شدت درد میں ہونٹوں پہ دعا کا ہونا
ثابت اس سے بھی تو ہوتا ہے خدا کا ہونا
قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ
نوح ہرارے نے لکھا ہے کہ
‘‘انسان اور زندگی کا کوئی خالق ہے ہی نہیں ’’معاذاللہ!
یہ مغرب کا ایک لکھنے والا ہے اس نے لکھا ہے
‘‘ کہ یوں موت ایک تکنیکی مسئلہ ہے انسان کے اعضاء کام چھوڑ دیتے ہیں تو موت آجاتی ہے۔’’
اور اب جو ڈی۔این۔اے دریافت ہوا ہے تو اب دنیا اس سے زیادہ دور نہیں کہ موت ہی کو ماردے اور موت آئے ہی نہ۔
موت تو تب نہیں آئے گی جب پوری دنیا اور نظام دنیا پر کنٹرول حاصل ہو۔ لیکن موت کیا صرف اعضاء کے کام چھوڑ دینے سے آتی ہے یا کہ گولی اور بم مارنے سے بھی آتی ہے۔حادثات اور ایکسیڈنٹس سے بھی آتی ہے تو موت کو تو موت نہیں آئی موت تو اعضاء کا طبیعی طور پر کام چھوڑنے سے نہیں آتی اس سے زیادہ تو اس کے اور بھی اسباب ہیں۔
یہ بات صرف اس نے نہیں کی اس نے تو صرف اس کو زبان دی ۔
موت کو پسند نہ کرنا تو انسان کی جبلت میں ہے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اسے موت آجائے
‘‘قل ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملقیکم’’
کہو کہ وہ موت جس سے کہ تم فرار کرتے ہو وہ تو یقیناً تم سے ملاقات کرنے والی ہے۔
سو جہاں جہاں الہامی تعلیمات نہ ہوں وہاں پر اس قسم کی باتیں کی جاتی ہیں۔
اس سے پہلے ‘‘رسل’’نے لکھا ہے
‘‘کہ انسان ہر چیز پر علمی احاطہ چاہتا ہے ،انسان ہر چیز پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے اور انسان موت کا خاتمہ چاہتا ہے۔’’
اس نے کہا کہ یہ کام نہ ہونے کے ہیں لہذا وہ اضطراب میں ہے اسی اضطراب سے اسے نکالنے کے لئے اسے مادی اسبابِ تعیّش فراوانی سے فراہم کیے جائیں ۔
ہم کہتے ہیں کہ جس طرح انسان کے وہ مذکورہ تین تقاضے ناممکن ہیں اس طرح یہ علاج جو اس نے بتایااس سے اضطراب کا علاج اس طرح ناممکن بلکہ وہ تو اور بھی اس کے اضطراب کو بڑھادے گا۔
فلاسفہ کہتے ہیں کہ بقاء اور غلبہ انسانی جبلت ہے وہ فناء اور ہار دونوں سے خوف کھاتا ہے۔
ان سب لوگوں کا مسئلہ ہے ہرچیز کو عقل سے پرکھنا۔جبکہ عقول تو باہمدگر مختلف ہیں۔کیا سارے سائنس دان نیوٹن اور آئن سٹائن تھے یا ہیں؟یا کیا نیوٹن اور آئن سٹائن سائنس کے سارے جزئیات کو جاننے والے تھے؟اگر ایسا تھا تو پھر باقی سائنس دان کہاں سے آوارد ہوئے کہ انہوں نے سب کچھ حاصل کیا تھا اور ظاہر بھی کیا تھا۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عقل علم کا کلی سبب نہیں نہ علم کلی کا سبب ہے۔
اب عقل بھی ایک قوت ہے اور دین بھی ایک قوت ہے ۔دین ِ الہامی کبھی عقل کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کو مخاطب کرتا ہے
‘‘افلا تعقلون’’
تو کیا تم عقل نہیں کرتے ۔
لیکن دین کی بات کا اگر عقل ادراک نہیں کرپاتا تو یہ دین کا نقص نہیں بلکہ عقل کا نقص ہے۔
سو خدا کا تصور انسان کی فطرت میں ہے اس لئے منکر بھی تکلیف یا حیرانگی
O My God کہتا ہے۔
خیر بات ہے کورونا وائرس کی۔ظاہر ہے کہ طبیعی امر ہے کہ بدن اور اس کے اعضاء اور فنکشن پر حملہ کرتا ہے روح پر نہیں لیکن اس سے جو خوف پیدا ہوتا ہے وہ روح اور نفس پر حملہ کرکے بدن کے بہت سارے خلیات کو مفلوج یا مضطرب کرجاتا ہے ۔اب ایک بات کہ
؎ موت کا ایک دن مقرر ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اگر یہ عقیدہ پختہ ہو تو پھر خوف پر قابو پایا جاسکتا ہے اس کے لئے روح کو اطمینان چاہیئے۔تو یہ اطمینان
‘‘الا بذکر اللہ تطمئن القلوب’’
ذکر سے حاصل ہوتا ہے ۔قرآن ذکر ہے ،استغفار ذکر ہے،ادعیۂ ماثورہ ذکر ہے ،اذکار مسنونہ ذکر ہے اور روح کو اطمینان حاصل ہو تو امیون سسٹم Immune systemقوت پکڑتا ہے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیربھی اور دوا وعلاج بھی ضروری ہے۔
یہ حالت تو ایسی ہے کہ لامذہب بھی خدا کو رجوع کررہے ہیں کہ ان کو فطرت نے آواز دی تو ان کی فطرت کو جگایا ۔لیکن بدقسمتی سے بعض بزعم خویش روشن دماغ مسلمان یا تو ایسے میں خدا کو دخل ہی نہیں دیتے یا ناسمجھی سے ایسی باتیں کرجاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طبیعیات میں خدا کے دخل کے قائل نہیں ۔یعنی انہوں نے خدا کو یامعطل کیا ہے یا اسے مفلوج سمجھا ہے معاذاللہ!یا پھر اس کو عاجز ولاچار سمجھتے ہیں ۔ان کی خیر خواہی مطلوب ہے ۔یہ آجکل جو دو طبقات بحث میں پڑے ہیں کہ دوا سے کام چلے گا یا دعا سے ۔ان سے عرض ہے کہ ‘‘اس یا اس ’’ کو ختم کرکے اس کی جگہ‘‘ اور’’ لگادیں کہ
‘‘دوا سے کام چلے گا اور دعا سے۔’’
1,093 total views, 2 views today