نصیر اللہ خان ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
جتنی گھنٹیوں کی آوازیں ہوتی ہیں، اتنا ہی زیادہ شور ہوتا ہے۔ آلودہ ماحول، خراب ہارن، سڑکیں اور گلیاں ویران، پارکیں ویران، بے ہنگم ٹریفک اورگاڑیوں کا شور ختم، آلودہ ماحول میں کچھ وقت کے لیے صاف ہوا، صاف ستھرا ماحول، کارخانوں کا زہر آلود دھواں وبائی صورتِ حال کی وجہ سے بند ہوچکا ہے۔ کتنی بڑی ترقی ہے یہ۔کم ازکم ان عذابوں سے وقتی چھٹکارا تو ملا۔
حقیقت مگر اس اچھائی کے باوجود کافی تلخ ہے۔ ”کووڈ نائن ٹین وائرس“ اور لاک ڈاؤن سے آمدنی میں عدم مساوات کی بھی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ آمدنی والے افراد گھر میں رہنے کی پوزیشن میں ہیں، جب کہ بہت سارے دوسرے غریب فاقوں پر مجبور ہیں۔ یہ سچائی کا صرف ایک رُخ ہے، جو ”کوویڈ نائن ٹین“ کو انتہائی اذیت ناک بنا دیتا ہے۔ تاہم دوسری طرف ملک کی دگرگوں معیشت اور اس پر عاقبت نااندیش حکمران کا براجمان ہونا ایک الگ کہانی ہے۔ اس سے پہلے معیشت 72 سالوں میں خاطر خواہ ترقی نہ کرسکی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ہماری معیشت ایک دائرہ میں گھوم رہی ہے۔ ہاں، البتہ دوسری کئی چیزوں میں کافی ترقی ہوچکی ہے۔ جہاں غربت، جہالت، فرقہ واریت، مذہبی جنونیت، منفی سیاست، کرپشن، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، طاقت کا غلط استعمال، اقربا پروری اور میرٹ کی پامالی ہوتی ہے۔ اب یہی تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ غریب اور مال دار کا فرق واضح ہوگیا ہے۔ باوجود لاک ڈاؤن کے بازاروں اور گلیوں کوچوں میں سائلین کی بھر مار ہے۔ ہوگی بھی کیوں نہیں، ان پر وبا کا نہیں پیٹ کا بوجھ ہے۔گھروں میں بچے اور خواتین کرب کی وجہ سے بلبلا رہے ہیں۔ یہی سائلین پہلے سے موجود تھے، لیکن اب واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کسی بھی حکومت نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ نہ ایسا لگ رہا ہے کہ مزید کچھ اقدامات ہوں گے، ان سائلین، بے روزگاروں اور غریبوں کی بہتری کے لیے۔
قارئین، کورونا وائرس سے صورتحال کا فی خراب ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ اب عالمی وبائی صورتِ حال ہے اور اس سے عالمی سپر طاقتیں بھی متاثر ہیں۔ چین نے احتیاطی تدابیر اپنا کر کچھ حد تک و ائرس پر قابو پا لیا ہے، تاہم اب چین کے دوسرے صوبوں میں نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ چین میں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں، اس کا جائزہ لینا اہم ہوگا۔ قرنطینہ کرکے عوام کو گھروں اور کمروں میں مقید کردیا گیا۔ ہاتھ ملانے،گلے ملنے اور سماجی رابطے لاک ڈاؤن کرکے ختم کردیے گئے۔ حکومت نے عوام کی تمام ضروریات کا لحاظ رکھا، اور ان کو اشیائے خور و نوش بہم پہنچاتے رہے۔ حکومت گھروں اور کمروں کے باہر خوراک رکھتی، بعد ازاں عوام اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ان تمام امور کو بخوبی انجام تک لے جایا گیا، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ نہ صرف صحت یاب ہوئے، بلکہ چین میں وبا اور وائرس پر قدرے قابو پالیا گیا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے چین کے ماڈل کو سامنے رکھ کر لاک ڈاون کیا۔ اِس وقت تک جتنا سوچ بچا ر کیا گیا ہے، اس سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ لوگوں کے میل جول سے ہی یہ وائرس پھیلتا ہے۔ چین نے اس پر سختی عمل کیا اور جس میں وہ کامیاب ہوگیا۔
ہماری مملکت خداداد کا مسئلہ دیگر ہے۔ یہاں پر عوام میں سماجی رابطے دوسرے ممالک کے برعکس زیادہ ہیں۔ لوگوں کا میل جول، غمی و خوشی اورمذہبی عبادات زیادہ ہوتے ہیں۔ نماز پنج گانہ میں شرکت کرتے ہیں اور وہاں ایک دوسرے کی نام نہاد خبر گیری بھی کرتے ہیں۔ گلے ملنا اور ہاتھ ملانا اہم جزو گردانا جاتا ہے۔ جو گلا اور ہاتھ نہ ملائے، اس شخص کوبرا خیال کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ دوسرے کے فائدے میں ہوتا ہے کہ کسی سے جراثیم منتقل نہ ہوجائیں۔
وبائی صورتحال کے پیش نظر وفاقی حکومت پہلے لاک ڈاؤن کے خلاف تھی، اور خیال کرتی تھی کہ غریب لوگ فاقوں سے ہلاک ہوجائیں گے۔ تاہم دوسرے صوبوں میں لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے، تو کنفیوزڈ وفاق بہ امر مجبوری لاک ڈاؤن پر راضی ہونے لگتی ہے، لیکن اس صورتِ حال میں بھی ضد اور انا کو نہیں چھوڑا جاتا۔ اس کے باوجود کہ وائرس کے مثبت کیسز بڑھتے ہیں، لیکن وفاقی حکومت اس کے برعکس جب ساری دنیا میں لاک ڈاؤن کا فارمولا اپنا یا جا رہا ہے، حکومت کنسٹرکشن اورانڈسٹری کو کھولنے کے احکامات دیتی نظر آتی ہے۔
کیا عقل پایا ہے ہمارے حکمرانوں نے! رشک آتا ہے۔ منفی سیاست کی انتہا ہے۔ انتقامی سیاست دیکھنی ہو، تو پاکستانی سیاست کودیکھیے۔ حکمرانوں کی آنکھیں مگر پھر بھی نہ کھل پائیں۔ وبا گھر تک آگئی۔ قیامت کا سا سماں ہے۔ مخالفین ایک دوسرے پر اب بھی کیچڑ اچھالنے سے دریغ نہیں کر رہے۔ کرپشن کے بنائے گئے مقدمات میں اب تک کتنی ریکوری ہوئی۔ نتیجہ صفر! بس اپنا بغض نکالنا ہے، انا کی تسکین کرنی ہے۔ اس پر مستزاد آٹا اور چینی چوری پر حکومتی اور اپوزیشن کے کارندوں کے خلاف کمیشن رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔ دیکھنا ہوگا کیا کارروائی ہوتی ہے؟پیسے بنائے گئے۔ حکمران ہویا اپوزیشن کے راہنما، سب ہی تو مال بناتے ہیں۔ کسی سے خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔
براہِ کرم! اقدامات اٹھانے ہیں تو مذکورہ بالا غربت، جہالت اور بے روزگاری وغیرہ کے خلاف اٹھائے جائیں۔ ان سرمایہ داروں پر رحم کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہنی چاہیے،جن کے اثاثے آمدن کے برخلاف بنائے گئے ہیں۔ ان کو بلا جھجک بحق سرکار ضبط ہونا چاہیے۔ حکومتی امداد تاحال غریبوں کو نہیں ملی ہے۔ کہاں پر غریبوں کے پیسے خرچ ہو رہے ہیں؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، اور مزید کچھ دنوں میں واضح ہوجائے گا کہ کس نے کتنے غریبوں کے گلے پر چھری پھیر کر مال کمایا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے انتہاؤں پر بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ قوم کی کسی کو فکر نہیں۔ ٹائیگر فورس بنا نی ہی تھی، تو سب کو ساتھ لے کر چلتے۔ اس سے کوئی آفت نہیں آنی تھی۔ البتہ شفافیت نظر آجاتی۔
اقوامِ متحدہ میں کوو ڈنائن ٹین اور دوسری وباؤ اور وائرسوں کے خلاف عالمی قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ مذکورہ قوانین کا دفاع اور ان پر عمل نہ کرنے والے ممالک پر سنگین معاشی اور اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ مذکورہ وبا کا مسئلہ عالمی ہے۔ دنیا کے تمام سرمایہ دار ممالک کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے، اس لیے وہ کسی بھی طور پر کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں۔ معاشی امداد اور قرضہ جات اس وقت ملیں گے، جب ان قوانین پر عمل کیا جائے گا۔
قارئین، مذکورہ وبا کسی جنگ سے کم نہیں۔ اس تناظر میں دفاعی صورتِ حال بھی واضح ہوئی ہے۔ ہوش کریں۔ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ لاک ڈاؤن کو عملی طور پر نافذ کریں کہ اس میں ملک اور قوم کی بہتری ہے۔
وما علینا الا البلاغ!
874 total views, 2 views today