تحریر:- سید حکیم ضیاء الدین
میں جب ماحول میں تیری کمی محسوس کرتا ہوں
تھکی آنکھوں کے پردے میں نمی محسوس کرتا ہوں
خیالات اورالفاظ جتنے بھی حسین بامعنی اوراحترام سے بھرے ہوئے ہووالدمحترم کی جدائی کاغم قلم کی گرفت میں نہیں آسکتا اوردرددل کی وضاحت میرے لئے ناممکن ہوتی جاتی ہے دل میں ایک غباراُٹھتاہے اس غبارکویہاں منتقل کرنے کی کوشش کرتاہوں مگردل کی طوفان کا لہر الفاظ میں کہاں بیان کیا جا سکتا ہےوہ سمندرکے بہاو کی طرح کبھی سرسے گزرتی ہے کبھی چٹانوں سے ٹکراکرواپس آتے ہیں۔اگرحقیقت کی نگاہ سے دیکھاجائے زندگی چیزوں اورسہولتوں کانام نہیں بلکہ زندگی احساسات،جذبات اوراْلجھنوں کانام ہے،اگرچہ زندگی بہت کچھ پاکرکھونے کانام ہے مگرکبھی کبھی جذبات والدکی جدائی پرآنکھوں کوپانی پانی کردیتے ہیں۔موت ایک اٹل حقیقت ہے اس حقیت سے کوئی انکارنہیں کر سکتا۔جب والد محترم کے جدائی کی گھڑی قریب آگئی اور اسے آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تو میرے پاؤں تلے زمین نکل رہی تھی میرے انکھوں کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا ہورہاتھا میری بے بسی اْس لمحے عروج پر تھی جب مجھے معلوم ہوا کہ ابا جان کی آخری سانسیں چل رہی ہےاور میں اس کے سرہانے کھڑا بہتی اشکوں کے ساتھ سور
1,268 total views, 4 views today