*قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ*
انسان کی شخصیت کے لئے تہذیب النفس یعنی تہذیب الاخلاق ضروری ہے ۔یہی تہذیب ہی اس کو معنوی طور پر انسان بنادیتی ہے یہ نہ ہو تو اصلاً حیوان ہی ہے کہ اس کے سارے وہ تقاضے موجود ہیں جو دیگر حیوانات میں ہیں ۔اب ان تقاضوں کو تھوڑا صاف شفاف بناناتو اصل انسانیت نہیں کہ حیوان کچا کھاتا ہے اور یہ اسے پکاتا ہے یا حیوان گدلا پانی پیتا ہے اور یہ صاف پانی کے طلب میں رہتا ہے ۔کیا اس کے عقل کا تقاضا صرف یہ ہے کہ وہ مادی بدن کی خدمت میں لگا رہے جبکہ خود تو وہ مجرد ہے ۔مجرد لطیف ہوتا ہے اور مادی کثیف۔اور ایک لطیف شے ایک کثیف کی خدمت میں لگا رہے ؟عجیب لگتا ہے ۔
عقل کا اصل تقاضا ہے انسان بننا۔
اور انسان بننے کا معنی یہ ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں۔
۱۔ایک جسمانی
۲۔اور دوسرا روحانی
یا
۱۔ایک حیوانی
۲۔اور دوسرا انسانی
یا
۱۔ایک مادی
۲۔اور دوسرا عقلی
یا
۱۔ایک دنیوی
۲۔اور دوسرااخروی
یا
۱۔ایک کا تعلق خلق سے ہے
۲۔ اور دوسرااس کا تعلق حق سے ہے۔
اب یہ ایک گہرائی اور گھیرائی والا تصور ہے جو صرف حواس وخواہشات اور صرف عقل سے ممکن نہیں۔اگر چہ یہ خواہشات وعقل اس کے متقاضی تو ہیں لیکن ضروری تو نہیں ہوتا کہ مقتضی مقتضیات کو حاصل کرنے میں خود کفیل بھی ہو۔ اور یہ اس لئے کہ نہ تو حواس کا ادراک محیط ہے اور نہ عقل کا ادراک محیط ہے تو ان مقتضیات کو حاصل کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔اس کے لئے کسی محیط علم والے کی اطلاع واخبار لازمی ہے اور وہ ذات ہے اللہ تعالیٰ کی جس نے یہ اخبار واطلاع انبیاء ورسل اور وحی کے ذریعے دی ہے ۔اب اس باب میں حواس کا ایک دائرہ کار ہے اور عقل کا ایک دائرہ کار ہے اور وحی ان دونوں کے مدرکات کا اعتبار اور لحاظ کرکے ان کو راستہ دکھاتا ہے ۔لیکن انسانوں کی اکثریت پر حیوانیت کا غلبہ ہوتا ہے لہذا وہ حواس اور عقل دونوں کو بھی خواہشات کی خدمت میں لگا دیتے ہیں اور وحی کا تو ایسے انسانوں کے ہاں کوئی لحاظ نہیں۔اور خواہشات جب ان دو کو اپنے پیچھے لگادیتے ہیں تو انسان اخطر الحیوانات بن جاتا ہے
اولئک کالانعام بل ھم اضل واولئک ہم الغفلون
ایسے میں انسان میں خود غرضی اور تکبر اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں ۔بندہ خود غرضی کا شکار ہو تو یہ اسے ذلیل کردیتی ہے اور بندہ میں تکبر اور گھمنڈ آئے جس کو انگلش میں ہیوبرسHubrisکہتے ہیں تو سمجھو کہ اب تباہی اس کی مقد ر ہے کہ تکبر پر سزا اللہ موت سے پہلے دے دیتا ہے تا کہ نمونہ عبرت بنے۔
یہ گھمنڈ فرد میں ہو تو فرد کی تباہی اور ریاست وحکومت کی ہو تو اس کی تباہی۔تاریخ نے بارہا سپر پاورز کو تاخت وتاراج ہوتے دیکھا ہے۔ایسا کیوں ہوا؟
اس لئے کہ انسان کی کمزوری یہ ہے کہ جب وہ دولت کے حوالے سے یا طاقت کے حوالے سے خود کو غنی سمجھ لیتا ہے تو پھر وہ ہر ایک کو زیر کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی بزور وجبر ۔حالانکہ وہ اگر اپنی دولت وقوت کو ان دیگران کے تعمیر وترقی اور آبادی وخوشحالی میں لگادے تو وہ اس کے زیر بار احسان ہوجاتے ہیں اور زیر بار قوت ہونے کے بجائے زیر بار احسان آسان طریقہ ہے
الانسان عبدالاحسان
لیکن وہی بات کہ
کلا ان الانسان لیطغیٰ ان راہ استغنیٰ
یہ سچ ہے کہ انسانی طاغی(سرکش)ہوجاتا ہے جب وہ خود کو غنی سمجھ لیتا ہے اور پھر اگر طاقت و ریاست کی کی اکانومی بھی‘‘ وار اکانومی’’ہو کہ اس کی اکانومی کا زیادہ تر دارومدار اسلحہ کی صنعت پر ہو ۔وہ اس صنعتی ڈھانچہ کو مد نظر رکھ کر دشمن بنانے لگ جاتےہیں ۔ان کو ٹپس دے دے کر ایسے کام پر اُکسادیتے ہیں بلکہ ان کی اعانت کرجاتے ہیں جس کے أساس پر اس کو بہانہ ملے کہ اس کے خلاف عالمی ذہن سازی کے لئے پروپیگنڈا کرے کہ یہ برائی کا محور ہے Axis of Evilاس کا خاتمہ کرنا ہے۔اور جب اس انداز سے اور اس أساس پر ہی دشمن تخلیق ہو تو پھر خون خرابہ کرنے پر کوئی شرم وندامت نہیں محسوس ہوتی۔اس طویل پراسیس Processاس قوت کے ذہن وفکر اور قلب ودماغ میں یہ چیز راسخ ہوتی ہے کہ برائی ہے تو برائی کے خاتمے پر ندامت کیسی؟
کسی معاشرے میں جنگیں ہوتی تھیں یا ہوتی ہیں کہ قبائلی رسوم وروایات میں بندھا ہوا ہے ۔تو کہا جاتا تھا یا کہا جاتا ہے کہ تعلیم کی کمی ہے ،تعلیم عام ہو تو یہ چیزیں ختم ہوجائے گی ۔اب تعلیم اور ترقی اگر سائنس وٹیکنالوجی سے عبارت ہے تو کیا یہ ترقی یافتہ ممالک اس نسبت سے تعلیم یافتہ نہیں؟وہ تو اس کے معراج پر ہیں اور جتنی جتنی ترقی ہوتی ہے اتنی اتنی تباہی بڑھتی ہے اور بڑھائی جاتی ہے اتنی اتنی جنگیں مزید تباہ کن ہوتی جارہی ہیں۔تو پتہ لگ گیا کہ انسانیت اس قسم کی تعلیم سے نہ آئے گی نہ ترقی کرے گی اور نہ امن وسکون سے رہے گی۔انسانیت تربیت سے آتی ہے ،اخلاق واقدار سے آتی ہے ۔اخلاق واقدار مجردات کے قبیل سے ہیں نہ کہ مادیات کے قبیل سے۔مادیات تو اخلاقیات کا جنازہ نکالتی ہیں تو مادی ترقی سے انسان اور انسانیت کی تربیت کیسی ہوگی ۔اس سے اخلاق واقدار کیسے آئیں گے اور اخلاق واقدار نہ ہوں تو وہاں پر معاشرت ،معیشت اور سیاست تینوں شعبے بحران میں جکڑے رہیں گے۔
تودنیا میں مقام حاصل کرنے کے لئے کیا طاقت کا استعمال ضروری ہے کیا اس سے عزت وعظمت ملتی ہے؟
بالکل بھی نہیں کمزور سے کمزور قوم کو بھی آپ طاقت کے ذریعے وقتی طور پر دبا تو سکتے ہیں اس کو اپنانہیں سکتے اور نہ اس کو ہمیشہ کے لئے دبائے رکھ سکتے ہیں کہ آزادی فطرت ہے ہر انسان کی ایک خودی ہوتی ہے اور ہر قوم کی بھی ایک خودی ہوتی ہے وہ آج نہیں توکل اٹھے گی اور کل نہیں تو پرسوں۔آج کی نسل نہیں تو کل والی نسل اٹھ کھڑی ہوگی اور پھر مسلط قوت کا وہ جو حشر کرتے ہیں تو وہ مثالی ہوتا ہے لیکن
وان کثیرا من الناس عن آیاتنا لغافلون
لوگوں کے چشم بینا نہیں ہوتے نہ ان کے قلب ودماغ اتنا گہرا سوچتے ہیں ۔ان کی نظر سطحی ہوتی ہے ۔
افغانستان کی اس بیس سالہ جنگ میں دو(۲)ہزار ارب ڈالرز سے زیادہ یعنی تین سو ملین ڈالرزپرڈے بقول صدر بائیڈن کے لگادیے گئے اور اس نے مزید کہا کہ ایک نہ ایک دن تو ہم نے نکلنا ہی تھا۔ہم کہتے ہیں کہ پہلے نکلتے تو اچھا تھا بلکہ اگر گئے ہی نہ ہوتے تو اچھا تھا۔ہم نے تو قبل ازیلغار ان کے ذمہ داروں کو مختلف میٹنگز میں یہی کہا تھا کہ نہ جائیں یہ سوائے خسارے کے اور سوائے عزت کھونے کے اور کچھ نہیں ہوگا۔جاتے وقت نصف دنیا کی نظر میں ساکھ کھو جاؤ گے اور نکلتے وقت باقی نصف دنیا کی نظر میں۔تو ایسی سعی لاحاصل بلکہ وہ سعی جو خسارہ اور رسوائی دے اس کی ضرورت ہی کیا ہے کہ جاتے وقت ہم نے کہا وہاں کے لوگوں کو ایک مستحکم نظام ومملکت ،ایک پرامن ماحول اور ایک تعمیر شدہ ملک دینے کے لئے جارہےہیں اور اب جو ہم نکلے ہیں تو کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم وہاں کوئی ان کی تعمیر کے لئے تھوڑے گئے تھے ہم تو محور الشر کے خاتمے کے لئے گئے تھے ہم نے اپنی دشمن کو بھی مارا اور اس کی تنظیم کو بھی ختم کیا۔وہ تو ایک فکر ہے اس کی حاملین کے نظر میں صحیح اور مخالفین کے نظر میں غلط۔اور یہ بھی اوپن سیکرٹ ہے کہ وہ فکر کس نے دیا ،کس نے اس کی آبیاری کی ،وہ تنظیم کس نے بنائی اور کس نے اس کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کیا اور یہ کہ اب اگر وہ تنظیم نہیں تو ایک دوسرے نام پر اس سے بھی خطرناک تنظیم موجود ہے اور یہ بھی اوپن سیکرٹ ہے کہ یہ دوسری تنظیم کس نے بنائی اور عرب ممالک میں کس کس کو اس کے ذریعے تاراج کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لئے اس کی آبیاری کی گئی اور وہاں پر جب کسی حد تک مقاصد جو زیادہ تر تخریبی تھے وہ حاصل ہوئے کہ تعمیر اور عامۃ الناس کی خیر تو مقصود نہیں تھا تو پھر کس نے ان کو اٹھا اٹھا کے وہاں سے اس خطے میں لایااور ان کو سیف ایریاز دیے اور نوجوانوں نے اگر ان سے دو دو ہاتھ کرنا چاہا تو کنہوں نے ان نوجوانوں پر فضائی بمباریاں کیں اور یہ کہ اس خطے کے اس بحران اور بحرانی کیفیت میں مبتلا رکھنے کے مقاصد کیا تھے اور کیا ہیں۔ پہلے تو کہا جاتا کہ یا تو جانتا ہے یا میں جانتا ہوں لیکن اس کے متعلق تو ساری دنیا جانتی ہے ۔اس قسم کے تنظیموں کو تو ہمیشہ ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کے لئے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔أساساً یہ قوتیں جنگیں بھی معاشی نکتہ نظر سے لڑتی ہیں ۔کہتے ہیں لینن سے کسی نے کہا کہ
War is terrible
جنگ وحشت کی انتہا پسندی ہے۔
تو اس نے کہا
Terribly profitable
کہ انتہائی درجے کی منافع بخش بھی ہے۔
کہتے ہیں بیس سالہ افغان جنگ میں صرف شدہ دو کھرب ڈالرز سے زیادہ میں سے اسی(۸۰)فیصد ان مغربی ممالک کے کارندے اور کنٹریکٹرز واپس لے کے اڑے۔
انسانوں کو اور اقوام کو ساتھ لگانے کے لئے یہی کھربوں ڈالرز اگر ان کی ترقی وتعمیر پر لگائے جاتے تو یہ تقاضا ہے
الانسان عبد الاحسان
وہ دل سے ساتھ ہوتے۔
اور اب کے تو نئی ابھرنی والی معیشت نے اپنے طریقہ کار سے یہ ثابت بھی کردیا ہے کہ یہ طریقہ کار زیادہ کارگر ہے کسی جگہ داخل ہونے کے لئے اور وہ بھی عزت سے کہ استقبالی جھنڈیوں سے استقبال کیا جاتا ہے ۔بزور وقوت داخل ہونے کے وقت تو کوئی استقبال نہیں کرتا نہ جھنڈوں سے نہ اسلحہ سے۔لیکن مقہور قوم اپنے ہمت وحوصلے کو جمع کرکے ایک وقفے کے بعد نکل آتی ہے کہ داخلے کے وقت تو داخل ہونے والی قوت کی قوت واسباب سارے مجتمع ہوتے ہیں ان میں ایک غیظ وغضب بھی ہوتا ہے ان کےا عصاب میں کھچاؤ وتناؤ بھی ہوتا ہے ۔تھوڑا وقت دینے سے ان کا غیظ وغضب بھی نیچے چلا جاتا ہے اعصاب بھی لوزLoseہوجاتے ہیں جبکہ وہ مقہور اقوام اس وقت میں اپنی قوت وہمت کو مجتمع کرجاتی ہے اور پھر جو ہوتا ہے وہ ہوجاتا ہے کیونکہ اس وقت میں وہ اپنی وژن Visionکو وسیع کرجاتے ہیں اور مقصد کے ساتھ Convictionپیدا کرجاتے ہیں اور یہ دو چیزیں کسی بھی کام میں کامیابی کے لئے اہم ہوتے ہیں۔
یہ جتنی رقم ان بیس سالوں میں لگائی گئی اگر اس کو ایک ایک ڈالر بل کی صورت اس ملک افغانستان کی زمین پر بچھادیا جاتا تو شاید پورےا فغانستان کی زمین کو جہاں انسان رہتے ہیں کور کردیتا ۔تو کیاخیال ہے اگر اس کو ان کی تعمیر میں لگادیا جاتا کہ وہ حق تو رکھتے تھے کہ ان کی ہمت نے امریکہ کو واحد سپر پاور بنادیا تھا،ان کی وجہ سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا تھا ۔امریکہ چاہتا تو اس کے بعد اپنی سائنس وٹیکنالوجی کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکتا تھا اور وہ ہمیشہ کے لئے ان کے زیر بار احسان ہوتے ۔وہ اپنے معاملات کے حل کے لئے ان کو رجوع کرتے یعنی ان کو اپنا بڑا مانتے لیکن استکبار اور زعم استکبار انسان کو دلدل میں پھنسا دیتا ہے۔
آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں دیکھیں اکثریت کا کیا حال ہے۔آپ تھرڈ ورلڈ میں جائیں ۔وہاں کےا کثریت کے پاس دو وقت کا تو درکنار ایک وقت کا بھی کھانا نہیں ۔وہاں کے بچے ٹریش سے اپنا کھانا چُنتے ہیں ۔ان کے پاس پینے کا پانی نہیں وہ گندے جوہڑ سے حیوانوں کے ساتھ باسی پانی پیتے رہتے ہیں۔ان کے تن پر کپڑا نہیں ایک ہی کپڑے قمیص یا شلوار یا چادر میں گزارا کرتے ہیں ۔ان کے پاس رہنے کی جگہ نہیں وہ فٹ پاتوں اور شاپنگ مالز کے برآمدوں حتی کہ مقبروں میں راتیں گزارتے ہیں ۔ایسے میں صحت اور تعلیم کا کیا سوال ہے اس کا تو ان کے لئے تصور کرنا بھی محال ہے حالانکہ تصور پر پابندی تو نہیں لیکن اس گھمبیر صورت حال میں جس کا وہ سامنا کررہے ہیں اس میں تو ان کے تصورات پر بھی تالے لگے ہوتے ہیں۔یعنی وہ تن کی حفاظت سے فراغت پائیں تو پھر تصور کی دنیا میں داخل ہوں جبکہ ان کو اس سے فراغت نہیں کہ روح اور تن کا رشتہ کیسے برقرار رکھیں کہ وہ ایک بہت ہی کمزور دھاگے کے ذریعے بندھے ہوئے ہیں اور بہت ہی کمزور قسم کے جھٹکے سے یہ دھاگہ ٹوٹ سکتا ہے ۔ان کے بچوں کو دیکھیں تو میڈیکل کالجز میں پڑے ہوئے انسانی ڈھانچے نظر آتے ہیں۔کیا یہ سارے انسان ایک Specieنہیں؟کیا ان کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں؟کیا کہیں دور جاکر ہمارا راستہ ایک دوسرے سے نہیں ملتا؟صرف دوری کا فرق ہے ورنہ ہیں تو وہ بھی ہمارے بھائی ،بہن یا بھتیجے بھانجے۔وہ بھی خلق اللہ اور ہم بھی خلق اللہ۔اور
الخلق عیال اللہ
ہم ایک اللہ کےعیال اور خاندان ہیں۔
تو کیا ایک ہی خاندان میں خاندان والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جو ہم کررہے ہیں؟ایسی معاشی بدحالی میں نہ معاشرتی خوشحالی آسکتی ہے اور نہ سیاسی استحکام آسکتا ہے اور نہ امن وسکون مل سکتا ہے۔نہ مقامی سطح پر اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پرکہ دنیا ساری ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔
بات ذہن میں آنے کی تھی یا نہ تھی اللہ تعالیٰ نے ایک نظر نہ آنے والے جرثومے یعنی کورونا سے ہم کو ازبر کردیا کہ آپ سب ایک ہی مختصر گاؤں جسے آپ دنیا کہتے ہیں کے باسی ہیں اور آپ سب ایک جیسے ہیں،آپ سب آپس میں ایک بھی ہیں،آپ مساوی بھی ہیں تو مساوات کے أساس پر مواساۃ یعنی ہمدردی کیا کریں ،اوروں کا دکھ درد شیئر کریں۔تو ایک دوسرے کی زندگی کو بہتر بنانے کی سعی کریں ۔سارے عالم کو ایک بہتر نظام زندگی دیں،اقدار کو فروغ دیں،قومی اور بین الاقوامی تعمیر میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹھائیں ۔ایسے میں آپ کو ایک قلبی سکون ملے گا کہ کسی مخلوق کا بھلا کیا اور ساتھ ساتھ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
قوت کا گھمنڈ انسانی صلاحیتوں کو تباہ کردیتا ہے اگر چہ وقتی طور پر آپ کے نفس کی تسکین ہوتی ہے لیکن یہ تو نشہ آور ادویہ کی طرح ہے کہ اس سے وقتی سکون تو مل جاتی ہے لیکن وہ تمہارے بدن کے داخلی نظام کا ستیا ناس کردیتی ہے ۔آپ اندر سے کھوکھلے ہوجاتے ہیں اور پھر وہ وقت آتا ہے جب آپ ایک بوسیدہ دیوار کی طرح ایک دھڑام سے زمین بوس ہوجاتے ہیں۔
دنیا کو آباد کرنے کے لئے زندگی کو ایک نئے نقطہ نظر سے دیکھنا ضروری ہے تاکہ حیرت انگیز نتائج کے لئے امکانات کی شناخت ہو ۔جس خطہ میں زراعت ہوتی ہو یا ممکن ہو ان کو اس میدان میں اعانت دیں۔جہاں صنعتیں اور وہ بھی تعمیر ی لگ سکتی ہوں وہاں پر اس باب میں تعاون ہو۔اور تجارت تو ساری دنیا میں ممکن ہے تو اس کا فروغ ہو۔بالفاظ دیگر انسانوں کو عیال اللہ سمجھ کر اپنا بھائی سمجھیں اور بھائی بھی ایسے کہ جس کا ہاتھ بٹھائیں ایسا نہیں کہ اس کا ہاتھ کاٹیں۔اس کے لئے بولڈ سٹیپ لینا ہوگا کسی نے کہاہے
Today a bold action give you a better tomorrow
آج کا ایک بولڈ ایکشن آپ کو ایک بہتر مستقبل دے سکتا ہے۔
امریکہ کے گاڈ فادر جارج واشنگٹن نے کہا تھا کہ
‘‘ بیرونی عسکری مہم جوئی اور غیر ضروری مداخلت سے اجتناب ضروری ہے تاکہ داخلی ترقی ہو اور عوام خوشحال ہو۔’’
اس کا معنی یہ ہے کہ باہر کی دنیا کو ڈھاؤ گے تو آپ پر بھی اس کا منفی نتیجہ آئے گا ۔
صدرآئزن ہاور نے کہا کہ
‘‘وہ صنعتی ڈھانچہ جس کی بنیادیں ہی جنگوں پر استوار ہوں وہ جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔’’
معنی اینکہ جمہوریت سے آبادی آئے گی تو ایسی صنعت سے تباہی آئے گی۔
اس قسم کا کاروبار ظالمانہ استحصال ہے ۔استحصال کے متنوع طریقے ہوتے ہیں۔
اس استحصال کے لئے پہلے دشمن پیداکرنے ہوتے ہیں،پھر جنگیں ابھارنی اور اکسانی ہوتی ہیں تاکہ
‘‘چلے آؤ کہ اسلحے کا کاروبار ہے’’
اور بدقسمتی سے آج کی دنیا میں ہر طبقہ استحصال میں لگا ہوا ہے حکومات بھی ادارے بھی ۔کاروباری ہوں کہ سرکاری ہوں حتی کہ مذہبی طبقات بھی چاہے مولوی ہویا کہ پیر ہو کہ زیادہ تر مولویوں کا مقصد تعلیم شریعت نہیں تعلیم شریعت کے لئے مدرسے کو عطیہ مقصد اولین ہے۔پیر کا مقصد بھی اصلاح اشخاص واحوال نہیں اصلاح بطن وخانقاہ ہے کہ نذرانے ،شکرانے اور ہدایا مد نظر ہوتے ہیں۔اور استحصال جو بھی ہو اس کا انجام بھی برا ہوتا ہے کہ یہ فطری تعلیمات وہدایات کے خلاف ہے۔اب فطرت اغماض کرے بھی تو کب تک؟
اب معاشرہ کیا کرے؟
پہلے تو تحریک کے طور پر اصلاح کا عملی پروگرام شروع ہو ۔یہ تقاریر کرنا اب ایک مشغلہ بن گیا ہے ۔زیادہ تر لوگ یا تو ترنم کو دیکھتے ہیں یا کچھ لوگ فلسفیانہ اپروچ پر جاتے ہیں اور بہت سارے تو جذبات کے رو میں بہنا چاہتے ہیں ۔مقرر بھی آستین چڑھا کر اور فل سوئنگ پر گلا پھلا کر چیخنے کے انداز میں مجمع کو مسحور ومخمور کرنا چاہتا ہے ۔اب مسحور ہو یا مخمور چاہے فلسفے سے ہو چاہے ترنم سے ہو اور چاہے جذبات سے ہو تو مسحور ومخمور کو تو بات کی سمجھ نہیں آتی تو ان سے توقع کیا کی جاسکتی ہے ۔تو بات عمل کی ہے اور یہ بات مذہبی طبقات سے شروع ہوکہ وہ زیادہ تر عمل کی بات کرتے ہیں ۔لیکن صرف بات ہی کرتے ہیں عمل نہیں کرتے ۔اور عمل بھی ان کے ہاں صرف عبادات ہی ہوتے ہیں ۔معاشرے کے اصلاح کے لئے اخلاق واقدار کو عملاً اپنانا ہوتا ہے اور کہنے والے خود ہی اس پر عمل کرے اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت نہ بنیں یہ منفی اثر ڈالتا ہے۔جن کو رہبری کا دعویٰ ہے وہ آج سے اپنے کو زاہد کروادے ۔یہ کوئی مشکل کام تو نہیں اپنی دولت کو غیروں میں نہیں کارخیر میں آج سے لگادے ،سادہ زندگی گزارے پھر دیکھے لوگ کیسے ساتھ دیتے ہیں۔لیکن دنیا دار ،ان کے یہ جہنم نما پیٹ تو دن رات
ہل من مزید
کا نعرہ لگاتی رہتی ہیں ۔یہ قربانی کا تقاضا ،چندے کا تقاضا اوروں سے کرتے ہیں اور ان چندوں کا اکثر حصہ ان کے فرنٹ مینوں کے ذریعے ان کے جیب میں پہنچ جاتا ہے ۔اور یہ کام اگر دین کے لبادے میں ہو تو پھر تو اور بھی غضب خداوندی کا ذریعہ ہے اللہ بچائے رکھےآمین۔اس کا یہ معنی نہیں کہ سارے غلط کررہے ہیں البتہ اکثریت غلط کررہی ہے یعنی سیاسی کام یا مذہبی کام ان کا پیشہ بن چکا ہے جبکہ یہ تو مشن ہے۔
حکومت بھی اصلاح احوال واعمال کرے ۔یعنی حکمرانوں کے اعمال بولیں و ہ بولیں زیادہ نہ کریں زیادہ۔اور ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ والوں کا بھی ساتھ دیں ۔اب اصلاح معاشرہ والے صرف بول سکتے ہیں اور کرسکتے ہیں حکومت والے ساتھ ساتھ ضابطے بھی بناسکتے ہیں اور مسلمان کی تو زندگی ضوابط کے تحت ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ نہ تو وحشی جانور ہے اور نہ پالتو جانور ہیں ۔پالتوجانور کے بھی کچھ ضوابط ہوتے ہیں اپنا وظیفہ پورا کرتے وقت وہ بھی عملیت کا مظاہرہ کرتا ہے یہ تو انسان ہے ذی عقل ہے اور پھر مسلمان ہے ۔ایسے اخلاقی ضوابط جو حکومت کی طرف سے آئیں یہ Moral policingنہیں Moral policyہوتی ہے ۔آخر اداروں کی بھی تو پالیسیاں ہوتی ہیں بغیر پالیسی کے تو ادارے نہیں چل سکتے تو حکومت کیسے چلے گی۔
تاریک خیال اور موم بتی مافیا تو اس ایجنڈے کے أساس پر لاکھوں ڈالرز کماتے ہیں کہ کیسے وہ معاشرے کو ضوابط سے لاتعلق کریں کیونکہ ایسے معاشرے کا پھر شکار کرنا آسان ہوتا ہے ۔بٹیر پکڑنے کے لئے جال کھینچنے سے پہلے ایک رعب دار لمبی آواز والا آواز لگاتا ہے پشتو میں‘‘نیشتہ’’اس آواز سے بٹیر دبک کر بیٹھ جاتا ہے اور جال کھینچنے والا جال کھینچ کر پکڑ لیتا ہے۔تو یہ سامراجی گماشتے اس آواز والے کا کردار ادا کرتے ہیں جس کے ان کو معاوضہ ملتا ہے ۔یہی تو وجہ ہے کہ یہ پہلے سرخ سامراج کے وظیفہ خوار تھے اور اس کے خاتمے کے بعد یہ رنگیلے سامراج کے وظیفہ خوار بن گئے
؎ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
لیکن جن لوگوں کا نہ اپنا کوئی نظریہ ہوتا ہے نہ مؤقف ۔تو وہ تو بکاؤ مال ہوتے ہیں اور ایک سے زیادہ بار فروخت اور استعمال سے وہ استعمال شدہ آئٹمز کی طرح گدلے بھی ہوجاتے ہیں ان کا Lookبھی برا دکھتا ہے اس سے سڑانڈ بھی اٹھتی ہے اور اس کی قیمت بھی پھر کم لگتی ہے ۔لیکن کیا کیا جائے جب کائنات کی سب سے وقیع اور قیمتی چیز یعنی انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی قدر وقیمت کھودیتی ہے ۔اور بسا اوقات تو اس قسم کے بہروپیے جو ہر طبقہ میں ہوتے ہیں وہ تو اقوام کو فروخت کردیتے ہیں لیکن کسے اور کس قیمت پر؟یہ ہمیشہ راز رہتا ہے ۔
؎ مرا فروخت محبت ولے ندانستم
کہ مشتری چہ کس است وبہائے من چنداست
یہ کام سیاستدان بھی کرتے ہیں ۔یہ کام معاشرتی لیڈرز بھی کرتے ہیں ،یہ کام اصلاح کرنے والے بزرگان قوم بھی کرتے ہیں اور یہ کام بلعم بن باعوراء اور برصیصا جیسے ملّا اور پیر بھی کرتے ہیں اور یہی کام ہر قدرت رکھنے والے لوگ کیا کرتے ہیں
؎ دریا وکوہ ودشت وگلستان فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
دریا ،پہاڑ ،صحرا اور گلستان بیچ ڈالے ۔قوم بھی بیچا اور کتنا سستا بیچ دیا۔
644 total views, 2 views today