*قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ*
رسول پاک ﷺ کے ہر فرمان کی طرح یہ حدیث پاک بھی علوم اور تعلیمات کا ایک بحرموّاج ہے۔آپﷺ نے فرمایا
اوتیت جوامع الکلم
مجھے جوامع الکلم دیے گئے ہیں۔
جوامع الکلم وہ کلمات ہوتے ہیں جن سے بنا جملہ ہوتا تو مختصر ہے لیکن اس کا ہر کلمہ بھی حکمتوں کا منبع اور پورا جملہ بھی حکمتوں سے بھرپور ہوتا ہے ۔یعنی الفاظ وکلمات تو کم ہوتے ہیں لیکن معانی کے اعتبار سے ایک بحر ذخار ہوتا ہے ۔حدیث مذکورہ بالا میں لفظ‘‘تحفظوا’’باب تفعل کا صیغہ امر ہے اور تفعل کا خاصہ ہوتا ہےتکلف ۔یعنی اس حفاظت کے لئے بھرپور سعی کرو۔
اب اس کا صلہ ہے ‘‘علی’’جس کا لفظی معنی تو ہے ‘‘پر’’یعنی زمین پر تحفظ کرو۔یعنی زمین پر حفاظت کے لئے بھرپور تکلف کرو تو ایک معنی تو یہ ہوگا کہ
۱۔زمین پر رہتے ہو تو اپنی حفاظت کیا کرو یعنی بے شرمی سے ،بے حیائی سے گناہوں کے ارتکاب سے ۔اور علت اس کی یہ بیان کی کہ یہ تمہاری ماں ہے اور ماں سے تو ہر ایک حیا کرتا ہے ۔ماں کے سامنے تو کوئی بھی نہ بے حیائی کرتا ہے نہ بے شرمی کرتا ہے اورنہ گناہ اور جرم کرتا ہے ۔
۲۔دوسرا معنی یہ ہوگا کہ ‘‘علی’’ بمعنی ‘‘من’’ہوگا کہ حروف جارہ کا ایک دوسرے کے معنی میں آنا تو عربی زبان میں ایک جاری وساری عمل ہے پھر بھی معنی وہی پہلے جیسا ہوگا کہ زمین سے تحفظ کرو یعنی اس پر بے حیائی اور بے شرمی نہ کیا کرو کہ یہ تو تمہاری ماں ہے ۔
۳۔تیسرا معنی ہوگا جو کہ ذرا خود غرضی والا ہوگا کہ زمین کی تحفظ کرو کہ یہ تمہاری ماں ہے یعنی اگر تمہاری ہے تو اس کو فروخت نہ کیا کرو جو ہمارے نزدیک کوئی راجح معنی نہیں۔
۴۔چوتھا معنی ہوگا کہ زمین کا تحفظ کرو کہ یہ تمہاری ماں ہے یعنی اس میں جسمانی اور مادی فساد بھی نہ پیدا کرو اور روحانی فساد بھی پیدا نہ کرو کہ یہ تو تمہاری ماں ہے اور تم اصلاً اس سے پیدا ہوئے ہو
ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین
کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔
یا یہ کہ تمہاری خوراک وپوشاک بھی تو اسی سے ہے یعنی تم اس سے کھاتے ہو جیسا کہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے ۔
اب جہاں تک روحانی فساد کا تعلق ہے تو خدا کے اوامر ونواہی پر عمل نہ کرنا روحانی فساد ہے اور اولاد نے تو ماں کے سامنے فساد تو نہیں کرنا ۔
اور جہاں تک مادی فساد کا تعلق ہے تو اس کو Mis useکرنا یااس کو Abuseکرنا ہی فساد تو ہے کہ اس کو غلط طریقے سے استعمال کیا جائے یا اس کو اس کی فطری حالت کے خلاف زیادہ استعمال کیا جائے۔
ایک مدت سے ہم اس کے ساتھ کیا کررہے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
الم نجعل الارض کفاتا
کیا ہم نے زمین کو ایک ظرف نہیں بنایا۔
احیاء وامواتا
زندوں اور مردوں کے لئے۔
اور فرمایا
الم نجعل الارض مہادا
کیا ہم نے نہیں بنایا زمین کو بچھونا۔
دیگر آیات میں ‘‘مہد’’فرمایا یعنی پنگھوڑا کہ یہ اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے اور سورج کے سامنے بھی گھومتی ہے ایک پنگھوڑے کی طرح۔پھر اسے قرار کیا گیا کہ دو مخٹلف قسم کے چال وحرکت اور پھر بھی مخلوقات کے لئے مقر اور مستقر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس میں پہاڑ وضع کیے ،اس کے اندر دفینے رکھ دیے ،اس میں دریا اور سمندر پیدا کیے ،اس میں زرخیر خطے بھی پیدا کیے اور دشت وصحرا بھی پیدا کیے ،اس میں اونچ نیچ دونوں پیدا کیے،اس میں جنگلات اگائے ،اس میں جوہڑ اور تالاب بھی پیدا کیے۔یہی فطرت تھی ۔
کیا ہم نے اس کی فطرت کو چھوڑا ہے یا اس کو اپنے اللوں تللوں سے تباہ وبرباد کردیا ہے ۔اس کے خالق نے اس کی جو ساخت بنائی تھی وہی توازن تھا ،وہی اعتدال تھا ،اسی میں انسان کے لئےبہتری تھی لیکن انسانی حرص نے اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔
۱۔ایک تو اس وجہ سے کہ انسانوں کی آبادی بے ہنگم ہوگئی۔
۲۔ اور دوسرا اس وجہ سے کہ انسانوں کو زیادہ سے زیادہ کے حصول کی فکر نے دیوانہ بنا دیا ہے ۔
تو وہ کاٹ کاٹ اور اڑا اڑا کے پہاڑوں کا بھی حلیہ بگاڑ رہا ہے،وہ جنگلوں کا بھی کاٹ کاٹ کر اورجلا جلا کر ستیا ناس کررہا ہے ،اس نے دریاؤں کو بھی نہیں چھوڑا کہیں تو اس کے سامنے بند لگاکے اور کہیں اس کا رخ تبدیل کرکے اس کی فطرت کو صرف چھیڑا نہیں تبدیل کیا اور ساتھ ساتھ دریاؤں بلکہ سمندروں تک کو اتنا آلودہ کیا کہ اس میں مچھلی ،مینڈک وغیرہ ہماری وجہ سے تکلیف میں ہیں اور کراہ رہے ہیں کہ ہم گندی نالیاں انہی دریاؤں میں گراتے ہیں ۔اس کو پلانٹ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی ٹرانسپلانٹ کراکر پھر اسے دریاؤں میں گرادے۔ہم برساتی نالیوں کی جگہوں پر قبضہ کرجاتے ہیں اور یوں نیچر اور فطرت کو ایک اور چیلنج کرجاتے ہیں کہ کرلو جو کرنا ہے تو اس نے تو کسی وقت انگڑائی لے کر بدلہ لینا ہوتا ہے کہ وہ کمزور تو ہے نہیں تو لے لیتا ہے۔ہم اس کا رخ تبدیل کرتے ہیں تو وہ پھر یلغار کرجاتے ہیں اور بہت کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔
اس انسان نے دشت وصحرا کو بھی نہیں چھوڑا اور وہاں کی مخلوق کو بھی ماتم کرنے پر مجبور کردیا ہے ،اس نے قدرتی تالابوں کو بھروادیا،جوہڑ نہیں چھوڑے وہاں کی مخلوق کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑااور یوں فطرت اور فطری زندگی کا ستیا ناس کردیااور مزید براں زرعی زمینوں کو سیمنٹ اور سریا کا جنگل بنادیا ،بڑے بڑے رہائشی منصوبے اس پر کھڑے کردیے۔ایسے میں کیا خیال ہے کوئی جسمانی فائدہ ہوسکتا ہے یا کہ نت نئی بیماریوں سے واسطہ پڑے گا اور روحانی فساد پیدا کرکے کیا ہماری روح کو سکون نصیب ہوگا ۔
اب انسان جو ذی عقل ہے اور عقل ہی کی وجہ سے وہ حیوانات سے ممتاز ہے کہ حواس کا علم تو حیوانات کو بھی حاصل ہوتا ہے لیکن یہ انسان تو حواس کے ساتھ عقل کے ذریعے بھی ادراک کرنے والا ہے یعنی یہ محسوس کا علم تو رکھتا ہے لیکن اس کی شناخت اور امتیاز تو معقول کا ادراک ہے کہ فائدہ مند کیا ہے لیکن اگر اس کے عقل پر بھی نفس غلبہ کرچکا ہو تو پھر تو اس کا عقل بھی نفس اور نفسانی تقاضوں ہی کے لئے استعمال ہوگا یعنی یہ تو فوری فائدے کا سوچے گا چاہے ان دی لانگ رن وہ اس کی تباہی ہو اس لئے کہ نفس میں تو بصیرت اور دوربینی نہیں ہوتی وہ تو عقل کا کام ہے اور عقل کو نفس نے قبضہ کیا ہے تو فوری فائدہ کے لئے تو یہ سب کچھ کا بیڑہ غرق کرتا ہوگا اور کررہا ہے ۔اس تباہی کے منفی اثرات کو رکوانے اور اس سے بچنے کے لئے تو اس نے واپس فطرت پر جانا ہوگا
ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقہم بعض الذی عملوا لعلہم یرجعون
فساد ظاہر (یا غالب)ہوچکا ہے بر اور بحر میں اس وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھ کرچکے ہیں تاکہ وہ (اللہ)چکھائے ان کو بعض(عواقب)ان اعمال کا جو یہ کرچکے ہیں شاید کہ یہ لوٹ آئیں۔
لیکن یہ لوٹ آنا تو اب ایک ایسا کام ہے کہ اس کے لئے سارے انسانوں اور سارے اقوام وممالک نے ایک ساتھ عزم کے ساتھ اٹھ کر یہ کرنا ہوگا ورنہ تباہی ہے۔
اب کے نومبر 2021ءمیں روم کانفرنس سے ملکہ برطانیہ نے خطاب میں کہا
‘‘ہم سب مرجائیں گے لیکن ہمارے بچے اور ان کے بچے تو جئیں گے تو کیا ہم صاف ستھری ،پاک پاکیزہ ،کثافت اور آلودگی سے پاک دنیا سونپ کر نہیں جائیں گے اگر جائیں گے تو اٹھو باتیں بند کرو اپنی اس نیلی نیلی سی گول اور سڈول دنیا کی نازک سی باریک اوڑھنی میں اپنی سیاہ کاریوں کی بدولت پڑنے والی چھیدوں میں پاکیزہ ہوا کے پیوند لگانے کی جتن کریں ہمیں اس کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا اور اب اور ابھی کرنا ہوگا۔’’
بدترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی مقدس کتاب کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور احمق ترین ہیں وہ لوگ جو فطرت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں ۔مقدس کتاب جو آسمان سے آیا اس کے ساتھ کھلواڑ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب ہے جبکہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ تو دنیا میں عذاب ہے۔
اب ہم نے کیا کیا؟
۱۔ایک تو دنیا کے مختلف خطوں میں جو آبادی کی بھرمار ہے کہ مسائل تو وسائل کا تقاضا کرتی ہے تو جو حالت انسانوں کی ہے کیا ہم کروڑوں انسانوں کو بھوکا ننگا نہیں دیکھتے ؟کیا ہم کچرے سے خوراک کے ٹکڑے چُننے والے نہیں دیکھتے؟کیا ہم کھلے آسمان تلے دن رات گزارنے والے نہیں دیکھتے؟اب ڈھیر سارے انسانوں کی ضروریات کے لئے بھی ہمیں فطرت کا بیڑا غرق کرنا ہے اور حریصوں کی حریص اور بھوکی آنکھوں کو سیر کروانے کے لئے بھی حالانکہ وہ تو بھرنے والی نہیں اس لئے تو کروڑوں انسان ا یسی حالت میں ہیں کہ انسانیت کی توہین وتضحیک ہورہی ہے۔
جس انداز سے ہم پہاڑوں کو کاٹ کر فطری توازن کو برباد کررہے ہیں ،جنگلات کی کٹائی کررہے ہیں یہ سب کچھ کیوں ہے ؟انہی سابقہ دو وجوہ سے جس میں سرفہرست انسانوں کی بہتات ہے ۔امریکہ کے ایک سابق صدر کلنٹن نے جب ہندوستان کا دورہ کیا تو کہا کہ امریکہ کی تو کل آبادی اتنی نہیں جتنا کہ ہندوستان میں مڈل اور اپر مڈل کلاس لوگ ہیں۔اس سے صرف نظر نہیں کرنا چاہئے ۔
مطلب یہ تھا کہ یہاں ڈھیر ساری مخلوق ہے ،محتاج ہے تو مارکیٹ ہے اور ہمیں اس کو ایکسپلائٹ کرنا ہے یعنی آج کی دنیا کی یہی مائنڈ سیٹ ہے کہ پیسہ کمانا ہے چاہے اس کے لئے دنیا اور فطرت کا ستیا ناس ہو۔
تو زمین کے اندر اللہ نے بہت ساری چیزیں چھپا کی رکھی ہیں جو مفید بھی ہیں لیکن ایک اندازے سے نکالی جائیں اور زمین کے اوپر اللہ نے بہت ساری چیزیں پیدا کی ہیں تو وہ بھی استعمال میں لائی جائیں لیکن ایک اندازے سے ۔رسول پاکﷺ نے فرمایا
ہلک المتنطعون
ہلاکت ہو متنطعین کے لئے۔(یا ہلاک ہوئے متنطعین)
یعنی بددعا بھی ہے اور خبر بھی ہے۔
اب تنطع کیا ہے؟
یہ تکلف ہے یعنی تصنع کہ اس کے کرنے والے ہلاک ہوئے یا ہلاک ہوں۔یعنی وہ لوگ کہ وہ وہ ہیں نہیں جو وہ تکلف کرتے ہوئے ظاہر کرتے ہیں اور اس کا تکنیکی معنی ہے انتہا پسند۔کہ ایک حد سے کسی بھی کام کی زیادتی بری ہوتی ہے ۔اب کھانا انسان کی ضرورت ہے لیکن ضرورت سے زیادہ کھائے تو فوری تکلیف ہوگی اور اگر ایک تسلسل سے ایسا کرتا رہے تو مستقل بیماری ہوجائے گی ۔
تو اب ہم نے کیا کیا؟
زمین کے اندر سے چھپی چیزوں کو بے دریغ نکالتے رہے ہیں زمین کے اوپر والے پہاڑ کاٹ رہے ہیں ،جنگلات کا خاتمہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہ فطری توازن مضطرب ہوگیا ہے ۔گلیشئیر جو زندگی ہے پگھل رہے ہیں،جنگلی حیات ختم ہورہی ہے ،موسم مضطرب ہورہے ہیں ،کہیں گرمی بڑھ رہی ہے اور کہیں سردی بڑھ رہی ہے ،کہیں خشک سالی ہورہی ہے اور کہیں بے دریغ بارشیں اور سیلاب آرہے ہیں ۔بہت سارے پرندے کیڑے مکوڑے اور حیوانات ناپید ہورہے ہیں ۔صحراؤں کو ہم زرعی بنانا چاہتے ہیں جبکہ صحراؤں کا ہونا بھی فطرت کا تقاضا ہے ،جوہڑوں او ر تالابوں کا خاتمہ کررہے ہیں جس سے بھی اضطراب ہی پیدا ہورہا ہے۔کارخانوں پر کارخانے بنارہے ہیں، زہریلی گیسیں نکال رہے ہیں کوئلہ جلا کے آلودگی پھیلاتے ہیں ،پٹرول اور ڈیزل جلا کر آلودگی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ،بہتے پانیوں میں زہریلا اور گندہ پانی چھوڑ کر آبی حیات کا ستیا ناس کررہے ہیں، فصلوں پر کیڑے مار دوائیاں اور مصنوعی کھاد ڈال ڈال کر خوراک اور پانی دونوں کو زہریلا بنارہے ہیں اور یہی دوائیاں کیڑوں مکوڑوں کے خاتمہ کا ذریعہ بن رہا ہے ۔اس کائنات کو تو خالق نے بنایا ایسا ہے کہ اس کے ہر ذرے ذرے کا اس کے توازن میں حصہ ہے تو جب ہم ایسا کررہے ہیں تو نتیجہ تو ظاہر ہے کیونکہ اس سے ایکو سسٹم تباہ ہورہا ہے اور حصول توانائی کے لئے جو کوئلہ ،گیس اور تیل کا استعمال ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ جو ہم گھاس پھوس کو جلاتے رہتے ہیں ایسے میں تو اگر درخت لگانے کا مہم چلا بھی تو اگر آلودگی پیدا کررہے ہیں ہر روز دس کروڑ ٹن۔ اور آپ کے درخت صاف کرتے ہیں ایک کروڑ یا دو کروڑ ٹن تو یہ آلودگی تو ان درختوں کو بھی مریض کردیتی ہے اور پھرو ہ بھی اپنا کام تو نہیں کرسکتی ۔یہ اتنا گھمبیر مسئلہ ہے صرف انسانوں کے لئے بھی نہیں اور صرف حیات کے لئے بھی نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پوری دنیا کے لئے اور اس میں موجود ہر قسم کی مخلوق کے لئے اور اس کے لئے جلدی سے بھی فوراً سوچنا نہیں قدم نہیں جمپ لگانے ہونگے اور وہ بھی لنگور کے جمپ یا چیتے کی جمپ ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔
ان جمپس میں سے فوری جمپ آبادی پر سوچنا ہے کہ آلودگی تو ایک طرف جو ہم دیکھ رہے ہیں کثرت آبادی کی وجہ سے لیکن ساتھ یہ بھی کہ مسائل وسائل سے حل ہوتے ہیں تو کثرت آبادی تو متضمن ہے کثرت مسائل کی جبکہ وسائل اس تعداد اور مقدار کے نہیں اور اس طرح بھوک اور محرومیوں سے تو صرف مادی اور طبیعیاتی آلودگی نہیں بلکہ دیگر بھی کئی انواع واقسام کی آلودگیاں پیدا ہورہی ہیں ،مختلف بیماریاں ایک آلودگی ہے تعلیم کا نہ ہونا ،دوسری آلودگی روزگار کا نہ ہونا ہے ،ایک اور آلودگی ہے اور ان سب کے نتیجے میں بد اخلاقی کی آلودگی زندہ انسانوں کے لئے سب سے بڑھ کر ہے جس میں فحاشی ،عریانی ،نشہ اور پھر یہی چیزیں معاشرہ میں جو حیوانیت اور درندگی اور فساد وخون خرابہ پیدا کردیتی ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں تو اللہ کی پناہ!اور اب کے تو فحاشی اور عریانی کے لئے جو ٹول ہے سوشل (نان سوشل او رگٹر)میڈیا تو آئے دن جو بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے یا کسی لڑکے لڑکی کے ساتھ زیادتی اور اجتماعی زیادتی ہوتی ہے ۔
تو ہم یہ جمپ لگائیں گے لیکن کب؟
جبکہ ابھی تو ہم نے اس پر سوچنا بھی شروع نہیں کیا ۔جمپ یا حتی کہ قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے اور یہ سارے معاملات بھی ایک دوسرے کے ساتھ نتھی اور پوری دنیا بھی آپس میں نتھی ہے ۔ایسے میں تھرڈ ورلڈ کی پسماندگی اور آلودگی کے اثرات سے ترقی یافتہ دنیا بھی بچ نہیں سکتی کہ پھیلنے والی آلودگی کے سامنے تو دیواریں نہیں لگائی جاسکتیں۔
اب اس کے لئے کرنا کیا ہے؟
تو بنیادی ،أساسی اور مختصر جواب یہ ہے کہ فطرت کے ساتھ کھلواڑ نہیں کھیلنا وگر نہ وہ تو انتقام لے گا
لاتبدیل لخلق اللہ
معنی ہے
لا تبدلوا خلق اللہ
خبر بمعنی الانشاء کہ خلق اللہ کو تبدیل نہ کرو۔
تو پہلے تو احوال وظروف کے مطابق آبادی پر نظر رکھنا ہے کیونکہ نہ تو آبادی کو بڑھانا دائمی امر ہے اور نہ اس کو گھٹانا۔بعض خطوں میں اس کو بڑھانا ضروری ہے اور کئی ایک خطوں میں اس کو کنٹرول کرنا لازمی ہے۔زرعی زمینوں پر شہر بسانا یا آبادیاں کرنا اس کو کنٹرول کرنا لازمی ہے۔خصوصاً ان پر بڑے بڑے گھر بسانا کہ کنالوں پر مشتمل ہو ۔پہلے سے موجودہ شہروں کو پھیلانا کوئی عقل مندی نہیں کہ اس کا انتظام وانصرام پھر مشکل ہوجاتا ہے امن وامان کی سہولیات کی فراہمی اور کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے شہر سے دور نئی آبادیاں بسانے کا کہا تھا۔پھر یہ کہ یہ بھی نہیں کہ پرانے شہر کے بغل میں یہ بسائے جائیں بلکہ ایک معتبر فاصلے پر ہو۔اور ساری زمینوں کو آباد بھی نہیں کرنا کہ بہت ساری Speciesصحراؤں میں رہتی ہیں اور ایکو سسٹم میں ان کا حصہ ہے۔اس طرح جوہڑوں کو بھی بھروانا نہیں کہ جوہڑ چھوڑنے ہیں ہر گاؤں اور ہر علاقے میں کہ بہت ساری Speciesکا یہی اوڑھنا بچھونا ہے ۔نیز یہ سیلاب کی روک تھام کے لئے بھی ضروری ہیں۔یعنی یہ سیلاب کو کنٹرول کرتی ہیں اس کے تیز بہاؤ کو آہستہ کردیتی ہے ۔سیلابی پانی کے قدرتی گزرگاہوں کو نہیں چھیڑنا حتی کہ ان کا رخ بھی تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرنا ۔وہ کسی بھی وقت واپس چڑھ دوڑتی ہیں اور پھر تباہی پھیلاتی ہیں کہ ایک تو ان گزرگاہوں میں آبادیاں ہوتی ہیں اور دوسرا یہ کہ انسان نے تو پوری قوت سے ان کا راستہ تبدیل کیا ہوتا ہے تو وہ جب ان رکاوٹوں کو توڑتی ہیں تو پورے زور اور قوت سے ان کو توڑتی ہیں ۔سیلابی گزرگاہوں کے کناروں پر ایسے پودے یا درخت لگانے ضروری ہیں جو سیلاب کے لئے رکاوٹ تو نہ بنیں البتہ زمینی کٹاؤ کو روک سکے اور ساتھ ساتھ وہ پلانٹس میں فضائی اور ہوائی آلودگی کی صفائی بھی کرتے ہیں لیکن یہ مدنظر ہو کہ آب وہوا اور ماحول کے مطابق درخت لگائے جائیں ۔اب جہاں پہلے سے انڈر گراونڈ واٹر لیول نیچے ہے وہاں پر لاچی،سپیدار اور سنبل لگانا تو بے وقوفی ہے کہ وہ تو ایک دن میں بیسیوں گیلن پانی پیتے ہیں تبھی تو جلدی کٹائی کے قابل ہوتے ہیں اور ہم بحیثیت قوم وقت لیے بغیر مادی فوائد حاصل کرنے کی بیماری میں مبتلا ہیں ان دی لانگ رن یہ تباہی ہے یہ تو زرخیز زمین کوبنجر کردیتا ہے ایسے درخت تو سیم زدہ زمین میں لگائے جائیں ۔لیکن عقل خدا کی دین ہے جو اس نے دنیا میں تو سب کو دیا ہے لیکن اس سے کام لینا تو چند فیصد لوگ لیتے ہیں ہم اسے صرف نہیں کرتے کہ شاید بعد میں کام آئے گا۔
کوئلہ،تیل اور گیس پر چلنے والی صنعتیں یا ان سے توانائی پیدا کرنا اس پر کنٹرول کرنا ہوگا تاآنکہ یہ مکمل ختم ہوں ۔جنگلا ت کے کٹاؤ پر مکمل پابندی لگانی ضروری ہے اور شجر کاری کا شعور دینا لازمی ہے ۔جہاں دریاؤں پر ڈیم بنانے ہوتے ہیں یا حتی کہ بارانی ڈیم بنانے ہوتے ہیں اول الذکر تو آب پاشی اور توانائی دونوں کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ثانی الذکر آب پاشی کے لئے نیز جو ہڑوں اور بارانی ڈیموں سے زیر زمین واٹر لیول بھی صحیح رہتا ہے تو ان ڈیموں سے نکلنے والا جو پانی ہے یعنی جو ان کی Capacityسے زیادہ ہے اس کے بہاؤ کا فطری راستہ تبدیل نہیں کرنا ہے نہ سارے پانی کو بند کرنا ہے کہ ایکو سسٹم ہے اور یہ سارے عالم کا ایک ہی ہے۔نیز مقبروں کے لئے بھی زرعی زمین مختص کرنا ٹھیک نہیں اس کے لئے کہیں غیر آباد بنجر زمین کا انتخاب لازمی ہے خصوصاً جہاں پتھریلی یامٹی کی پہاڑیاں ہوں وہ مناسب رہتی ہیں ۔نیز قبروں کی پختہ کاری کو بند کرنا چاہئے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہاں نئے دفن ہوسکیں ۔امام ابوداؤد ،امام مالک اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے قبر کھودنے والے سے کہا جس نے ہڈیاں نکالیں
لاتکسرہا فان کسرک ایاہ میتا ککسر ک ایاہ حیا ولکن دسہ فی جانب القبر
کہ اسے توڑو مت کہ تمہارا اس مردہ ہڈی کو توڑنا ایسا ہے جیساکہ اس کا زندہ توڑنا بلکہ اسے قبر کے ایک طرف میں چھپاؤ۔
اس طرح بہتے پانی میں آلودگی چھوڑنا تو شرعاً بھی جرم ہے حتی کہ رسول پاکﷺ نے تو کھڑے پانی میں جو کیڑے مکوڑوں ،پرندوں اور حیوانات کے استعمال کے قابل ہو اس میں بھی گندگی ڈالنے کو منع فرمایا
لایبولن احدکم فی الماء الراکد
ہرگز بول نہ کرے کوئی آپ میں سے کھڑے پانی میں۔
پھر علماء نے اس منع کی علت یہی امر مذکورہ قرار دیا ہے ۔
اب ہر بندہ تو ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے گھر کے گٹر کے سامنے پلانٹ لگاسکے یہ کام تو گورنمنٹ کی سطح پر ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے نہیں لازم اور ضروری ہے اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔
اس طرح کارخانے جو زہر اور کیمیکلز بہاتے رہتے ہیں حالانکہ ان کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ پلانٹ لگائیں گے۔ایسا نہ ہو کے ہم سب دریاؤں اور سمندروں کو زہر آلود کررہے ہیں وہاں کی لائف کو بھی ہم تباہ کررہے ہیں اور وہاں کی زہر آلودہ مچھلی وغیرہ کھاکے ہم خود بھی زہر کھارہے ہیں بلکہ وہاں کی اس ریت کے سے بھی کئی ایک بیماریاں لگتی رہتی ہیں۔
لیکن پتہ نہیں عقل کے باوجود انسانوں کی اکثریت بلکہ سارے اس دنیا کی تباہی پر کیوں لگے ہوئے ہیں۔ وہ بھی جو کرسکتے ہیں تو وہ کرتے نہیں اور جو نہیں کرسکتے وہ کیا کریں گے ۔تو اس تباہی میں اول الذکر کا کنٹری بیوشن ہے نہ کرنے کا اور موخر الذکر کا نہ کرسکنے کا اور یہ جرم انفرادی بھی ہے ہر فرد فرد کا، قومی بھی ہے، بین الاقوامی بھی ہے، ملکی بھی ہے اور عالمی بھی ہے کیونکہ یہ ایکو سسٹم کا معاملہ ہے ۔اس کو آپ آج کے کورونا وائرس جیسا سمجھیں کہ یہ عالمی مسئلہ اور معاملہ تھا اس لئے مالدار ممالک غریب ممالک کو ویکسین گفٹ کرتے رہتے ہیں کہ وہاں یہ رہے گا تو ہم بھی نہیں بچ سکتے ۔البتہ یہ ہے کہ یہ وائرس فوراً لگ جاتا ہے جبکہ یہ ایکو والا مسئلہ سلو پوائزنگ کی طرح ہے تو یہ تو اندر ہی اندر سے دھیرے دھیرے کھوکھلا کرتا رہتا ہے اور جب تک اثر کا پتہ چلے گا تو پھر مداوا ممکن ہی نہیں ہوگا۔
اب دنیا یہ کر کیوں رہی ہے؟
بغیر عواقب سوچنے کے صرف فوری طور پر مال کمانے کے لئے۔
1,095 total views, 4 views today