صاب (مولوی صاحب) سکنہ گاوں و دیگر ،میں مشغول تھے ۔ جب قاضی صاحب دروس سے فارغ ہوکر اپنے علاقے کندیا جانے لگے تو ان کے پیر و مرشد جناب سید عبدالحق صاحب قادری نے اپنی بیٹی سے نکاح کی پیشکش کی تو اب قاضی صاحب کے سامنے ‘نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن ‘والی صورتحال تھی ۔ چونکہ اپنے اعزازی استاد و پیر کی بیٹی کے ساتھ بوجہ احترام رشتہ ازدواج میں بندھنا آسان نہ تھالیکن عربی کی کہاوت ‘ حکم کو ادب پہ فوقیت ہے ‘ پہ عمل کیا، اور شیخدرہ دوبیر میں بس گئے۔ چونکہ دوبیر بھی کوہستان کا ایک تحصیل تھا جو کہ ریاست سوات میں شامل ہوچکا تھا، اسیلے قاضی صاحب کی ملکانہ ساتھ رہی۔
کوہستان میں عدالتی نظام کی عدم موجودگی میں لوگ مقامی بااعتماد عالم یا علماء سے آپس کے تنازعے حل کراتے۔ بادشاہ صاحب کی سرکار آنے کے بعد جب دوبیر میں مسئلے حل کرنے کی ضرورت پیش آئی تو تحصیلدار صاحب نے ایسے عالم جو کہ غیر جانبدار اور مضبوط قوت فیصلہ جو قبائلی نظام گھیرولی (سرداری ) سے متاثر نہ ہو، تو افسران ِ ریاست اور مقامی زعماء کی تلاش قاضی صاحب پہ آکے رکی ۔ تو سرکاری ادارہ برائے قضاء کی عدم موجودگی میں تنازعات پرائیویٹ طور پر فریقین کی باہمی رضامندی سے عالم فیصلہ کرتا، جسکو تحصیلدارانڈورس (توثیق) کرتا ۔ تنازعات جب ذیادہ ہونے لگے تو قاضی صاحب کیلیے روزانہ نوکر بھیج کر بلوایا جاتا۔ چونکہ گرمی کے موسم میں کوہستان کے لوگ پہاڑوں پہ رہتے تھے ، تو یہ قاضی صاحب کیلیے بڑی مشکل بنی کہ وہ روز باوں(شیخدرہ کا خوبصورت بانڈہ کا نام) سے آتے اور جاتے کیونکہ ایک مستعد دیہاتی کی آنے جانے میں چھ گھنٹے لگ جاتے تھے۔ اسیلے قاضی صاحب روز کے چکر سے تنگ آکر استعفیٰ دینے لگے اور ساتھ ہی تحصیلدار (علی حیدر یا درفشان تحصیلدار) سے عرض کیا کہ میں ملکانہ (اعزازی وظیفہ) بھی نہ لونگا ، “بس میری جان چھوڑدیں”۔اس نے عرضی آگے حاکم کوہستان جوکہ پٹن میں ہوتا کو بھیجی، جس نے تحصیلدار سے مشورہ کیاتو قاضی صاحب عوام میں انصاف پسند فیصلوں کیلیے مشہور تھے ، تو مشترکہ حکم انہوں نےقاضی صاحب کو ڈرانے کیلیے یہ جاری کیا کہ بادشاہ صاحب کا حکم یہ ہے کہ تم ملکانہ بھی واپس کروگے اور روزانہ تحصیل بھی آوگے۔ قاضی صاحب حیران ہوئے کہ بادشاہ صاحب کی شخصی اور سخت حکومت کی حکم عدولی بھی ناممکن تھی اور عمل کرنا بھی روزمرہ پہاڑ توڑنے کے مترادف تھا۔ خیر تحصیل دار نے اسے حاکم سے ملوایا جسنے سفارشی خط لکھواکر اسے بادشاہ صاحب سے ملنے کا کہا، قاضی صاحب بالآخر سیدوشریف آئے اور قاضی مقرر ہوئے، دراصل یہی دوبیرمیں عدالتی نظام کی ابتداء تھی۔
عدالت کا طریقہ کار، جوکہ قاضی صاحب نے خود راقم کو بتایا اور کبھی کبھی راقم خود بھی مشاہدہ کے واسطے تحصیل چلاجاتا، یہ تھا کہ مدعی تحصیل میں حکومت کا مقررکردہ مرزا صاحب سے متعین سرکاری کاغذ پر درخواست لکھواتا اور تحصیلدار صاحب تفتیش و تحقیق کے بعد ضروری ہوتا تو فریقین کوحکم دیتا کہ قاضی صاحب کے سامنے بیٹھ کر تنازعہ بیان کریں۔ قاضی صاحب سرکاری رجسٹر میں مدہی( مدعی) کا بیان قلمبند کردیتا اور نشان انگوٹھا ثبت کروادیتا ، اور یہی طریقہ کار مخالف کیلیے بھی ہوتا تھا۔ پھر حسب ضرورت گواہ یا کوئی چیز پیش کرنا ہو تو بحضور قضاء پیش کروادیتے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تفتیش اور تذکیۃ الشہود بھی کرواتے شاہد کا کہ کوئی پیشہ ور دروغ گو تو نہیں، اگر صاف ثابت ہوتا تو اس کے حق میں فیصلہ آجاتا ورنہ مدعی ٰ علیہ سے حلف بالقرآن لیتے اور اس پر فیصلہ کرلیتے، اور اگر یہ فریق حلف سے انکاری ہوتا تو فیصلہ مدہی کے حق میں آجاتا۔ یہ فیصلہ اسی دن آجاتا ،ورنہ اگلے دن یا ذیادہ سے ذیادہ تیسرے دن تک حل ہوجاتا، مطلب ڈے ٹو ڈے ہیئرنگ (روزانہ سماعت ) سے مسئلہ حل کردیتے۔ اسیطرح اس عدالت میں فوجداری ، دیوانی ، عائلی و دیگر مسائل اور معاملات کو نپٹاتے ؛ معاملہ دیکھا جاتا کہ اگر کسی کو شک ہے کہ تحصیلدار اثر انداز ہوگا تو ڈائریکٹ پٹن حاکم کی عدالت میں جاتے اور اگر اس پر بھی یقین نہ ہوتا یا سنگین فوجداری معاملہ جیسے قتل ، قبائلی دشمنی ہوتی ، یا زنانیوں کے اغوا جیسے نکاح بزور بازو کا مسئلہ سیدھا والی صاحب کی عدالت (ایکوِٹی کورٹ)میں جاتا ،اور وہاں فیصلہ والی صاحب خود قاضی بن جاتے، اور قا ضی خبراء ِ شریعت (ایکسپرٹ آف اسلامک لاء) بن جاتے۔ حکومت کی گرفت کافی سخت تھی حکم شدہ فیصلے کا نفاذ ہوجاتا ، اگر کوئی ٹال مٹول سے کام لیتا تو اس کی اجراء کاذمہ تحصیلدار کا ہوتا ،وہ اپنی پولیس کے ذریعے سر کشوں کو قلاو(قلعہ نما جیل) ، جوکہ ابتداء دفاعی مقاصد کیلیے بناگیا تھا جسکے اوپر دو سنگر ہوتے تھے، میں ڈالتے۔
علاوہ ازیں، عدالت کیلیے کوئی الگ بلڈنگ یا خاص کمرہ مختص نہ تھا ۔ تحصیل کی پوری آ بادی چار کمروں پہ بشکل انگریزی حرف’ ایل’ کیطرح ہوا کرتی۔ ایل کے چھوٹے بازوکی طرف آمد والا دروازہ تھا جو کہ سروس کوارٹر کے نام سے جانا جاتا جہاں محافظ ہوتے ،جنہیں لوگ والیاں نوکر(والی کا نوکر) کہتے تھے اور ایل کی چھوٹی لکیر ختم ہونے تک برآمدہ تھا، اور یہاں ایل کے لکیروں کے جوڑ میں مرزا(عرائض نویس ) بیٹھ کر کام کرتا جسکا یہ دفتر نہیں تھا۔ اس راستے سے آگے ایل کے لمبے والے بازو میں تین کمرے ہوتے ؛ شروع میں پہلاکمرہ قاضی اور اسکامحافظ خانہ (ریکارڈ روم) ، دوسرا کمرا تحصیلدار کا ، اور آگے بڑابرآمد ہ تھا جہاں قاضی اورتحصیلدار بیٹھ کر اوقات کار میں کام کرتے۔ پھر آخری کمرہ جہاں مرزا صاحب کا سامان وغیرہ ہوتا۔
قاضی صاحب عمر کے آخری حصے تک عدالتی نظام چلاتا رہا، لیکن ۱۹۶۹ میں ریاست سوات کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد مقامی عدالتیں کمزور ہوتی گئیں، اور تقریبا ڈیڑھ یا دو سال تک کام کم ہوتا گیا اور پاکستانی عدالتوں کا دائرہ اختیا ر بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۱ کے اواخر میں ایسی عدالتیں بند ہونی لگیں اور سال کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ عدالتوں کا بھی خاتمہ ہوتاگیا۔
مقامی علماء قاضی صاحب کے فیصلوں سے ہمیشہ مطمئن ہوتے ۔ اپنے دور میں اپنے اکابر اساتذہ اور مقامی ملکوں و زعماء کے خلاف بھی شرعی فیصلہ دینا انکا امتیا ز تصور کیا جاتا۔ اسیلیے معاشرے کا مظلوم طبقہ بالخصوص اور بالعموم عام عوام ان کے مداح تھے اور اب بھی ہیں، کیونکہ اس نے نہ صرف پسے ہوئے طبقے کا ساتھ دیا بلکہ شفاف نظام بنانے اور اچھے معاشرے کو تشکیل دینے میں والی سوات کا ساتھ دیا۔اسیلیے ملوک شاہ ملک نے کہا تھا کہ کوہستان کی تاریخ میں نہ کوئی ایسا غیر جانبدار شخص پیدا ہوا تھا اور نہ ہوگا، اسیطرح اصحاب ملک (المعروف خاپیرا ملک) نے کہا تھا کہ ایسے قوت فیصلے کا مالک کوہستان کا نہیں ہوسکتا، یہی وجہ تھی کہ کمزور طبقے کے لوگ اپنے قیمتی دستاویزات اور اسٹام (سٹامپ پیپر) قاضی صاحب کے پاس رکھواتے۔ اللہ انہیں غرق رحمت کرے۔
راقم مضمون ہٰذا مفتی سردراز فیضی محقق و مدقق ہیں ، جنھوں نے اسلام کا نظام عدل اور اعجاز القرآن پہ طبع شدہ مضامین لکھے ہیں۔ آپ نے چھ کتب لکھے ، جن میں تین مطبوعہ و تین غیر مطبوعہ (پائپ لائن) میں ہیں۔ چالیس سال تک مسلسل تدریس کرتے رہے اور بیس سال تک شعبہ افتاء میں محقق اور مفتی کے عھدے پہ فائز رہے ہیں، جو تاحال
2,868 total views, 2 views today