روخان یوسفزئی
کہتے ہیں زندگی موت کی امانت ہوتی جو بہرحال و بہرصورت لوٹانا ہی پڑتی ہے، موت ایک ایسیتلخ مگر اٹل حقیقت ہے کہ جسے جھٹلائے جھٹلایا نہیں جا سکتا، بلکہ یہ تو روز اول سے لوح قلم پر ہی محفوظ ہے کہ ہر ذی روح کو ایک دن اس کا مزہ چکھنا ہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موت فنا کا نام ہے، کیا موت کے بعد انسان بس خاک میں خاک ہو کر رہ جاتا ہے؟ بے شک کہ لافانی ذات صرف ایک ہی ہے، اس کے علاوہ ہر ذی روح کو ہی نہیں ہر چیز یہاں تک کہ خود فنا یعنی موت کو بھی موت آنی ہیلیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہین کیا جا سکتا ہے کہ اس موت کے بعد جو زندگی ملتی ہے وہ کبھی فنا نہیں ہو گی۔ اسی طرح اس دنیا میں بھیھو کہ اکثر لوگ گمنامی میں پیدا ہو کر، گمنامی زندگی گزار کر ایک گمنام موت مر جاتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ مکمل طور پر گمنامی میں چلے جاتے ہیں تاہم بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس دنیا میں ایسا کام کر جاتے ہیں کہ تادیر ان کا نام یاد رکھا جاتا ہے، ایسے افراد کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو سکتا ہے۔ انہی شخصیات میں سے ایک نام عبدالرحیم روغامنی کا بھی ہے جنہوں نے مرتے دم تک پشتو ادب و زبان کی خدمت کی ہے، گذشتہ ہفتے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ زییر نظر انٹرویو ان کی حیات میں ہی زیور طباعت سے آراستہ ہو چکا تھا، آج جبکہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، ”’شہباز” اسے من و عن شائع کر کے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے اس امید کے ساتھ کہ عبدالرحیم روغانی کے مشن، ”پشتو کی خدمت”، کو ان کے ادبی جانشین جاری و ساری رکھیں گے۔ اللہ ان کی مغفرت نصیب اور درجات بلند فرمائے۔
ضلع سوات کا حسین و سر سبز خطہ صوبہ خیبر پختونخوا کا وہ تاریخی قطعہ اراضی ہے جو دنیا بھر میں قدرتی مناظر کے لئے مشہور ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس خطے نے زرخیر ذہن پیدا کرنے میں بھی نام کمایا ہے۔ یہاں کے باشندے پاکستان بھر میں ملکی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ یہاں کے ماہر فن افراد زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے اپنے فن اور ہنر کے کمال دکھا رہے ہیں۔ انہی ماہر و کمال شخصیات میں ایک منفرد اور مقبول عام نام مشہور پشتو شاعر اور ادیب عبدالرحیم روغانی کا بھی ہے جو مٹہ سوات میں پندرہ جنوری 1950ء کو عبید اللہ کے ہاں پیدا ہوئے، پیشے کے لحاظ سے مدرس تھے اور اپنی ملازمت کی وجہ سے سیالکوٹ اور بعد ازاں لوند خوڑ (مردان) میں سکونت پذیر رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک دینی مدرسے میں منتظم اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
عبدالرحیم روغانی نے ابتدائی تعلیم لوند خوڑ (مردان) کے ایک گورنمنٹ پرائمری سکول سے حاصل کی جہاں جمیل اور شمند خان جیسے اساتذہ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ان کے والد چوں کہ مذہبی آدمی تھے اور چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی صرف دینی علوم تک محدود رہے تاہم روغانی کا میلان دینی و دنیاوی دونوں علوم کی طرف تھا اور ہر چیز پر غور اور ہر بات کا کھوج لگانا روغانی کی بچپن سے عادت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں اپنے آپ کو صرف دینی علوم تک محدود نہیں رکھا بل کہ سکول جانے کا سلسلہ بھی نہیں توڑا۔ اسی طرح انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول دیولئی میں داخلہ لیا، تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے، تاہم میٹرک کے امتحان سے کچھ عرصہ قبل وہ بیمار پڑ گئے اور اسی حالت میں پرچے دیے اور پھر بھی پوری کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی مگر اب مسئلہ گورنمنٹ جہان زیب کالج میں داخلہ لینے کا تھا کیوں کہ ان کے پاس داخلے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ ان کے مطابق ان دنوں آرٹس میں داخلے کے لئے 45 روپے جب کہ سائنس میں داخلہ لینے کے لئے 70 روپے فیس ادا کرنا پڑتی تھی۔ ان کے پاس محض 25 روپے تھے اس لئے انہوں نے کالج کے پرنسپل سے درخواست کی کہ انہیں مفت داخلہ دیا جائے مگر ان کے بقول داخلہ دینا تو دور کی بات پرنسپل نے انہیں کالج کے بینچ پر بھی نہ بیٹھنے دیا اور کالج سے فوری طور پر چلے جانے کا حکم دیا جس پر کالج کے طلبہ نے روغانی کا خوب مذاق اڑایا اور فولنگ بھی کی یوں وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں وہاں سے نکلے اور ردعمل کے طور پر جذبات سے مغلوب ہو کر آٹھویں کا اصل سرٹیفکیٹ اور دسویں کا پروژنل سرٹیفکیٹ نذر آتش کر دیا اور جب اور کچھ نہ سوجھا تو جیب میں موجود 25 روپے (جو کہ انہیں داخلہ دلوانے کے لئے ناکافی ثابت ہوتے تھے) کا خیال کر کے سیدھے سوات پہنچے اور سینما میں فلم دیکھ کر اپنے اندرونی کرب کو دبایا، اس واقعے کے بعد انہوں نے عہد کیا کہ وہ کسی کالج کا رخ نہیں کریں گے اور نہ ہی قلم کا کام کریں گے۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے دوست حکیم خان کی زمینوں میں کاشت کار کی حیثیت سے کام شروع کیا، یہ سلسلہ تین سال تک چلتا رہا۔ پھر اپنے اس مشفق دوست کے کہنے پر میٹرک کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور سوات میں معلمی کے لیے درخواست دی اور ساتھ ہی اس وقت کے انسپکٹر آف سکولز حبیب الرحمن سے عرض کی کہ اگر نوکری کے لئے رشوت اور سفارش چاہئے تو وہ میرے پاس نہیں ہے تاہم درخواست جمع کروانے کے باوجود روغانی کو کال لیٹر نہ مل سکا اور یوں وہ ٹیسٹ اور انٹرویو سے رہ گئے تاہم دوسری بار درخواست دینے پر وہ ٹیسٹ اور انٹرویو میں شامل کر لئے گئے اور بحیثیت پرائمری مدرس (پی ایس ٹی) منتخب بھی ہوئے۔ انٹرویو میں فسٹ آنے پر320 روپے انعام سے بھی ان کو نوازا گیا جو کہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ایک سال ہری پور میں بحیثیت پرائمری ٹیچر ٹریننگ حاصل کی اور آخر کار 1973ء میں ہائی سکول اتروڑ میں اس وقت بحیثیت معلمی کے فرائض سرانجام دیئے جب اساتذہ اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر تھے۔ اپنے ایک رفیق ممتاز علی جو کہ نئی روشنی سکولز میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے کے سمجھانے پر روغانی نے پہلے انٹر کا امتحان پاس کیا اور پھر گریجویشن کرنے کے بعد ایم اے پشتو کا امتحان بھی بحیثیت پرائیویٹ امیدوار پاس کیا۔
سکول کے دنوں میں فزکس ان کا پسندیدہ مضمون تھا اور وہ سائنس دان بن کر ملک و قوم کے لئے کوئی کارنامہ سرانجام دینا چاہتے تھے مگر کالج میں داخلے سے محرومی کے باعث ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تاہم ان کے اس دکھ کا ازالہ کسی حد تک اس وقت ہوا جب 1998ء میں گورنمنٹ جہان زیب کالج کے طلباء نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے اعزاز میں ایک پروقار تقریب منعقد کی اور ان کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا۔ روغانی نے کئی گھنٹے تک اپنے کلام سے شرکائے محفل کو مسرور کئے رکھا اور آخری الفاظ یہ کہے کہ ”جہان زیب کالج مجھے اس لئے پسند ہے کہ یہاں سے علم کا نور پھیلتا ہے مگر ماضی میں اسی کالج سے مجھے محض اس لئے دھتکار کر نکال دیا گیا تھا کہ میرے پاس داخلے کے لئے رقم نہیں تھی۔”
1999ء میں انہوں نے معلمی کے پیشے کو خیر باد کہہ دیا۔ ان کے مطابق درس و تدریس کا پیشہ انہوں نے جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنے کے لئے اختیار کیا تھا تاہم جتنا بھی وقت اس پیشے میں گزارا خلوص، ایمان داری اور جانفشانی سے اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔ انہوں نے چوتھی جماعت سے فی البدیہہ شعر کہنا شروع کیا، وہ شاعر کو جمالیاتی ذوق کا آئینہ دار سمجھتے تھے، ان کے مطابق شاعری وہ کلام ہے جس میں ترنم، خیال آفرینی اور پراثر پیغام موجود ہو، ان کے بقول جس طرح خط کی خوب صورتی خوش نویسی ہے، حرکت کی خوب صورتی رقص ہے بالکل اسی طرح کلام کی خوب صورتی شاعری ہے۔ شعراء میں رحمان بابا اور عبدالحمید بابا کو روحانی استاد مانتے ہیں۔ فن کار کے لئے جمالیاتی ذوق کا حامل ہونے کو اولین شرط گردانتے اور شاعری کو قدرتی عطیہ اور دلی تسکین کا وسیلہ کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ شاعری کا لفظ ”شعور” سے نکلا ہے۔
اب تک روغانی کی شاعری کے تین مجموعے ”نوے نغمہ، ”زوریدلی احساسات” اور ”سندریز احساس” شائع ہو چکے ہیں اور پڑھنے والوں نے ان کے کلام کو پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے۔ اس کے علاوہ نثر میں ان کی کتاب ”کوربانہ خیالونہ” افسانوں کا ایک مجموعہ اور نظموں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ ان کے نثر اور شاعری کے موضوعات میں اصلاح معاشرہ، حصول انصاف کے لئے جدوجہد اور معاشرتی ناہم واریوں پر تنقید نمایاں ہے تاہم وہ تنقید بھی کچھ اس قدر اپنائیت، خلوص، شگفتگی اور ظرافت سے کرتے ہیں کہ تنقید کا نشانہ بننے والے بھی اگر کُھل کر سننے میں عار محسوس کرتے ہیں تو زیرلب ضرور مسکرا دیتے ہیں اور یہی عبدالرحیم روغانی کے فن کا کمال ہے کہ وہ مذاق ہی مذاق میں بڑے پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔ انہوں نے اب تک بے شمار انعامات، اعزازات اور اسناد حاصل کی ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے انہیں اعزازیہ بھی ملتا ہے تاہم کسی بڑے سرکاری اعزاز کے لئے ان کی نامزدگی تاحال نہیں ہو پائی ہے اور نہ ہی پشتو تعلیمی نصاب میں ان کی شاعری یا نثر کا کوئی مضمون شامل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آج کل معیاری کارکردگی کے ساتھ سفارش اور اثر و رسوخ کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو کہ میرے پاس نہیں ہے۔ کھانے میں ان کا دہی اور انجیر من بھاتا کھاجا ہے رنگوں میں سرخ اور سفید کا امتزاج اس لیے ان کو پسند ہے کہ ایک انقلاب اور دوسرا امن کی علامت ہے۔عبدالرحیم روغانی پشتو کے جدید شعراء میں واحد شاعر ہیں جو باریک سے باریک خیال اور اچھوتے مضمون کو سادہ الفاظ میں بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ بقول ان کے جہالت تباہی ہے جب کہ علم ترقی کا زینہ ہے، جب تک ہم زندگی کے ہر شعبے میں میرٹ کو اولیت نہیں دیں گے ہم ترقی نہیں کر سکیں گے۔ وہ انصاف کو امن کا باپ اور خوش حالی کا دادا قرار دیتے ہیں۔ بچپن کے اس واقعے کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں جس نے ان کی بینائی اور یادداشت پر بھی اثر ڈالا۔
پشتو کے منفرد لب و لہجے کے شاعر عبدالرحیم روغانی آج کل ہیپاٹائٹس سی کے موذی مرض کا شکار ہیں اورحکومتی امداد کی راہ تک رہے ہیں مگر تاحال کسی نے ان پر توجہ نہیں دی اپنی بے بسی کا اظہار ایک شعر میں یوں کرتے ہیں
پہ بے قدرہ پختنو کے مے زائے نشتہ
روغانے بہ راجوندے شم خو چہ مڑ شم
وہ ادب برائے زندگی کے فلسفے کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک ادب کسی قوم کی زبان، مجموعی ثقافت اور نفسیاتی رویوں کا عکاس و ترجمان ہوتا ہے اور اچھا ادیب اسے سمجھتے ہیں جو قوم کی مجموعی حالت کو بہتر بنانے میں فعال کردار ادا کرے۔ اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ادیب کا قلم دو دھاری تلوار ہے جو مثبت اور منفی انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اب یہ ادیب پر منحصر ہے کہ وہ اپنے قلم، علم اور فن سے کس نوعیت کا کام لیتا ہے؟ ان کے خیال میں ثقافت کو تغیر پذیری کی خاصیت کے تحت وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی اختیار کرنی چاہئے ورنہ جمود کا شکار ہو جائے گی۔ اس وقت پختونوں کے بارے میں غلط تاثر پیدا کیا گیا ہے مثلاً کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں قوم جنگ جُو ہے چوں کہ جنگ جُو ہونا جانوروں اور درندوں کی خصلت ہے اس لئے کہ ایک بہتان اور سازش ہے، حقیقت یہ ہے کہ پختون بہت ہی محبت کرنے والے امن پسند اور ایثار و قربانی رکھنے والے لوگ ہیں، ان کی سادہ لوحی سے اغیار ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ پختون اغیار کی سازشوں کو سمجھیں اور آپس میں اتفاق اور محبت سے رہیں۔
642 total views, 2 views today