*قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ*
آئے دن الزام لگ جاتے ہیں۔اخبارات میں آجاتا ہے ،ٹی وی پر نشر ہوجاتا ہے یوٹیوب ،فیس بک اور سوشل میڈیاپر ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔نیب بلالیتا ہے ،ایف آئی اے کی جانب سے کلپس آجاتے ہیں ۔حکومتی ترجمان ایک جانب سے اور اپوزیشن والے دوسری جانب سے گلے پھلا پھلا کر اور جھاگ ودھواں نکال نکال کربولتے رہتے ہیں اور یوں مٹی پلید کرجاتے ہیں۔
اور پہلے تو سنتے رہتے کہ پائپ لیکس ہوگیا ،چھت لیک کررہا ہے جبکہ اب تو کبھی وکی لیکس ،کبھی پانامہ لیکس اور اب پنڈورا لیکس ہورہا ہے ۔بڑے بڑے نام آجاتے ہیں آف شور کمپنیوں کی بات ہوتی ہے،کروڑوں ،اربوں کی بات ہوتی ہے ۔کچھ دنوں کے لئے اخبارات کو بھی میٹرئیل مل جاتا ہے ،ٹی وی اوراینکرز کوبھی جھاگ نکالنے کے لئے مواد مل جاتا ہے ۔سیاست دانوں کو بھی ایک دوسرے کے خلاف مواد مل جاتا ہے ،نیب کی پیشیاں ہوجاتی ہیں اور بعد میں کہا جاتا ہے کہ کچھ ثابت نہیں ہوا۔
اس مسلسل ایکسر سائز کے حوالے سے کبھی کسی نے سوچا ہے یا پتہ کرلیاہے کہ یہ سلسلہ آخر ہے کیا؟آیا یہ کہ الزامات ہی اتہامات تھے جس کا حقیقت سے تعلق نہیں تھا۔ تو جس نے الزام لگایا ایک بندے کی عزت کا جنازہ نکالا اس کو کیا سزا ملی؟یا ہے تو ہے لیکن ثابت نہیں ہورہا تو پھر یہ خامی کہاں ہے؟کیا کرپشن کرنے والوں نے کرپشن کو کچھ ایسی بھول بھلیوں سے گزارا ہے کہ کوئی سرا ہی نہیں مل رہا۔یا پھر جو قانون کو ہینڈل کررہے ہیں یعنی اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل اور نیب وغیرہ کے پراسیکیوٹرز پروفیشنل دیانت نہ کرسکے یا انہوں نے بھی کرپشن معاملات اور کیسز کے حوالے سے خود بھی کرپشن کیا ہے اور قانون میں ڈنڈی ماری ہے یا پھر ادارے میں بیٹھے آفیسرز نے کوئی کھیل کھیلا ہے یا کہیں کسی جج نے قانون کی رکھوالی میں ڈنڈی ماری ہے۔
یہ سوالات جواب طلب ہیں یا یہ کہ انتظامی افسران نے تعاون نہیں کیا ۔تو ایسے میں حکومت کہا ں ہے؟معلوم تو یہ ہورہا ہے جیسا کہ ان لوگوں کو صاف اور بری الذمہ قرار دینے کا ایک سلسلہ شروع ہے۔حالانکہ یہ تو معلوم ہے کہ یہ بندہ پبلک آفس ہولڈر ہے اس کی تنخواہ اتنی ہے جبکہ اس کے اثاثے تو اس کے آمدن سے سینکڑوں گنا زیادہ ہیں۔تو یہ اموال کہاں سے آئے؟اور اگروہ بزنس بھی کررہا ہے تو دیگر لوگ بھی تو بزنس کررہے ہیں ان کےا ثاثے تو اس رفتار سے نہیں بڑھتے ۔تو ضرور اس بندے نے اپنی حیثیت سے استفادہ کیا ہے۔جبکہ دیگر لوگوں پر نظر رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔اور پھر ادارہ تو ہے لیکن ان کا تعرض سارے لوگوں کے حوالے سے ایک جیسا نہیں ۔سننے میں آیا ہے کہ حکومتی وزراء کے حوالے سے یہ اتنی پھرتی نہیں دکھاتا بلکہ ان کے کیسز کو delayکرتے چلے آرہے ہیں اس وجہ سے اس پر اعتماد نہیں پیدا ہورہا ۔جبکہ اب جو ایک مدت سے لیکس آرہی ہیں کہ آف شور کمپنیاں ہیں تو آف شور کمپنیاں ایک طریقہ ہے جو چلا آرہا ہے ۔یہ کمپنیاں جن ممالک میں بنائی جاتی ہیں وہاں کے قانون میں اس کی اجازت ہے کہ ایکسپورٹ امپورٹ اور بزنس کے لئے یہ کمپنیاں بنائی جارہی ہیں اگر چہ زیادہ تر یہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس سے بچنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔یہ ٹیکس کا معاملہ ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سارے ممالک میں قوانین ایسے ہیں جو ٹیکس اور منی لانڈرنگ کو مختلف حوالوں سے پروٹیکٹ کرتے ہیں۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ واقعی کاروباری ہیں لیکن پیسے باہر رکھتے ہیں ان کو اپنے ملک کے قانون اور اداروں پر اعتماد ہی نہیں اس لئے تو زیادہ تر وہ کاروبار بھی باہر ہی کرتے رہتے ہیں اور ہر حکومت سرمایہ کاری کے لئے باہر کے سرمایہ کاروں کو دعوت بھی دیتی ہیں۔امریکہ میں پانچ سوسے زیادہ امیر کارپوریشنز اپنا منافع ان ملکوں میں لے جاتی ہیں جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے ۔ایسا ٹیکس قواعد میں نقائص کی وجہ سے ہے کہ سرمایہ دارانہ تحکّم کا یہی تقاضا ہے۔یہ طریقہ یا تو قانونی ہے یا پھر قانون کے تحت ان کی گرفت بہت مشکل ہے۔لیکن پاکستان جیسے ممالک سے بارسوخ لوگ اپنی ناجائز دولت بیرون ملک شیل کارپوریشنز میں صرف ٹیکس چوری کے لئے نہیں بلکہ اسے خفیہ رکھنے اور پھر اس سے جائیداد خریدنے کے لئے بھی ہوتا ہے۔سو ان لوگوں سے منی ٹریل کا پوچھنا بھی لازمی ہے اور سورس کا بھی۔
مسئلہ یہ ہے کہ جنہوں نے یہ کمپنیاں بنائی ہیں اور جو رقم اس میں لگایا ہے کیا وہ اس رقم کو لے جاتے وقت ڈیکلئیر کرچکے تھے ۔یعنی منی لانڈرنگ تو نہیں کی اور یہ قانوناً ثابت کرنا ہوگا کہ ایسی کمپنیوں میں پیسے لے جانا جرم ہے۔اور کیا یہ جائز طریقے سے حاصل کی گئی تھی اور وہ ہر سال ٹیکس میں وہ پیسے ڈیکلئیر کرتا رہا ہے؟اور پھر یہ کہ اس حوالے سے ملک کا قانون کیا کہتا ہے کہ آپ باہر اکاونٹس رکھ سکتے ہیں؟اور اگر رکھے ہیں تو کیا آپ ایک ملک کے شہری ہیں یا ایک سے زیادہ شہریتیں رکھتے ہیں اور پھر ہر دو ممالک کا قانون کیا کہتا ہے کہ متعلقہ ملک میں تمہارے اثاثوں پر تم نے ٹیکس کس ملک کو دینا ہے ۔یعنی یہ سارے معاملات قوانین میں واضح ہوتے ہیں ۔
پانامہ لیکس آیا تو اس کے أساس پرایک وزیراعظم تو چلتے بنے ہیں اس سےغرض نہیں وہ صحیح گئے یا غلط لیکن وہاں تو پاکستان ہی کے کئی سو لوگوں کے نام تھے ان کے ساتھ کیا ہوایا کیا کیا گیا؟جواب ندارد۔اس طرح یہ معاملات کبھی بھی نہیں سدھریں گے یہ تو مزید بگاڑ پیدا کریں گے تو کیا جب ڈوبنے لگ جائیں گے تو پھر اس وقت تدبیر کریں گے کہ اب بچنا کیسے ہے؟پھر تو بہت لیٹ ہوا ہوگا۔مقصد یہاں بھی کوئی ہدف اور پھر اللہ اللہ خیر صلا۔
ہم یہ ساری باتیں اس لئے لکھ رہے ہیں تاکہ سوچ پیدا ہو۔افلاطون سے کسی نے کہا کہ آپ محنت تو بہت کرتے ہیں لیکن لوگوں کو تبدیل کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے ؟
اس نے کہامیں لوگوں کو تبدیل نہیں کررہا نہ ان کو قائل کررہا ہوں میں صرف ان کو سوچنے کی ترغیب دے رہا ہوں۔
بہرحال یہ سارے معاملات زیادہ تر غریب ملکوں کی امیرترین اشرافیہ(ارذالیہ)کرتی رہی ہے اس لئے کہ وہ ہی اقتدار میں رہتے ہیں، وہی بیوروکریسی میں رہے ہیں یا ہیں۔وہی مقتدرہ میں رہے ہیں، وہی بڑے بڑے صنعت کار یا ایکسپورٹ امپورٹ کے تاجر ہیں یا وہی ایکٹرز اور پلئیرز ہیں۔جبکہ حقیقت میں تو ایسے سارے لوگ ایکٹرز اور پلئیرز ہیں البتہ ان کی ایکٹنگ ،ڈرامہ اور سپورٹس کے میدان مختلف ہیں۔رہے وہ جو نہ تین میں نہ تیرہ میں تو وہ کون سا بڑابلنڈر یا پلنڈرBlunder/Plunderکریں گے کہ ان کے تو ابھی تک وہاں ہاتھ ہی نہیں پہنچے۔ورنہ بہت ہی کم لوگ ہیں جن کا بس بھی چلے اور ایک ڈرامہ یا گیم آرڈر آف دی ڈے بن چکا ہو اور وہ بہتی گنگا میں ہاتھ نہ ڈالے اور وہ بہت کم بھی خدا کے فضل وکرم سے بچ جاتے ہیں۔اور اس میں کسی طبقے کا امتیاز نہیں ہر طبقے میں اچھے برے ہوتے ہیں ۔البتہ بدقسمتی یہ ہے کہ برے زیادہ اور اچھے بہت کم ہوتے ہیں جیسا کہ آٹے اور نمک کا تناسب ہوتا ہے ۔اور ہمارے خیال میں یہ اچھے جو آٹے میں نمک کی طرح ہیں یہ زیادہ بھی اس لئے نہیں ہوتے کہ پھر وہ روٹی کھانے کی نہیں ہوگی(اس کو لائٹ موڈ میں لیں)البتہ جن کا نام نہیں ہوتا ان کو اپنی پارسائی کے شادیانے بجانے کا موقع ہاتھ آتا ہے اور دوسروں کو کوسنے کا،حالانکہ ان میں سے بھی بہت سارے پارساؤں کا جہاں جہاں بس چلے انہوں نے بھی خیر نہیں کی۔
؎ اتنا نہ بڑھا پاکیٔ دامان کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا چاک قبا دیکھ
البتہ دعویٰ ان کا ہوتا ہے کہ
؎ تر دامنی پہ شیخ ہمارے نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
لیکن کیا کریں سیاسی میلے میں یہی کچھ کرنا پڑتا ہے کہ لوگوں کو بھی متاثر کرنا ہوتا ہے اور پھر ورکرز تو ایسی باتوں کو جیمر لگا کر وہ بُوم دیتے ہیں کہ بندہ حیرت میں پڑجاتا ہے کہ
؎ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکسترمیں تھی
اب اس قسم کے لوٹ مارسے ملک کے اندر غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے جس سے ملک تباہ حال ہوجاتا ہے اور اس سے غریب ملک بھی غریب تر اور امیر ملک امیر تر ہوتے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے ممالک میں وہ خلیج پیدا ہوتا ہے جو پھر ختم ہونا چاہتا ہے اور اس کا ختم ہونا ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لئے ایک تباہی لے آتا ہے اور اس کا ایک عام اور سادہ سا اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کائنات میں کوئی بھی چیز بے کار نہیں نہ ہی اس کی کائنات میں کوئی عمل بغیر نتیجہ کے ختم ہوتا ہے وہ ضرور کوئی نتیجہ لے آتا ہے ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اسے نوٹ نہیں کرپاتے۔
وان کثیرا من الناس عن آیاتنا لغفلون
کہ انسانوں کی اکثریت بہت ہی کوتاہ نظر او رکوتاہ فکر واقع ہوئی ہے۔
سو جب تک نظام انصاف مستحکم نہیں ہوتا تب تک اس قسم کی یہ لوٹ مار جاری رہے گااور قانون فطرت جب تک اس کو الٹا نہ دے تو متعلقہ لوگوں کے نہ تو کاروبار کو نقصان ہوگا نہ ان کی سیاست کا بساط لپیٹ لیا جائے گا اور نہ ہی ان کی اخلاقیات پر کوئی حرف آئے گا اس لئے کہ اخلاقیات کے حوالے سے تو وہ پروف ہوچکے ہیں۔اور عدالتیں بھی کچھ نہ کرپائیں گی کہ یہ لوگ یہ کام ایسے انداز سے کرتے ہیں کہ جلیبی کی طرح اس کا سرا ہی نہیں ملتا ہے اور مزید پیچیدگیوں کے لئے کبھی وکیل کی مصروفیت ہے ،کبھی وکیل کی بیماری ،کبھی بیرون ملک ہونے ،کبھی دوسری کسی عدالت میں ہونے ،کبھی کلائنٹ کے بیمار ہونے یا بیرون ملک ہونے وغیرہ دسیوں بہانے ہیں کہ تاریخ پہ تاریخ لیتے رہیں گے تاکہ فیصلے کی طرف سفر ہی نہ ہو۔یہ جو کروڑوں میں فیس لینے والے وکلاء ہوتے ہیں ان کا تو کام ہی یہی ہوتا ہے اور ان کا گڈ وِل تو بنا ہوتا ہے تو عدالتیں بھی ان کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کرسکتیں ۔پھر آخر میں یہ کہ ریکارڈ نہیں مل رہا یا ٹمپرڈ ہے یا صرف فوٹو سیشن ہے جو کافی نہیں اور یوں کیس بند کیا جاتا ہے ۔تو ایک تو انہوں نے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کردیا ہوتا ہے اور باقی ماندہ بیڑا اٹارنی جنرل ،ایڈوکیٹ جنرل اور اداروں کے پراسیکیوٹرز وغیرہ غرق کردیتے ہیں کہ وہ تو تنخواہ دار ہوتے ہیں انہیں تو ویسے بھی تنخواہ مل رہی ہے تو کیوں مغز کھپائی کریں اور زیادہ تر یہ لوگ بھی کوئی تھکے ہارے وکیل ہوتے ہیں ورنہ جن کا اپنا پریکٹس ٹھیک چل رہا ہوتا ہے کہ کروڑوں کماتے ہیں انہوں نے نوکری کا کیا کرنا ہے۔اور یوں وہ جو ملزم ہے وہ اپنی پاکدامنی اور وکٹامائزیشن کا ڈھنڈورا پیٹنے لگ جاتا ہے کہ اداروں کے لوگ بھی یا تو ان کے زیر بار احسان ہوتےہیں یا ان کے پارٹنرز ہوتے ہیں۔بلکہ وہ تو پہلے دن سے ان ملزمان کے ساتھ کچھ صاف لوگوں کو بھی شامل کرتے ہیں جن پر تو کسی چیز نے ثابت نہیں ہونا اور یوں اس ملزم کو جو واقعاتی اعتبار سے تو مجرم ہے لیکن قانون کی اس پیچیدگی کی وجہ سے کہ شریک جرم صاف ٹھہرا تو یہ بھی بری ہوجاتا ہے۔جس سے پتہ لگ گیا کہ یہ معاشرہ بحیثیت مجموعی اگر مردہ نہ بھی ہے تو وائرس زدہ تو ہوچکا ہے جوصحیح سانس نہیں لے سکتا۔کیونکہ معاشرہ ایک بُنت ہے اور زندگی ایک اکائی ہے جب تک سارے ادارے سارے انسان اور سارا معاشرہ باہمدگر مربوط نہ ہو تو یہ تو ایسا ہے جیسا کہ ایک مشین پرزہ پرزہ پڑا ہو وہ کام کیا کرے گا۔ایسا بے بُنت اور بے ربط معاشرہ نہ وحدت رکھتا ہے نہ سمت رکھتا ہے اور نہ اس کا کوئی گول اور مقصد متعین ہوتا ہے۔معاشرے کے بُنت کے لئے وحدت فکر أساس ہے ورنہ اجتماعیت عنقا ہوتی ہے او ر اجتماعیت ناپید ہو تو وہ معاشرہ یاس وقنوط کا شکار ہوتا ہے ۔اب سماجیت نہ رہی توسیاست کون سی رہے گی۔ایسے بے قانون اور بے بُنت معاشرے کی سیاست بھی بجائے اصلاح احوال کے ذاتی مفادات کے ارداگرد گھومتی ہے تو ذات تو سیاہ ہے ایک جگہ پر ہے تو ایسی سیاست میں پھر آگے کی طرف حرکت تو نہیں ہوتی وہ تو بھنور اور گرداب کی طرف ایک جگہ پر ایک ہی محور کے ارداگرد گھومتی رہتی ہے جو کچھ اس کے چکر میں آئے اسے بھی نگل لیتی ہے اور خود کو بھی نگلتی رہتی ہے۔یعنی منطقی اصطلاح میں دور ہوتا ہے اور مناطقہ دور کو بھی باطل قرار دیتے ہیں اور تسلسل کو بھی۔یعنی ایسا سفر جس کی کوئی منزل ہی نہیں اور ایسے میں یہ سیاست دان اپنی اپنی ڈگڈگی بجا کر کچھ تھوڑے بہت سادہ لوح یا مفادات ڈھونڈنے والوں کو اپنے گرد جمع کرلیتے ہیں لیکن عوام پر ان کا اثر نہیں ہوتا ہے اور قافلہ نہیں چلتا ہے۔اور وجہ یہ ہے کہ دسیوں بار ہم نے لوگوں کو قومیت کے نام پر ساتھ لگایا لیکن حاصل کچھ نہیں ،ملک وملت کے استحکام کے نام پر ساتھ لگایا لیکن لاحاصل ،مذہب کے نام پر ساتھ لگایا لیکن بے سود۔اور ضروریات زندگی اور حقوق کے نام پر مسمرائز کردیا لیکن ملا کچھ بھی نہیں۔اب کے جو لوگ ساتھ ہوتے ہیں یا ہوتے رہتے ہیں وہ یا تو امیدوار ہوتے ہیں جن کا مقصد ومدعا تو ٹکٹ کا حصول ہے اور یا ووٹرز ہوتے ہیں جن کا مقصد ومدعا بھی کوئی فوری فائدہ ملنا ہوتا ہے ورنہ جو پارٹی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی بات کررہی ہے اصل میں تو اسی کے بڑوں نے مفلوک الحال لوگوں کو اس حالت تک پہنچایا ہے جو کسی خاص قومیت کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو دوسری قومیت کے غاصبوں سے پہلے تو اسی پارٹی کے خان خوانین ہی اس غریب کے حق کو مارچکے ہیں اور جو مذہب کی بات کرتے ہیں تو علاقے کا خان اور نواب اس کا مذہب اور مذہبی نظام کے ساتھ اخلاص کتنا ہے یہ خود اس کو بھی پتہ ہے اور متعلقہ پارٹی کے لیڈرشپ کو بھی معلوم ہے۔اوریہ ہوئے الیکٹ ایبلز جو دراصل مقتدرہ کے شطرنج کے مہرے ہوتے ہیں جن کو وہ کبھی ایک پارٹی میں اور کبھی دوسری پارٹی میں فٹ کرلیتے ہیں اور یہ بھی ان پارٹیوں کو پتہ ہے کہ گرین لائٹ ان لوگوں کو کہاں سے آتی ہے۔ تبھی تو ہم کہتے ہیں کہ مقتدرہ کے خلاف ہر پارٹی کا احتجاج ایسا ہے جیسا کہ ایک بیٹا باپ کے خلاف احتجاج کرتا ہے کہ دوسرے بیٹے کو کس چیز میں ترجیح دی ہے تو اس بیٹے کی باپ سے دشمنی نہیں بلکہ بے رغبتی پر احتجاج کرتا ہے کہ
‘‘ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں’’
اور یہی تو وجہ ہے کہ ہم سب کی حالت دن بدن بدتر ہوتی رہتی ہے کہ یہ دوغلا پن ہمیں خدا کی تائید سے محروم کردیتا ہے ۔ہم نے سیاست کو جو اصلاً اصلاح احوال ،خدمت خلق اور اطاعت حق ہے کو کاروبار بنا دیا ہے۔ہم نے تعلیم شریعت کو پیشہ بنادیا ہے ،ہم نے طریقت کو مال بٹورنے کا شریفانہ اور معصومانہ طریقہ بنا دیا ہے ۔صحافت جس کاکام معاشرے کی برائی ،سیاست کی برائی اور نظام کی خرابی کی نشان دہی کرنی ہے اس کو بھی اکتساب مال کا ذریعہ بنا دیا ہے اور مذہب جو اصلاً تہذیب الاخلاق،تدبیر منزل اور پھر سیاست مدنیہ کا راستہ دکھاتا ہے یعنی پورے کا پورا تہذیب اور تعمیر اخلاق ہے جو محبت پیدا کرتا ہے ہم نے اسے تعصبات کا منبع بنا دیا ہے۔پہلے تو مسلک اور مسلک کا اختلاف ہوتا تھا اور اب تو ایک ہی مسلک کے دسیوں گروہوں کی رقابت ۔پھر مدارس کی آپس کی رقابت اور خانقاہوں کی رقابت ۔تو ایسے میں کیا کیا جاسکتا ہے سوائے اس کے کہ ہم خود کو تباہی میں دھکیل رہے ہیں۔
تو ان حالات میں جن کا بس چلے وہ آف شور کمپنیاں نہ بنائیں تو کیا کریں ۔ان کے لئے قرضے لے کر معاف کرنے ،منی لانڈرنگ ،ٹیکس اویژنTax Avesionنہ کریں تو کیا کریں کہ پوچھے تو کون پوچھے،کہے تو کون کہے ۔پوچھے گا قدرت والا سو وہ بھی انوالو ہے۔کہے گا مذہبی رہبر ،سیاسی لیڈر یا سماجی رہنما تو ان کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں ۔
یہ سب کچھ کیوں ہے؟
یہ سرمایہ دارانہ تحکم کی وجہ سے ہے کہ یہ تحکم معاشرہ اور اس میں رہنے والوں کو جہنم کی طرح ‘‘ہل من مزید’’ کا حامل وقائل بنادیتا ہے اور ایسے میں لیکس تو ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کو بند کرنے والا نہیں ملتا۔یہ بھی ہے کہ مختلف اوقات میں ایمنسٹی سکیمز آئے جس کا مقصد تھا کالے دھن کو سفید کرنا اور بہت ساروں نے سفید کربھی دیا ہے تو نکلے گا اس سے کچھ بھی نہیں ۔اس لئے کہ سب آپس میں ملے ہوتے ہیں۔کبھی کبھار کوئی چھوٹا موٹا دھچکا کسی کو لگایا جاتا ہے لیکن پھر اس کو پہلے سے زیادہ اچھی جگہ پر لگادیا جاتا ہے ۔بالفاظ دیگر ساری دنیا میں دوغلے پن اور منافقت کا بازار گرم ہے ۔ایسے میں بچنا صرف خدا کے فضل ہی سے ممکن ہے اللھم احفظنا یا رب مع احبابنا واقربائنا وکل من لنا علاقۃ بہم او لہم علاقۃ بناآمین۔
اور اب کے تو ویڈیوز کا دور چل پڑا ہے ۔یعنی بڑے لوگوں میں فحاشی تو ہے کیونکہ ان کا ذہن کبھی بھی مذہبی تو رہا نہیں۔ یہ تومذہب ہے جو بندے کو بداخلاقی ،فحاشی ،بدتمیزی گناہوں اور حرام خوری سے بچاتارہتا ہے ۔تو جب یہ رکاوٹ یا مصلح ہے نہیں تو وہ کیسے رکیں گے۔شاید ان میں بعض کو فوٹو شاپ کیا گیا ہولیکن کئی ایک تو صحیح بھی ہے یہ کون بناتا رہتا ہے ۔پہلے تو کرپشن کے فائل بنانے جاتے ۔لیکن اب تو فحاشی کے کیسٹس آنے شرو ع ہوئے۔رسول پاکﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟
انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسولﷺ کو علم ہے۔
رسول پاکﷺ نے فرمایا وہ جو مرتا نہیں لیکن تب کہ جب اللہ اس کے کان اس کی مدح سے بھردے ۔
انہوں نے کہا یہ کیسے ہوگا؟
نبی پاکﷺ نے فرمایا اگر کوئی بندہ ایک کمرے جس کے اندر ایک اور کمرہ ہے اور یوں ستر کمرے ہیں (اس کے داخلی والے)میں جب وہ عمل کرتا رہتا ہے تو اللہ اس پر صالح اعمال کا ایک لباس ڈال دے گا تو لوگ اس کی تعریف کریں گے اور اضافہ بھی کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ اضافہ کیسے؟
نبی پاک ﷺ نے فرمایا اس لئے کہ وہ حریص تھامزید نیکیاں کرنے پر۔
پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ فاجر کون ہے؟
انہوں نے کہااللہ اور اس کے رسولﷺ کو معلوم ہے۔
حضور پاکﷺ نے فرمایا وہ جونہیں مرے گا مگر تب جب اس کے کان اس کی مذمت سے بھروادے ۔
انہوں نے کہا یہ کیسے؟
فرمایاوہ جو برا عمل کرتارہے کمرہ میں جس کے اندر دوسرا کمرہ ہے اور یوں ستر کمرے ہیں تو اللہ اس کو اس کے عمل کا ایک لباس پہناتا ہے حتی کہ لوگ اس کی مذمت کرتے ہیں او راضافہ بھی۔
انہوں نے کہا اور اضافہ کیوں؟
فرمایا اس لئے کہ وہ حریص تھا مزید برائیاں کرنے پر ۔
اب پتہ نہیں اگلے الیکشن میں کس کس کی شلوار کو برسر بازار اتارا جائے گا یا یہ کہ وہ اچھے بچے بنیں۔
468 total views, 2 views today