ناصرعالم
سال 2020مختلف حادثات،سانحات،واقعات اور تلخ وشیریں یادیں اپنے دامن میں سمیٹے گزرگیا،پورا سال لوگ کرونا اورمہنگائی سے لڑتے رہیں،لاک ڈاؤن،کورنٹائن،اشیائے صرف کی قلت ومہنگائی،بحرانوں اور دیگر مسائل سے نبردآزماعوام پرامید تھے کہ نئے سال کی آمد پر حکومت کو ان کے حال پر ترس آئے گا اور وہ انہیں کوئی نہ کوئی خوشخبری سناکر ان کے زخموں پر مرہم رکھے گی جو ان کی تکالیف میں کمی کا باعث بنے گا انہیں کیا معلوم تھا کہ نئے سال کی آمد حکومت انہیں مرہم نہیں مزید زخم دینے والی ہے جس نے پیٹرول وگیس کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام کو شدید ذہنی پریشانی اور کرب میں مبتلا کردیا،یہاں کے عوام تو شروع ہی سے مہنگائی کی چکیوں میں پستے چلے آرہے ہیں کچھ حکومت کی طرف سے مہنگائی کے بم گرائے جاتے ہیں اور رہی سہی کسرکاروباری لوگ خودساختہ نرخ چلا کر پوری کررہے ہیں،اس وقت پوری قوم مختلف مسائل کی لپیٹ میں ہیں تاہم سوات کے عوام کو روزانہ نت نئے مسائل کا سامنا رہتاہے،سوات وہ علاقہ ہے جسے ٹیکس فری زون کی حیثیت حاصل ہے مگر اس کے باوجود بھی ان سے ادویات،موبائل کارڈ اوریوٹیلٹی بلوں میں مختلف ناموں سے بھاری بھاری ٹیکس وصول کیا جاتاہے،اسی طرح سوات کے بعض سیاحتی مقامات پر داخلے کیلئے بھی ٹیکس مقرر ہے ایسی صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملاکنڈڈویژن،سوات کو کیوں ٹیکس فری زون کہا جاتاہے؟ مہنگائی اور ٹیکسوں کے نرغے میں پھنسے ہونے عوام کی زندگی کے دن رات کیسے گزرتے ہیں یہ صرف وہ خود جانتے ہیں نہ توحکومت اور نہ ہی انتظامیہ کا ان کے حال پر ترس آتا ہے حالانکہ سوات کے عوام کے کاندھوں پر پڑے مسائل کا بوجھ سب کونظر آتاہے،یہاں کے عوام نے اس امید پر موجودہ حکمرانوں کو ووٹ دیا تھا کہ وہ برسراقتدارآکر انہیں مسائل سے چھٹکارا دلائیں گے،انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کریں گے،ان کا دکھ درد دور کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھا کر عوام دوستی کا ثبوت فراہم کریں گے،انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ حکومت سابقہ حکومتوں سے بھی گئی گزری نکلے گی کیونکہ پچھلی حکومتوں نے اگرعوام سے منہ کا نوالہ چھینا تھا تو موجودہ حکومت نے ان سے جینے کا حق ہی چھین لیا،فوری اور سستے انصاف کی فراہمی،تبدیلی،تعمیر وترقی اور دیگر نعرے لگانے والوں نے ترقی کے لحاظ عوام کو پیچھے دھکیل دیا ہے،سوات کے عوام کواس دور جدید میں بھی سوئی گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے،اورتو اور انہیں ضرورت کے مطابق پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں،صفائی ستھرائی اورصحت کیلئے قائم مراکزمیں کام کرنے والوں کو اگر چہ تمام تر بنیادی سہولیات فراہم کردی گئی ہیں جن سے وہ خود مستفید ہورہے ہیں مگر اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا جس کا زندہ ثبوت ہر علاقے میں صفائی کا ناقص نظام،قدم قدم پر پڑے گندگی کے ڈھیر،گلی کوچوں کی بدحالی اورہسپتالوں میں علاج معالجہ کو ترستے نظر آنے والے مریض ہیں،حکومت نے ہسپتالوں کو ترقی اورسہولیات دینے کے جو دعوے کئے ان کی حقیقت ہسپتال جاکر معلوم کی جاسکتی ہے جہاں پر علاج کی امید پر جانے والے مریضوں کو مایوس لوٹنا پڑتا ہے،سیدوگروپ آف ٹیچنگ ہسپتال میں سٹاف اور سہولیات کی کمی نہیں مگر اس کے باوجود بھی اس سے مریضوں کو مستفید نہیں کیا جاتا،صاحب ثروت لوگ تو پرائیویٹ طورپر علاج معالجہ کراتے ہیں مگر دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے مریض تو پرائیویٹ علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے جس کے سبب وہ سرکاری ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے نظر آرہے ہیں، اس کے علاوہ یہ مجبور لوگ گلی کوچوں میں موجود نان کوالیفائڈ افراد کی کلینکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں پر ان کی صحت کو مزید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں،اگر دیکھا جائے توصرف مینگورہ شہر کے ہر محلے میں کئی کئی کلینک قائم جہاں پر بیشتر نان کوالیفائڈ افراد مریضوں کا علاج کرتے بلکہ ان کی صحت سے کھیلتے نظرآرہے ہیں مگر متعلقہ حکام اس طرف بھی توجہ دینے کی زحمت تک گوارہ نہیں کررہے ہیں،سوات کے مقامی لوگوں میں ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد موجود ہیں جواپنی صلاحیتوں کے ذریعے ملکی ترقی میں اہم کردارادا کرسکتے ہیں مگر مقام افسوس ہے کہ ان لوگوں کو آگے بڑ ھنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور نتیجے میں ان کی صلاحیتیں بری طرح ضائع ہورہی ہیں،یہاں کے بیشتر ہنرمندافراداورتعلیم یافتہ نوجوانوں نے حکومتوں سے مایوس ہوکر بیرون ممالک جاکر محنت مزدور ی شروع کردی ہے اور مزید نوجوان باہر جانے کیلئے دوڑدھوپ کررہے ہیں،سوات میں مہنگائی اور بے روزگاری نے ڈھیرے جمارکھے ہیں جس نے ان کا جینا محال کردیا ہے مگر دوسری طرف یہاں پر رکشوں کی بہتات اوران
978 total views, 2 views today