*قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ*
فطرت ارتقائی ہے دھیرے دھیرے مرتقی ہوتی ہے ۔علم وفہم بھی ارتقائی ہے دھیرے دھیرے بڑھتے ہیں ۔ہر نئے دن کے ساتھ ہر بندہ کچھ نہ کچھ مزید سیکھ لیتا ہے۔صاحب سلم العلوم محب اللہ بہاری نے لکھا ہے کہ
وتتزاید العلوم یوما فیوماً
کہ علوم ہر دن کے ساتھ بڑھتے رہتے ہیں۔
یہ اضافہ علم اور علوم میں بھی ہوتا ہے یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نت نئے علوم وجود میں آتے ہیں بلکہ پہلے سے موجود علوم بھی اپنے موضوعات کے حوالے سے مزید تقسیم ہوجاتے ہیں اور پھر ہر موضوع ایک علیحدہ سائنس اور علم وجود میں آتا ہے مثلاً جب ہم پڑھ رہے تھے تو اس وقت سکول کی سطح پر مضمون ہوتا تھا فزیالوجی ۔یہ سارے لائف سائنسز کو شامل ہوتا تھا ۔یعنی نباتات اور حیوانات دونوں کو۔بعد ازاں یہ تقسیم ہوا باٹنی اور زوالوجی کو۔تو باٹنی کا تعلق ہے نباتات سے اور زوالوجی کا تعلق ہے حیوانات سے۔اس طرح ہمارے زمانے میں میڈیکل ہوتا تھا تو سمپلی ایک بندہ ڈاکٹر بن جاتا تھا وہ ہڈیوں کا بھی علاج کرتا تھا ،وہ سرجری بھی کرتا تھا ۔پھر سپیشلائزیشن کا سلسلہ بھی چل پڑا اور فزیشن اور سرجن کی تقسیم بھی ہوئی یا حتی کہ دینی علوم کی پڑھائی ہوتی تھی ۔ہم نے تو مساجد میں پڑھا تو ایک ہی استاد سارے علوم وفنون پڑھاتا تھا یعنی فقہ ،اصول فقہ ،منطق ،فلسفہ ،صرف ،نحو ،عربی ادب ،فارسی ادب ،تفسیر ،حدیث ،عقائد ،عروض وقوافی وغیرہ۔اور ایک فاضل عالم بعد ازاں فقیہ بھی ہوتا ،مفسر بھی ہوتا ،محدث بھی ،معقولات کا عالم بھی اور مفتی بھی ۔البتہ افتاء کے لئے وہ فقہ کی مطول کتابیں جیسے فتح القدیر ،رد المختار ،فتاوی عالمگیری اور دیگر مطولات کا مطالعہ شب وروز جاری رکھتا تاآنکہ فقہ کی روح اور حتی کہ جزئیات اس کی روح میں سرایت کرجاتے اور یوں وہ مفتی تسلیم کیا جاتا ۔بعد ازاں افتاء کا کورس شروع ہوا جو ایک طریقہ تو سکھاتا ہے لیکن بندہ مفتی نہیں بنتا کہ اس کے لئے تو لازم ملازم ملابست اور ممارست لازمی ہے بلکہ ہر علم میں مہارت ملابست اور ممارست دائمہ لازمہ سے آتی ہے۔
یہی معاملہ مشاہدات اور تجربات کا بھی ہے کہ ہر روز نئے نئے مشاہدات بھی ہوتے ہیں اور تجربات بھی ۔اور یوں مزید باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں اور مزید راہیں اور حل نظر آتے ہیں۔ یعنی زندگی بطور خود ایک مسلسل حصول علم ہے اس لئے کسی کو عالم مطلق نہیں کہا جاسکتا وہ تو صرف ذات باری ہے علم جس کی صفت ذاتی ہے اور وہ عالم مطلق ہے جس کا علم ہر ذرہ ذرہ کو بھی شامل ہے اور وہ ماضی ،حال اور مستقبل پر ایک جیسا علم رکھتا ہے کہ تفاوت تو حدوث کا بھی مقتضی ہے اور نقص کا بھی ۔جبکہ اللہ کا علم قدیم اور کامل واکمل ہے۔
پھر دنیا حادث ہے توا سمیں تغیرات آتے ہیں اور اس کےا حوال اور تقاضے بھی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔اور شریعت اسلامیہ میں یہ لچک ہے کہ اس کے فقہی احکام جو مستنبط ہیں ان میں تبدیلی کی گنجائش ہوتی ہے یعنی ایک وقت میں ایک کام کرنا شریعت کا تقاضا ہوتا ہے جبکہ دوسرے وقت میں وہی کام ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔لیکن یہ معاملہ فقہی احکام کا ہے جو مستنبط ہیں کہ ان کا استنباط بھی وقت ،احوال اور ظروف کے تقاضا پر وقت کے مجتہدین نے اصول اجتہاد کے أساس پر قرآن وسنت سے مستنبط کیے تھے یعنی وہ وقت کا تقاضا تھا۔جبکہ منصوص احکام ناقابل تبدیل وتغیر ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے ہم یہ فرق سمجھنے میں غلطی کرجاتے ہیں تو مشکلات میں پھنس جاتے ہیں بلکہ ایسے میں ہم بسا اوقات ناسمجھ لوگوں کےشکار ہوجاتے ہیں اور ناسمجھ لوگ ہماری اتھارٹی بن جاتے ہیں ان کا تو دھندہ چل جاتا ہے جبکہ ہم مشکلات میں پھنس جاتے ہیں اور وہ مشکلات یوں کہ وہ منصوص احکام میں ڈنڈی مارجاتے ہیں او ر اگر فقہی حکم بھی ہو تو اس بندے کا مبلغ علمی تو دو عربی جملوں کے صرف ونحو کی بھی نہیں ہوتی چہ جائیکہ وہ استنباط کے قابل ہوں۔
بہر تقدیر کچھ لوگوں کو ایک بیماری ہوتی ہے ہر بات میں ٹانگ اڑانا اور خصوصاً دین اور دینی امور میں کیونکہ دین کا کوئی والی وارث نہیں جو اس کے متعلق جواب طلبی کرے کہ تمہاری بساط علمی کیا ہے اور تمہارے تقویٰ اور خدا خوفی کا لیول کیا ہے؟اور عام بندہ چاہے وہ بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو وہ جواب طلبی تو نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس سیاسی اتھارٹی نہیں بلکہ اگر بیانی انداز میں بھی اس پر بات کرے تو جواب ظاہر ہے کہ ہم دین پر کسی کی اجارہ داری تسلیم نہیں کرتے نہ ہمیں کوئی ڈکٹیٹ کرسکتا ہے اور نہ ہمیں کسی سے سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔اس کو زعم ہوتا ہے اپنی اتھارٹی ہونے کا کیونکہ یہ تو بغیر اہلیت کے ڈکٹیٹ بھی کرتا ہے اور عملاًاجارہ داری کا دعوی بھی کرتا ہے اور خود کو خود ہی سرٹیفیکیٹ بھی دے چکا ہوتا ہے ۔اب ایک بندہ ایسے خول میں بند ہو تو اس کو تو کوئی بھی کچھ نہ کہہ سکتا ہے اور نہ کہنے کی ضرورت ہے کہ اس نے تو خود پر ہدایت کے دروازے بند کردیے ہیں اور ایک ہی دروازہ بلکہ بڑا گیٹ کھول رکھا ہے اور وہ گمراہی کا ہے اور خدا نخواستہ اس گیٹ سے ایسی گمراہی کے جھونکے بلکہ تھپیڑے مسلسل آتے رہے تو خطرہ ہے کہ ایمان کھو جائے گا معاذاللہ۔
اب ملک میں سیاسی اعتبار سےکیا ہورہا ہے؟
ایک تو جب سے پاکستان بنا ہے اور جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اور کچھ تھوڑی بہت سمجھ آتی ہے تو بس یہ سنتے آئے ہیں کہ
‘‘ملک خطرات میں گراہوا ہے ،ملک بحران سے گزر رہا ہے اور یہ کہ فلاں بندہ یا پارٹی مملکت کی مخالف ہے بلکہ غدار ہے ،دشمن ملک سے ڈانڈے ملے ہیں۔اور پھر وہی کہنے والے اسی بندے اور اس پارٹی کو مختلف احوال میں ساتھ ملاتا بھی ہے ۔یعنی اس مسئلے اور معاملے کو بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں۔اور اب کے تو ایک ذو وجہین اصطلاح آئی ہے کہ اس تنظیم کے اکاونٹ ہمسایہ ملک سے چلائے جارہے ہیں ۔اب اگر کوئی پوچھے بھی نہ اور احوال بھی نہ بدلے تو ہر ایک یہی سوچتا ہے کہ وہاں سے پیسے ملتے ہیں۔وہاں کے بینک اکاؤنٹس سےپیسے آتے ہیں تو کیاوہ وہاں سے بینک ٹو بینک آتے ہیں؟ تو آپ کے بینک نے اسے کلئیر کیسے کردیا اور ادائیگی کردی؟ اور اگر کر بھی دی تو آپ کی حکومت نے اس سے کیا پوچھ گچھ کی ؟اور اگر کیش کی صورت میں آئے ہیں تو آپ کوکیسے پتہ لگ گیا؟اور اگر لگ گیا تو آپ نے اس کی انکوائری کیوں نہیں کی یا اسے ضبط کیوں نہیں کیاگیا؟ور اگر حالات بدلتے ہیں اور اس تنظیم کو قبول کیا جاتا ہے تو پھر اگر آپ متعلقہ ڈبو یا ڈھڈو قسم کے ترجمان سے پوچھیں کہ وہ اکاؤنٹس کا کیا معاملہ تھا؟ تو وہ کہتا ہے کہ میں تو فیس بک اکاؤنٹس کا ذکر کررہا تھا کہ اس کے نام کے فیک اکاؤنٹس وہاں سے چلائے جارہے ہیں جس کا مقصد آگ بھڑکانا ہے اور یہ ڈبو اور ڈھڈو قسم کے ترجمان تو رطب اللسان اور ایور گرین ترجمان ہیں یہ تو کرایہ پر دستیاب رہتے ہیں بلکہ ان کے باس ہی ان کو مختلف حکومتوں کے لئے کرائے پر چڑھادیتے ہیں۔آخر کبھی ہم انسان بھی بنیں گے کہ اپنا وقار اور احترام برقرار رکھیں اپنی زبان کی لاج رکھیں۔
؎ ہوس لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
یہ سارے جو مختلف ادوار میں حکومات میں رہے پارٹیوں کی حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ان کی پارٹی تو حکومتی پارٹی ہوتی ہے وہ تو سدا بہار ہے۔ اور کہتے یہی ہیں کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ۔ارے بھائی!تو آپ بھی سابقہ حکومتوں کا حصہ رہے تھے تو آپ کتنی فیصد کی ذمہ داری لیتے ہیں تاکہ آپ کو اتنے فیصد کی سزا دی جائے کیونکہ آپ تو اعتراف جرم کررہے ہیں جو آپ کے مجرم ہونے کے لئے بطور ثبوت کافی ہے تو چلو آپ سے شروع کرتے ہیں کہ آپ تو بڑے صالح نکلے کہ خود ہی اعترام جرم کرلیا ہے۔
اب جس پر غدار کا لیبل لگایا تو غدر تو ریاست کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے یہ حکومت کے ساتھ تو نہیں ہوتی کہ حکومت تبدیل ہونے کے ساتھ وہ لیبل دھل جائے جب اس پارٹی کی حکومت آئے یا وہ پارٹی حکومت میں شامل ہو تو پھر یہی ڈبو اور ڈھڈو قسم کے ترجمان اسی پارٹی کی تعریف میں یا اس شخص کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے جیسا کہ یا تو یہ بندہ کوئی اور ہے جو بول رہا ہے یا تناسخ کے طور پر اس کی دوسری جنم ہوچکی ہے ۔لیکن قالب تو وہی ڈبو اور ڈھڈو ہے تو یا پھر اس کی سافٹ وئیر تبدیل کی گئی ہے یا اس کو دوسری زبان لگائی گئی ہے یا کم از کم اس میں کہیں نئی یو ایس بی لگائی گئی ہے کہ انسان میں سوراخ تو کئی ایک ہیں جن مین کم از کم دو تو ایسے ہیں جن میں یوایس بی لگائی جاسکتی ہے۔ تو ایک سے تو بول آتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ۔۔۔۔۔۔میں لگائی گئی ہے۔اب بدبو دار جگہ پر یوایس بی لگائی گئی ہو تو اس میں سے بدبو تو آتی رہے گی ایسے لوگوں نے ماحول اور معاشروں کو برباد کیا ہے(معذرت خواہ ہوں)۔
اس قسم کے لوگ ایسی پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے کہ خداوندا!کہاں جائیں یا اور کیا کریں۔کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔یہ لوگ حکومت میں بھی ہوں تو چونکہ کئی ایک مولوی حضرات ان کے اللوں تللوں پر گرفت کرتے ہیں تو یہ ایک تسلسل سے مولویوں کو مختلف طریقوں سے لوگوں کی نظروں میں گرانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان کو کبھی ایسی بات کا سامنا ہو کہ کسی دینی معاملے پر احتجاج ان کی گرفت میں نہ آرہا ہو تو پھر کہتے ہیں علماء حضرات آگے آکر ان لوگوں کو سمجھائیں ۔اس طرح فسادات ہوں معاشرے میں کسی ایسی برائی کا زور ہو جو ان کے اقتدار کے لئے خطرہ ہو تو پھر بھی ایسی اپیل کرتے رہتے ہیں۔ ارے بھائی!آپ نے مولوی کی کوئی قدر وقیمت لوگوں کی نظروں میں چھوڑی ہو تو وہ بات کریں اور لوگ اسے مانیں ۔
دراصل ایسے لوگ ملک اور اس کے خزانے کو لوٹ رہے ہوتے ہیں اور خزانہ کیا وہ بھی تو ملک میں ایک ٹرینڈ رہا ہے کہ معاشی میدان میں اوروں کے قرضوں یا ان کے عطیوں سے کام چلاتے ہیں جبکہ سیاسی اور حتی کہ مذہبی میدان میں مخالفین کی خامیوں اور ناکامیوں سے کام چلاتے رہتے ہیں۔یہ ہے منفی سوچ اور منفی سوچ کبھی بھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں پیدا کرسکتا بلکہ بالعاقبت اسی سوچ کے حاملین کی رسوائی اور ذلت پر منتج ہوجاتا ہے ۔
معاشی میدان میں دیکھیں تو ذمہ داران منت سماجت کرکے اور ناقابل تسلیم شرائط قبول کرکے کچھ قرضہ حاصل کرتے ہیں تو پھر بغلیں بجاتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ڈھول بھی بجاتے ہیں کہ خوشی خبری ہے ،قوم کو مبارک ہو آئی ایم ایف نے قرضہ دینے کی ہامی بھرلی یا فلاں ملک نے اتنی خیرات دی ہے ۔
ملک کے اندر غریب کو دو وقت (یہ تو اصطلاح ہے)ایک وقت کی بھی روٹی نہیں ملتی اور ذمہ داران کہتے ہیں پاکستان میں اب بھی چیزیں دیگر ممالک کی بہ نسبت سستی ہیں۔یہ سارے دھوکے ہیں ،جھوٹ ہے ،فراڈ ہے ،مذاق ہے جو اس غریب قوم کے ساتھ کیا جاتا ہے ارے بھائی!یہ پیمانہ نہیں ہوتا کسی مملکت کی مجموعی آمدنی کیا ہے ؟اس کی فی کس آمدنی کیا ہے ؟اور یہ بھی نہیں بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ غربت کی شرح کیا ہے ؟بے روزگاری کا کیا تناسب کیا ہے ؟کتنے لوگ بے روزگار ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور جو برسرروزگار ہیں ان کی روزانہ کی آمدنی کیا ہے؟اور روزانہ کا اشیائے ضروریہ کا خرچہ کیا ہے؟
بہر تقدیر ایک کھیل ہے جو کھیلا جارہا ہے اور غریبوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے اور کسی کو نہ کوئی ندامت محسوس ہوتی ہے نہ شرم آتی ہے کہ یہ ہم کیا انسانیت کا مذاق اڑارہے ہیں اور اشرف المخلوقات کی تذلیل وتحقیر کررہے ہیں ۔اور یہ جو لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور غریب غرباء کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو سرمایہ دارانہ تحکم کے ایجنٹ ہیں اس کے پروردہ اور اس کے لئے کام کرنے والے ہیں ۔عالمی لیول پر تو بڑے سرمایہ دار کھارہے ہیں اور ملکی وقومی سطح پر یہ ایجنٹ جو مقامی سرمایہ دار ہیں یہ کھارہے ہیں اور بالعاقبت نتیجہ یہ ہے کہ دونوں مقامی اور عالمی سرمایہ دار اور اشرافیہ (ارذالیہ)ان غرباء ہی کو کھارہے ہیں کہ یہی ہیں کھیتوں میں کام کرنے والے پسینے اور گرد وغبار سے اٹے ہوئے یہی غرباء ہیں سڑک پر بجری اور تارکول ڈالنے والے اور پسینے سے شرابور یہی ہیں کارخانوں اور کانوں میں کام کرنے والے جو خام مال نکالتے ہیں کانوں سے اور اسے بناتے ہیں کارخانوں میں۔ان کو تو صرف اتنا معاوضہ دیا جاتا ہے کہ مرے نہ ورنہ پھر یہ سارے کھانے والے کیا کھائیں گے۔ لیکن ان کا جینا بھی کوئی جینا ہوتا ہے کہ نہ تو ان کو صحت کی سہولیات فراہم ہیں نہ ان کے بچوں کو تعلیم کی سہولیات فراہم ہیں۔اوپرسے یہی مسلط طبقات سیاست میں بھی ہوتے ہیں یا سیاست ان کے رحم وکرم پر ہوتی ہے تو سیاست دان خاک ان غرباء کے خیر کا سوچیں گے وہ تو اپنے سرمایے کی بڑھوتری کا سوچتے ہیں تاکہ وہ نسلاًبعد نسلٍ ان غرباء پر نسلاً بعد نسلٍ مسلط ہوکے رہیں اور اسی وجہ سے علامہ نے کہا کہ
؎ تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
تو اسی طبقہ کا جو بھی حصہ سیاست پر مسلط ہو وہ اپنے مقابل کو غداری اور وفاداری کے القابات سے نوازتا رہتا ہے اور ان کا آپس میں اس پر اجماع سکوتی ہے کہ ایک دورے کو ایسا کہتے رہیں گے کہ اسی سے تو یہ مداریوں کا کھیل جاری رہے گا اور عوام جن کو آپ تماش بین کہہ سکتے ہیں ان کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن بعض اوقات غداری کا یہی لیبل ایسے لوگوں پر بھی لگایا جاتا ہے جو اس کھیل میں رجسٹرڈ نہیں البتہ انہوں نے کوئی ایسی بات اٹھائی ہے یا کوئی ایسا سٹینڈ لیا ہے کہ ان مداریوں کے لئے اس پر عمل کرنا مشکل ہے اس لئے کہ ان کے مفادات پر زد پڑتا ہے یا اس سے ان کو مارپڑسکتی ہے یا بیرونی آقاؤں سے اور ان کے لئے تو یہ موت سے کم نہیں ۔اب بات بھی ایسی کہ اسے یکسر تو اگنور نہیں کیا جاسکتا تو آسان بات ہے ایسی ذومعنی بات کریں کہ اس سے یہ معلوم ہو کہ یہ لوگ دشمن کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں ۔ور بعد میں اگر ضرورت پڑے تو اس بات کو Twistبھی کیا جاسکے کیونکہ دھندہ کرنا اور چلانا ہے ایک طریقے سے یا دوسرے طریقے سے ۔اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ملک اور قوم کا بھلا نہیں ہورہا کہ ہمارے نزدیک دین سے دنیا اہم ہے۔اور ملکی وقومی تعمیر وترقی سے اپنی تعمیر وترقی اور مفادات راجح ہیں۔بالفاظ دیگر ہم مفادات کے اسیر ہیں اور منافقت ہمارا وطیرہ بن چکا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں نجات دلائے آمین۔
1,126 total views, 2 views today