قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ
رسول پاکﷺ نے فرمایا
اوصیکم بالشبان خیرا فانہم ارق افئدۃ وان اللہ بعثنی بشیرا ونذیرا
میں وصیت کرتا ہوں آپ کو جوانوں کے حوالے سے خیر کی کہ یہ دل کے نرم ہوتے ہیں اور یقیناًاللہ نے مجھے بشیراور نذیربنا کے بھجوایا ہے۔
دل کا نرمی کا معنی ہے کہ اس میں بات بآسانی ڈالی جاسکتی ہے اور وہ اسے قبول بھی کرتا ہے اور اگاتا بھی ہے۔ساتھ یہ کہ اللہ نے مجھے بشیر ونذیربنا کے بھجوایاہے معنی اینکہ ان کے دلوں میں بشارت وانذار ڈالے جائیں کہ اسی سے زندگی بنتی ہے کہ انسان کو راہ راست پر لانے کے لئے یا ترغیب دی جاتی ہے یا پھر ترہیب دی جاتی ہے ۔یعنی وہ خیر کے راستے پر آتا ہے یاکسی چیز کے طلب کے أساس پر یا پھر کسی چیز سے فرار حاصل کرنے۔حدیث پاک میں ہے کہ
الایمان بین الخوف والرجاء
کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔
یعنی کسی نے نہ تو ایسا ناامید ہونا ہے کہ یاس وقنوط کی وجہ سے کچھ نہ کرپائے اور نہ اس کو صرف امید پر ایسا تکیہ کرنا ہے کہ پھر بھی بے عمل ہوکے رہے ۔یعنی ان دونوں کے درمیان ہو تو زندگی متوازن رہتی ہے ۔کرتا ہے وہ عمل اور تکیہ رحمت خداوندی پر کرتا ہے اور یہی ایمان ہے۔
اصول التفسیر میں انذار وتبشیر ایک اصل ہے یعنی ترہیب اور ترغیب۔علامہ منذریؒ نے احادیث میں ایک کتاب بھی لکھی ہ ‘‘الترغیب والترہیب’’۔اور خود ہی قرآن کریم میں بھی اسی توازن کو برقراررکھنے کے لئےجنت اور جہنم کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے ۔
اب اسلام چونکہ دین ہے توانذار وتبشیر کا یہ مطلب نہیں کہ صرف یہ سمجھا جائے کہ اچھا کروگے تو جنت ملے گی اور برا کروگے تو جہنم۔یہ صحیح ہے لیکن چونکہ انسان دو روخ رکھتا ہے ایک مادی اور ایک روحانی،یا ایک دنیوی اور ایک اخروی،یا ایک دنیوی اور ایک دینی۔اور ا س نے ہر دو کا لحاظ رکھنا ہے
ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃحسنۃ
میں یہی ذکر ہے کہ دنیا بھی بنے اور آخرت بھی سنور جائے۔دنیا نہ بنے تو ذلت اور آخرت نہ سنورجائے تو عذاب۔رسول پاکﷺ کی دعا
اللہم ربنا احسن عاقبتنا فی الامور کلہا واجرنا من خزی الدنیا وعذاب الآخرۃ
میں یہی ذکر ہے کہ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب سے بچائے۔دنیا فرد کی مستحکم نہ ہو یا قوم کی تو وہ ذلیل ورسوا ہوگا ،دست نگر ہوگا ،گداگری کرے گا یا دھوکہ دہی کرے گا۔اور اس کا تو لازمی نتیجہ ہے آخرت کا برباد ہونا۔گویا آخرت کی فلاح دنیا کی بہتری پر موقوف ہے ۔تو ترغیب وترہیب کا معنی ہے کہ ان کو دنیا اور آخرت دونوں کے بنانے کی ترغیب دی جائے اور ان کو ان کی بربادی سے ڈرایا جائے۔تذکیر بایام اللہ کا یہی مقصد ہے کہ قرآن کریم میں قصص بیان کی جاتی ہیں اسی تذکیر اور ترغیب وترہیب کے لئے جس کو ہم اصول التفسیر میں تذکیر بایام اللہ کہتے ہیں۔
اب نوجوانوں کے حوالے سے خصوصیت کے ساتھ یہ حکم ایک تو اس وجہ سے جو حدیث ہی میں ذکر ہے یعنی دلوں کا نرم ہونا سو ان میں فطری طورپرقبولیت کا مادہ موجود ہوتا ہے ۔دوسرا جو اسی سے مستنبط ہے کہ اس نرمی ہی کی وجہ سے وہ بات کو بطورتخم کے قبول کرلیتے ہیں تو اسے اگالیتے ہیں اور یہ پھر بار آور درخت بن جاتا ہے یعنی ان کا استفادہ متعدی افادے کا متضمن ہوتا ہے۔ان میں سے ایک ہی بندہ کئی ساروں کو اس فکر پر لگاسکتا ہے۔
پھر یہ کہ نوجوان مثالیت پسند یعنی Idealisticہوتے ہیں۔یعنی ان کا مقصد وہدف بہت مثالی ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لئےوہ ہمیشہ متحرک اور فعال رہتے ہیں اور درجہ بدرجہ آگے بڑھتے ہیں اور ہر درجہ میں کچھ نہ کچھ خیر اور فائدہ تو حاصل ہوتا ہی ہے اور چونکہ مثالیت ہمیشہ ناقابل حصول ہوتا ہے جس کےلئے وہ تگ ودو کرتے رہتے ہیں تو بندہ متحرک ،سفر جاری ،درجہ بدرجہ خیر کا حصول یعنی ارتقائی سفر اور یوں تاحیات وہ کچھ نہ کچھ کرتے ہوئے زندہ رہتا ہے۔
واعبد ربک حتی یاتیک الیقین
عبادت حق کی طرف افادہ خلق بھی تو مسلمان کے لئے عبادت ہی ہے اور عبادت تو یقین یعنی موت تک جاری رہتا ہے کہ یہ تو مدرسہ عشق ہے
؎ مکتب عشق کے انداز نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
کہ عشق کا معراج یہ ہے کہ وصال نہ ہو۔یہ معاملہ کسی حد تک نصاب علم کا ہے کہ اس کی تکمیل ہوجاتی ہے یا تکملہ ہوجاتا ہے جبکہ اصلاً تو علم بھی کبھی مکمل ہوتا ہی نہیں
اطلبواالعلم من المہد الی اللحد
کا معنی ہی یہی ہے کہ تادم آخرین جاری رہے۔
سو Idealistہونے کا معنی یہ ہے کہ یہ بہترین تصورات رکھتا ہے یا یوں کہیے کہ یہ خواب دیکھتا ہے بہترین۔اور بہتر سے بہتر کا خواب دیکھنا کوئی قابل مذمت بات تو نہیں قابل تعریف ہے اور ہر خواب کی تعبیر ممکن ہے اور دنیا تو ہے ہی ممکنات کی۔اس قسم کے خوابوں کے مقابلے میں ہوتا ہے حقیقت۔یعنی وہ جو واقع اور موجود ہے ۔لیکن حقیقت یعنی واقع اور موجود بھی نفس الامرہے اور ممکن بھی نفس الامر ہے کیونکہ نفس الامرعام ہے واقعی ہو کہ ذہنی ہو۔اور ہم جب تاریخ میں دیکھتے ہیں تو ہمیشہ سے تبدیلی وہ لوگ لاچکے ہیں جو خواب دیکھتے رہے ۔
امریکہ میں کالوں کے لیڈرمارٹن لوتھر کنگ تھے جس نے ان کو تصو ردیا ان کو ہمت دی ،ان کو حوصلہ دیا حالانکہ ان کے تو تصور میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں بھی کبھی آزادی مل سکتی ہے یا ہم بھی انسانوں میں شمار ہوسکتے ہیں کہ صدیوں تک ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کیاجاتا تھا ۔اپنی تحریک میں کنگ نے کہا
I have a dream
میرا ایک خواب ہے۔
اگر چہ عین اس وقت اس کو قتل کیا گیا لیکن اس کا خواب زندہ رہا اور بالعاقبت شرمندہ تعبیر ہوگیا۔اس نے کہا تھا
O God!i love those things which others hate give me liberty or give me death
اے میرے خدا!میں ان چیزوں سےمحبت کرتا ہوں جن سے دیگران نفرت کرتے ہیں مجھے آزادی دے دے ورنہ پھر موت دیدے۔
اور ظاہر ہے صدیوں سے غلامی میں جکڑے لوگ غلامی کو قسمت کا لکھا سمجھ کراس کے خلاف سوچتے ہی نہیں ان کا ذہن اس کو قبول کرچکا ہوتا ہے اگر چہ ہر انسان کی فطرت میں پیدائشی طور پر آزادی کا تصور ہے لیکن وہ دب چکا ہے ،ماند پڑچکا ہے ،دھندلا چکا ہے ۔اس کو حرکت دینا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو اسی مقصد کے لئے بھجوایا
ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا
اور ہم چاہتے تھے کہ مستضعفین پر احسان کریں ۔
اب مستضعفین کون ہیں؟
وہ جن کی آزادی سلب کی گئی ہو ان کے حقوق سلب کیے گئے ہوں ،ان کی انسانیت سلب کی گئی ہو اور ایک آزادی ہی انسانیت اور حقوق کو زندہ کردیتی ہے۔
کلمہ لا الہ الا اللہ اسی کا مظہر ہے کہ غلامی اور بندگی صرف خالق کی اور بس۔انسان انسان کا غلام ہو یہ فطرت کے خلاف ہے ۔ربعی بن عامر الخزاعی ؓ کا جواب ایران کے جنرل رستم زمان کو کہ
اللہ نے ہمیں ذمہ داری دی ہے کہ ہم انسانوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر رب العباد کا بندہ بنادیں۔
اسلام کے تین بنیادی عقیدے توحید،رسالت اور آخرت ۔تو توحید تو جیسے کہ ہم نے ذکر کیا آزادی کا تصور دیتا ہے ۔اس کے لئے جدوجہد کا بہترین نمونہ رسول ہیں لیکن آزادی بے قید اور بے لگام نہ ہو اس کو احتساب کا لگام لگے تو آخرت یہی احتساب کا تصور ہے اور انہی تصورات وعقائد کا حامل ہے قرآن کریم کہ اس انداز سے اپنائے جائیں جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔
نوجوانوں کے ‘‘ارق’’یعنی نرم دل Soft heartedہونے کا معنی یہ ہے کہ یہ ایک نرم مواد ہے جو قالب چاہتا ہے تاکہ ان کو ڈھالا جائے ،تراشا جائے ،بنایا جائے ۔یعنی ہیرے تو یہ ہیں ہی لیکن کان میں پڑے ہوئے ناتراشیدہ ہیرے ہیں۔ابھی تک ان کی شخصیت بنی نہیں سو ان کو اچھے طریقے سے بنانا ہے۔اور اگر اس طرح چھوڑ کے ان کی شخصیت بنی تو پھر تو وہ عمر بھی اسی کا اسیر رہے گا کہ اس کو زعم ہے ہ وہ مکمل ہوچکا ہے لہذا اب اس میں اور کچھ تو ڈالاجاسکتا ہے نہ اس کو اب کسی دوسرے قالب میں ڈھالا جاسکتا ہے کہ اس کی رقت ختم ہوگئی ہے اب تو وہ سخت اور بے لچک ہوچکا ہے۔
سونوجوانوں کو فکر دی جائے اور ان کو کام سمجھایا جائے اور ان کو یہ بھی ساتھ ساتھ سمجھایا جائے کہ یہ کام ہر ایک کی موت تک جاری رہے گا تاکہ کسی بھی وقت اس پر انجماد طاری نہ ہو انہیں کام مشن کے طور پر سمجھایا جائے تاکہ اس کی لگن بھی رہے ،لگاؤ بھی رہے اور ہر نئے دن کے ساتھ اس میں ایک نئی توانائی پیداہو۔کچھ لوگ کسی ایک بات کو لے کر اس کو کل سمجھ لیتے ہیں تو وہ انجماد کا شکار ہوجاتے ہیں یا کسی ایک شخصیت سے لگ کر باقیوں سے لاتعلق تو کیا مخالف بلکہ دشمن بن جاتے ہیں تو وہ بھی انجماد کا شکار ہوجاتے ہیں جیساکہ آج کل انٹرنیٹ پر یہ غلغلہ ہے کہ امام مہدی پیدا ہوچکا ہے یا پیدا ہونے والا ہے اور بہت سارے لوگ اسی پر تکیہ کیے ٹس سے مس نہیں ہورہے ۔یعنی وہ لمبی تان کر سوئے ہیں کہ امام مہدی کے بغیر تو کسی خیر کا توقع کرنا ہی عبث اور دیوانوں کا بھڑ ہے ۔یا کچھ لوگ کسی مولوی ،پیر ،شیخ یا مفکر کو کل سمجھ کر یوں نتھی ہیں جیسا کہ وہ کوئی مولوی ،پیریا شیخ نہیں پیغمبر ہیں معاذاللہ۔کہ ا س کی بات میں خطا کا امکان ہی نہیں یا یہ کہ اس کا علم دنیا جہاں کے سارے علوم کو اپنے اندر سموچکا ہے یایہ کہ ا س کے علاوہ کوئی دوسرا کوئی خیر کی بات کرہی نہیں سکتا اور ہمارا تو مشاہدہ ہے کہ اور تودرکنار آپ کہیں گے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا تو وہ اپنے اس مقتدا کا نام لے کر کہے گا کہ لیکن فلاں صاحب نے تو یہ کہا ہے یا پوچھے گا کہ لیکن فلاں صاحب نے کیا کیا لکھا ہے ۔امام شافعیؒ جیسی بڑی شخصیت کے سامنے کسی مسئلے کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی گئی تو مجلس میں بیٹھے ایک شخص نے کہا
افتأخذ ہذا
تو کیا تم اس کو لے لوگے۔
تو امام کو غصہ آیا اور فرمایا
اترانی اخرج عن الکنیسۃ او تری فی عنقی زنارا
کیا تم مجھے کسی گرجے سے نکلا ہوا دیکھتے ہو یا میری گردن میں (ہندؤں کا)زنار دیکھتے ہو۔
یہ بات ہے کہ نوجوان جذباتی ہوتے ہیں تو جذبانی ہونا ایک مثبت صفت ہے کہ جذباتیوں پر مفادات کا غلبہ نہیں ہوتا مخلص ہوتے ہیں ۔البتہ ان کی جذباتیت کو سمت دینی پڑتی ہے یہ تو الیکٹرک کرنٹ کی طرح ہے اس کو سمت دینی پڑتی ہے اور اس کو کسی مفید ٹول پر لے جانا پڑتا ہے کہ یہ پروڈیوس کرے۔یعنی کرنٹ کو اس طرح آزاد نہیں چھوڑنا کہ یا تو نقصان کرے گا یا پھر خود ضائع ہوجائے گا۔جذباتیت ہی تو ہے جو بندے کو کام پر بھی اکساتا ہے اور قربانی کے لئے بھی اس کو تیار کرتا ہے جذبہ نہ ہو تو کام خاک کرے گا یا قربانی خاک دے گا۔
جذبہ ہوتا ہے تو خلوص بھی ہوتا ہے کام بھی کرتا ہے قربانی بھی دیتا ہے کہ بندے میں توانائی ہے اور توانائی کا جو لیول ہوگا اتنا ہی وہ بندہ زندہ ہے اور جتنا وہ زندہ ہے اتنا ہی اس کو موت حسین لگتی ہے کہ اس میں ایک جانب استقامت ہوتی ہے اور دوسری جانب قربانی کا جذبہ ہوتا ہے ۔وہ موقف اپناتا ہے اور اس پر ڈٹا رہتا ہے اس کی أساسی وجہ یہ ہے کہ قلبی نرمی کی وجہ سے اس کو قائل کرنا آسان ہوتا ہے اور وہ قائل ہوتو پھر اس کی انرجی اس کو کام پر اکساتی ہے اور اس کو ہدف حاصل کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے روکا نہیں جاسکتا۔وہ چونکہ مفادات رکھتا نہیں تو جو فکر اس کو ایک بار سمجھائی جائے اور وہ اس کو سمجھے بھی اور اس پر اس کی بصیرت بھی پیدا ہو پھر وہ اس کے ساتھ کمیٹڈ رہتا ہے۔
یہ ہے کہ عمل میں کوتاہی ہو لیکن دین اسلام کا کمال یہ ہے کہ عقائد محفوظ ہو عبادات کا نظام محفوظ ہو اور اخلاقی تصور محفوظ ہو تو پھر ایک ناقص العمل نوجوان وہ کرشمہ کرد کھاتا ہے جس سے بڑے بڑے مشائخ کے دل لرزتے ہیں۔
البتہ آج مسئلہ یہ ہے کہ معاشی فکر مذہبی فکر کے مقابلے پر آکھڑا ہے اب امت کا تو عقیدہ ایک ہے تہذیب ایک ہے تاریخ ایک ہے یعنی یہ اس حوالے سے ایک اکائی ہے اگر اس امت کے سارے نوجوانوں کو اسی اکائی ہونے کے حوالے سے ایک معاشی اکائی بھی بنائی جائے تو کوئی قوت اس امت کو ایک سپر پاور بننے سے نہیں روک سکتی ۔لیکن سامراجیوں نے نہ صرف یہ کہ ہمیں بہت سارے ممالک میں تقسیم کردیا ہے بلکہ ان کا یہ حربہ جاری وساری رہتا ہے کہ اس امت میں کسی صورت وحدت نہ آئے ۔ساری دنیا کے حوالے سے تو درکنار ایک ہی ملک ایک ہی علاقے بلکہ ایک ہی مسلک میں بھی ان کے دسیوں گروہ ہوں جومسلک سے باہر کے لوگوں کے مقابلے میں اپنے مسلک کے دوسرے گروہ کو زیادہ نیچا دکھائے اور اگر کوئی کسی دوسرے گروہ کو ساتھ لگانا بھی چاہے تو وہ ایسا اپنے شرائط پر اور اپنے فائدے کے لئے کرنا چاہتا ہے کہ تم ایک ندی ہو دریا میں آنا چاہتے ہو تو اپنے کو فنا کرو۔یہ سارا کیا ہے؟نت نئے طریقے ہیں استحصال کے۔یہی تو وجہ ہے کہ نوجوان مذہبی لوگوں سے بدکتے ہیں اس لئے کہ ان کو رول ماڈل بننا تھا لیکن یہ تو ماڈل رول بن چکے ہیں کہ ان کے ہاں اب ماڈل کا تصور رہا ہی نہیں ۔گائیڈ یا Mentorکو ضرورت کیوں ہوتی ہے ؟اس لئے کہ اسے آسان راستہ بھی معلوم ہوتا ہے اور وہ رکاوٹوں سے بچنا بھی جانتا ہے۔
اب نوجوانوں کو کون تراشے ،قالب میں ڈالے ان کو کان والے نا تراشیدہ ہیرے کی بجائے تراشیدہ قیمتی ہیرا بنادے ؟اس کے لئے ایسے Mentorکی ضرورت ہے جس کا کردار بولتا ہو جوان کے ساتھ مٹی پر بیٹھتا ہو جو ان کے ساتھ روکھی سوکھی کھاتا ہو جو ان کا دکھ درد اپنا دکھ درد سمجھتا ہو جو اپنے جیب میں رکھا پیسہ ان کے ساتھ شئیر کرتا رہتا ہو یوں ان کا اس پر عقیدہ بن جاتا ہے اور عقیدے پر پھر سودے بازی نہیں ہوتی عقیدے کے لئے تو پھر قربانی دینی پڑتی ہے اور جو لوگ قربانی کے لئے تیار ہوں ان کو کون روک سکتا ہے ۔
انہم فتیۃ آمنوا بربہم وزدنا ہم ہدی وربطنا علی قلوبہم اذ قاموا فقالوا ربنا رب السموات والارض
یہ( اصحاب کہف) جوان تھے جو ایمان لائے تھے اپنے رب پراور ہم نے ان زیادہ( بابرکت)کردیا تھا ہدایت کے اعتبار سے اور ہم نے ان کےد لوں پر گرہ باندھا تھا(ان کو استقامت دی تھی)جب وہ کھڑے ہوئے(یعنی موقف اپنایا)اور کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جو سماوات اور زمین کا رب ہے۔
سو ایسے میں ہدایت میں برکت واضافہ استقامت اور بعد ازاں تائید خداوندی شامل ہوجاتی ہے ۔اب ان تین چیزوں کے بعد ناکامی؟یعنی کامیابی ہی کامیابی ہوتی ہے۔
اس قسم کے مربی Mentorسے رومانس ہوجاتا ہے اور رومانس کا تو ادنی تقاضا قربانی کا ہوتا ہے۔
اور خیر امۃ کا تقاضا ہے کہ یہ خیریت کا سلسلہ جاری رہے ۔حالات جیسے بھی ہوں لیکن بات پہنچائی جائے اللہ اور رسول کے بغیر کسی مادی غرض اور بغیر کسی تعصب کے خالص اس خیر کے لئے ۔ویسے کام ہے تو مشکل لیکن کرنا پڑتا ہے ۔بحری جہاز تو ویسے ساحل پر ہی محفوظ رہتے ہیں لیکن ان کو ساحلوں کے لئے تو نہیں بنایا گیا ان کو تو سمندر میں اترنا ہوتا ہے امواج کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے بھنور اور گرداب سے نکلنا ہوتا ہے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی تو تسخیر کا تقاضا ہے تو ہم بھی تو مسخر ہیں البتہ غیر انسان صرف تکوینی مسخر ہیں اور ہم تکوینی اور تشریعی مسخر ہیں ۔تکوینی میں تو ہمارا بس نہیں چلتا البتہ تشریعی میں ہم بساط بھر ڈنڈی مارتے رہتے ہیں اور ہر طبقے کے لوگ مارتے ہیں۔اللہ بچائے رکھے آمین۔لیکن جن کو زعم ہے کہ وہ امت کے مذہبی رہبر ہیں ان کے لئے تو ایسا کرنا ہماری نظر میں شرک کے بعد دوسری بڑی گناہ ہے کیونکہ وہ جو کرتے ہیں ان کا کرتا تو خالص اللہ کے لئے ہو ۔اب جوکام اللہ کے لئے ہونا چاہئے اس میں کسی اور چیز کی ملاوٹ کرنا شرک خفی ہے تو دین کا بیان کریں یا لوگوں کی تربیت کریں چاہیں یا ان کو راہ راست پر لگانا چاہیں تو ایسے میں دنیا اور دنیا داری کی ملاوٹ کہ بنگلہ بناؤں جائیداد بناؤں پلازہ بناؤں بنک بیلنس بناؤں یہ شرک خفی ہے ۔یہ کوئی عذر نہیں کہ باقی بھی تو ایسا کرتے ہیں ۔ارے بھائی!آپ باقی میں سے نہیں آپ مذہبی رہبر ہیں ۔آپ Mentorہیں گائیڈ ہیں۔یہ عذر لنگ خدا کے ہاں تو کیا مخلوق کے ہاں بھی قابل قبول نہیں ۔یہ تو مخلوق کو پتہ نہیں ہوتا کہ آپ کیا کیا گل کھلارہے ہیں ورنہ پھر تو وہ آپ کو دیکھیں بھی نہ۔اب یہ بات کہ کوئی ثابت کرے ۔بھائی ہم قانون کی بات نہیں کررہے ہم دین کی بات کررہے ہیں ہم جج اور وکیل کی بات نہیں کررہے ہم خدا اور کراماً کاتبین کی بات کررہے ہیں ۔ہاں یہ چھولا جو اپنے اوپر ڈالا ہے یہ اتارو پھر جو مرضی ہے وہ کرو۔
تو خدارا! قبل اس کے کہ نوجوان آپے سے باہر ہو کر اعلان عام کریں کہ ہم نے کسی کا نہیں سننا خبردار اگر ہمیں کسی نے تعمیر وتربیت کے لئے اپروچ کیا کہ خود تو بنے نہیں ہمیں بنانا چاہتے ہو ۔تو ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ایک طریقے سے یا دوسرے طریقے سے ۔اور بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی ایک گروہ کو اپنے پیچھے لگا لیتا ہے ایک نام سے کوئی دوسرے نام سے کبھی لیڈر ان نوجوانوں کو ایک سرمایہ دار کے پیچھے لگا تار ہے کبھی دوسرے کے پیچھے کہ وہ صحیح نہیں تھا ۔ہمارا تو خیال تھا کہ وہ ہماری کفایت کرجائے گا اسلام نافذ کرنے کے حوالے سے لیکن وہ کھوکھلا نکلا۔اب یہ جو نئی دریافت ہے اس کےذریعے کام بنے گا۔لیکن کیا کام؟وہ تو لیڈر کو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے ان الیکٹ ایبلز کے ذریعے کیا حاصل کرنا ہے اور ان الیکٹ ایبلز کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے کیا حاصل کرنا ہے ۔یہ الیکٹ ایبلز تو درحقیقت طبقات مقتدرہ کے نمائندے ہوتے ہیں یہ خود نہیں بلکہ ان کو وہ طبقات بتادیتے ہیں کہ فلاں درخت پرجاکر بیٹھو اس دوسرے درخت پر ٹارنیڈو آنے والا ہے۔بات وہی کہ سرمایہ دارانہ تحکم کی۔کہ مرکزی محور تو وہی ہے سب کچھ نے اس کے ارداگرد گھومنا ہے اور اس کے ارداگرد گھومنا ہے تو آپ کو کیا ملنا ہے کچھ بھی نہیں ۔اور یہ انتخابی سیاست کی مجبوری ہے۔آپ کے جذبات کی تربیت نہیں کی جائے گی استحصال کیا جائے گا آپ کو تراشا نہیں جائےگا خراشا جائے گا اور بدن پر خراش آجائے گا تو مداوا بھی اس سے طلب کرنا ہوگا جس نے خراش لگائی ہے ۔اب یہ اس پرموقوف ہے کہ وہ مداوا کرنا چاہتا ہے یا وقتی طور پر کوئی مسکّن دے دیتا ہے کہ زخم تو رہے البتہ آپ کراہیں نہ۔اور اگر اس سے مداوا نہ طلب کریں تو پھر تو خراش خارش کرتا رہے گا اور آپ اسے رگڑتے رہو گے تاآنکہ وہ سیپٹک ہوکر رستا ہو اور بالعاقبت آپ کے خاتمہ ۔۔۔۔۔پر منتج ہو۔اب ہم نے خاتمہ کاصلہ ذکر نہیں کیا کہ بالخیر ہو یا کہ بالشر کیونکہ جب بندہ خود بھی اپنے کوا یسا بے وقوف بنا کے رکھ چکا ہو تو پھر تو خاتمہ بالشر ہی ہوگا۔اللہ بچائے رکھے لیکن کیا کیا جائے ان بے چاروں کو کوئی مل نہیں رہا۔اس قسم کے لوگوں کا معاشرہ ایک کھوکھلا معاشرہ ہوتا ہے یعنی نہ اخلاق اور نہ کردار۔ اور بد اخلاق اور بدکردار معاشرہ سے تہذیب وتمدن کی بھی رخصتی ہوجاتی ہے لہذا اس کا ارتقاء نہیں تنزل ہوا کرتا ہے تو معاشرے کے لئے مشن کے حامل استاد اور مربی چاہیئں اور دیکھو غور طلب نکتی ہے کہ اولین معلم خود اللہ تعالیٰ ہیں
وعلم آدم الاسماء کلہا
اور دوسرے نمبر پر انبیاء ورسل ہیں
انما بعثت معلما
سو جس معاشرہ میں استاد ومربی نہیں ہوتے صرف پیشہ ور ہوتے ہیں وہاں نصاب تو پڑھایا جاتا ہے انسانیت نہیں آتی۔
جیمز کوفی کے ابھی چھ سال باقی تھے لیکن اس نے صدر ٹرمپ جیسے خود سر صدر سے کہا کہ مجھ سے اپنی وفاداری بلکہ ملک کی وفاداری اور ایمان داری کی توقع کریں اور یوں وہ چلتا بنا۔اب کردار تو انسانی صفت ہے یہ مسلمان میں بھی ہوسکتا ہے اور غیر مسلم میں بھی۔اس طرح ذاتی مفادات اور کسی کی ذاتی وفاداری والے بھی ہر دومیں ملتے ہیں اول الذکر انسان ہیں دوسروں کے لئے آپ خود کوئی نام تجویز کریں ۔کون سا لیڈر ہےجس نے دھندہ نہیں کیا یا اپنے ساتھی کے دھندے کے دفاع کے لئے مختلف ناموں سے نہ نکل آیا ہو کہ ہاتھ تو ڈالو پھر اپنا حشر دیکھو۔اصل میں ہمیں استکبار نے خراب کردیا جو ہمیں کردار نہیں اپنانے دیتا ۔حضرت علیؓ نے فرمایا کہ زمین کے قریب رہو(یعنی بڑائی نہ کیا کرو)کہ زمین پر بیٹھا ہوا شخص اگر گرے بھی تو اسے چوٹ یا تو لگتی نہیں یا پھر بہت ہی کم ۔ایسےمتواضع عاجز اور منکسر المزاج لوگ ہی بار آور ہوتے ہیں جن سے فائدہ لیا جاتا ہے وہ خیر بانٹتے ہیں۔
مٹی کے مورتوں کا ہے میلہ لگاہوا آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی
542 total views, 2 views today