تحریر : وطن زیب خان یوسفزئ
باچا خان 6 فروری 1890 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے چارسدہ اتھمانزئی میں بہرام خان کے گھر پیدا ہوئے تھے باچا خان عمر میں قائداعظم سے 14 اور گاھندی سے 21 سال چھوٹے تھے باچاخان نے اپنے ابتدائی تعلیم اپنی ابائی علاقے سے حاصل کی اور اعلی تعلیم کیلے مسلم علی گڑھ یونیورسٹئ گئے ۔ باچا خان کچھ وقت انگریز فوج کا حصہ بھی رہے بعد میں انگریزوں کے پھٹانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرنے پر باچا خان نے فوج کی نوکری چھوڑ دی اور پھر باچا خان نے خدائی خدمتگار کے نام سے ایک تنظیم بنائی جو سیاسی اور نظریاتی لحاظ سے آل انڈیا مسلم لیگ کے بجائے انڈین نشینل کانگریس کے زیادہ قریب تھے خدائی خدمتگاروں نے اس وقت سے ہی لال ٹوپیاں پھنتے تھے باچاخان گاھندی کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتےتھے ۔ اور باچا خان کے سیاسی جدوجہد کا مرکز بھی انڈین نیشنل کانگریس سے تھا اور پھر ایک زمانے میں یعنی 1930 میں پشاور قصہ خوانی بازار میں انڈین نیشنل کانگریس نے برطانوی سامراج کے خلاف تحریک سول نا فرمانی چلارہی تھی تو اس وقت پشاور میں نہ صرف باچا خان کو گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے کارکنوں پر فائرنگ کی گئی اور تقریبا 200 سے زیادہ کارکنوں کو موقع پر جانبحق کیا گیا ۔ اور پھر جب باچا خان 11 مارچ 1931 کے روز گجرات کے جیل سے رہا ہوئے تو ان کا استقبال ہزاروں سکھوں ، ہندوں اور مسلمانوں نے کیا 1937 میں ہونے والے ریاستی انتخابات صوبہ سرحد کے صوبائی اسمبلی کے اس الیلکشن میں کل 50 سیٹ تھیں جس میں سے 24 سیٹ ازاد امیدواروں کے تھے اور 19 سیٹ کانگریس اور 7 سیٹ دیگر ہندوں اور سیکھوں کے حصے میں ائے اس الیکشن میں ال انڈیا مسلم لیگ کے حصے میں ایک سیٹ بھی نہیں ائی اور نشینل انڈین کانگریس نے اکژیت کی وجہ سے با اسانی اپنی حکومت بنائی اور باچاخان کے بڑے بھائی خان عبدولجبار خان جو کہ ڈاکٹر خان صیب کے نام سے مشہور تھے ان کو صوبہ سرحد کا وزیراعلی بنایا گیا اور اسطرح 1945 سے 46 کے الیکشن میں انڈین نیشنل کانگریس نے 50 سیٹوں میں سے 30 سیٹ اپنے نام کرلیے جبکہ ال انڈیا مسلم لیگ کے حصے میں 17 سیٹ ائے انڈین سیشنل کانگریس نے ایک بار پھر اپنا حکومت بنایا اور ٖڈاکٹر خان صیب کوایک بار پھر وزیراعلی بنایا گیا ڈاکٹر خان صیب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ قیام پاکیستان کے بعد بھی 8 دنوں تک صوبہ سرحد کے وزیراعلی رہے ۔ باچا خان قیام پاکستان سے قبل ایسا ریفرینڈم لانا چاہتے تھے جس میں صوبہ سرحد پاکستان یا بھارت کے ساتھ شامل ہونے کے علاوہ تیسرے اپشن پر رکھا جائے کہ اس علاقے کو ازارد ریا ست بنایا جائے جس کا نام پختونستان رکھا جائے جب ان کا یہ ڈیمانڈ مسترد کیا گیا تو انہوں نے اس ریفرینڈم سے بائیکاٹ کرلیا اور پھر پاکستان وجود میں انے کے بعد باچاخان پاکستان کی قومی اسمبلی کا حصہ رہے ، اس وقت پاکستان کا دارلحکومت کراچی تھا۔ باچاخان نے قائداعظم محمد علی جناح سے کراچی میں ملاقات کی اور پشاور میں قائم خدائی خدمتگار کے دفتر میں انے کی دعوت دی لیکن اس وقت مسلم لیگی رہنما خان عبدلقیوم نے مداخلت کیا اور قائد اعظم کو پشاور جانے سے منع کیا اور کہا خدانخوستہ اپ کو وہاں قتل کر دیا جائے گا۔ قائد اعظم نے ڈاکٹر خان صیب کو وزیراعلی کی عہدے سے ہٹایا اور صوبہ سرحد کا نیا وزیراعلی خان عبدلقیوم کو مقریر کیا گیا ۔ اور باچاخان کو ایک دفعہ پھر گرفتار کر لیاگیا باچا خان اگلے 6 سال 1954 تک جیل میں رہے ۔ 1956 میں جب پاکستان کو ون یونٹ بناگیا تو باچاخان نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا اور ایک بار پھر باچاخان کو جیل بھیجاگیا ۔اور ڈاکٹر خان صیب کو لاہور میں 1958 میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے باچاخان کو وزارت کی افر بھی کی تھی لیکن باچاخان نے مسترد کیا تھا اور پھر باچاخان 1964 تک قید میں رہے بعد میں ان کی طبعیت خراب ہونے پر یعنی ھیلتھ گراونڈ پر ان کو رہائی مل گئے اور وہ علاج کیلے لندن چلے گئے ۔ پھر 1972 میں باچا خان کے بیٹے خان عبدولولی خان کے نیشنل عوامی پارٹی نے الیکشن جیت کر بلوچستان میں حکومت بنائی تو باچا خان وطن واپس ائے سال 1973 میں زولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ملتان سے ایک بار پھر گرفتار کیا گیا باچاخان نے اپنی اخری تحریک کالاباغ ڈیم کے خلاف چلائے تھی ۔ سال 1985 میں جب انڈین نیشنل کانگریس نے جب اپنے سالگرہ منائی تھی تو باچاخان راجپ گاھندی کے دعوت پر ہندوستان گئے جہاں باچاخان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یاد رہے باچاخان کو جواہر لال نہرو ایوارڈ کے علاوہ انڈیا کا سب سے بڑا ایوارڈ سول ایوارڈ بھارت رتھنا بھی دیا گیا ہے اور یہ پاکیستان کا پہلا اور اخری شہری ہے جس کو بھارت رتھنا ایورڈ سے نوازاا گیا ہے ۔ باچاخان پختون قوم کے ساتھ بہت محبت کرٓتے تھے اسلئے جب باچاخان 20 جنوری 1988 میں پشاور کے لیڈی ریڈینگ ہسپتال میں انتقال کرگئے تو باچاخان کے وصیت کے مطابق باچاخان کو افغاستان کے شہر جلال اباد میں دفن کیا گیا باچا خان نے اپنی 97 سالہ زندگی میں سے تقریبا 35 سال جیلوں میں گزاریں ہیں افغانستان نے باچاخان کے سیاسی اور سماجی خدمات کے بدلے میں 2010 کا سال باچاخان کے ساتھ منصوب کیا تھا ۔ باچا خان عدم تشدد کے فلسفے کا خالق تھا انہوں نے کبھی بھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا اور اس وجہ سے باچا خان نے اپنی قریبی ساتھی گاھندی سے بھی اختلاف کیا تھا مشہور انڈین رائیٹر راج موھن گاھندی اپنے کتاب (Non Violent Badshah Of Pakhtoon)”غفار خان نان وائیلینٹ بادشاہ اف پختون ” میں لکھتے ہے کہ تحریک ازادی کے سفر میں ایک موقع ایسا ایا کہ گاھندی کے پیروں کاروں نے پولیس کے لاٹھی چارج سے تنگ اکر پولیس پر تشدد کیا جس پر باچاخان نے گاھندی جی سے شدید اختلاف کیا اور گاھندی جی سے کہا اپ کیسے تشدد کا راستہ استعمال کرسکتے ہیں ۔ باچاخان ایک سادہ مزاج انسان تھا انہوں نے اپنی ساری زندگی اصولوں کے بنیاد پر گزاری ہے باچاخان نے اپنے ایک تقریر میں کہا تھا کہ جس قوم کو پیسے اور اقتدار سے محبت ہوجائے تو اس قوم میں کبھی بھی اتفاق ، قوم پرستی ، جمہوریت ، سوشلزم ، نہیں آسکتی اور نہ ہی وہ قوم ایک مذ ہب پر رہ سکتی ہیں ۔ اب اپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایک ایسی شخصیت جنہوں نے اپنی 97 سالہ عمر میں سے 35 سال جیلوں میں گزاری ہوں صرف اپنی قوم کے خاطر اس شخصیت کو ہم کیسے غدار کہ سکتے ہیں ۔
2,116 total views, 2 views today