تحریر :ملک توصیف احمد
پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ 2021
صحافیوں کو قبضہ مافیا،ڈرگ مافیا کی جانب سے تشدد کا سامنا رہتا ہے بعض اوقات صحافیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے اور تو اور پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے بھی صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے صحافیوں کو مرعوب کرنے کے لیے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بھی بنائے جاتے ہیں صحافیوں کی فیملی کو بھی ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے چند روز قبل راقم کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا جس میں یکم دسمبر کو ایوانِ صدر میں “پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ 2021” کی منظوری کی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا صفحہ قرطاس پر بکھرے مسائل و مشکلات کا سامنا راقم کی فیملی نے بے شمار دفعہ کیا ہے ذہنی کوفت کے اس دور میں آپ کے بدخواہ بھی آپ کی مشکلات بڑھانے کے لئے میدان میں اتر آتے ہیں بے لگام سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے اور شعبہ صحافت کی “کالی بھیڑیں” بھی عام عوام میں منفی پروپیگنڈا شروع کر دیتی ہیں اور صحافی اپنے تحفظ اپنی فیملی کے لئے تنہا ہی پولیس انتظامیہ اور معاشرے کے ظلم و ستم کو سہتا ہے صحافی یا تو ان “مافیاز” کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر وہ انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے دونوں صورتوں میں اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے موجودہ حکومت نے “پروڈکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ 2021” کے ذریعے صحافیوں کو بلا خوف و خطر کسی دباؤ میں آئے بغیر آزادانہ طور پر باوقار صحافت کو فروغ دینے کے لیے قانون سازی کی ہے تاکہ صحافیوں کو غیر جانبدار ماحول مہیا کیا جا سکے جس میں حکومت صحافیوں کی مدد گار و معاون رہے اس کے لیے ایک “آزاد کمیشن” مقرر کیا گیا ہے جس میں 3خواتین کی نمائندگی بھی شامل ہے پاکستان بھر کے غیر جانبدار اور باشعور صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ اس بل کی منظوری سے صحافی جانی،مالی اور معاشی طور پر مستحکم ہوں گے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان آزادیِ صحافت پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور صحافت کو ملک کی ترقی میں بہتری کیلئے اہم جُز سمجھتے ہیں صحافیوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے خلاف صحافی عدالتوں کے چکر لگاتے تھے اب “آزاد کمیشن” کے قیام کے ذریعے بڑے سے بڑے طاقتور افراد کے مقابلے میں انتہائی کم وقت میں فوری انصاف کا حصول ممکن ہو سکے گا ظاہر سی بات ہے جہاں صحافیوں کو تحفظ میسر ہوگا وہیں صحافی اس کی زد میں بھی آئیں گے وہ کون آئینگے جو شہریوں کی “اُجلی پگڑیاں” اچھالتے ہیں- غلط اور بے بنیاد خبریں الیکشن کے دنوں میں منظرِ عام پر آتی ہیں “فیک خبروں” کو بند ہوں اور صاف ستھری صحافت کو معاشرے میں “پنپنا” چاہیے صحافی کو اپنے ذرائع کا دفاع کرنے کا حق اُسی طرح برقرار ہے حکومت ملک کو ذمہ دار صحافت کی طرف لے جا رہی ہے صحافیوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی جاتی ہے اور صحافی حکومت کو مختلف خرابیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور حکومت صحافیوں کی تنقید کا تعمیری پہلو دیکھ کر اس پر غور و فکر کرتی ہے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کے مسائل کی نشاندہی بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو ہر شہری کی زندگی کا تحفظ ہونا چاہیے مگر صحافی کا تحفظ اس لیے ضروری ہے کہ وہ سفید جھنڈے تلے یعنی گولیوں میں بھی اپنی صحافتی ڈیوٹی زندگی کو خطرے میں ڈال کر انجام دے رہا ہوتا ہے اس کے لیے حکومت نے “میڈیا ہاؤسز” کو پابند کیا ہے کہ وہ میڈیا ورکرز کی لائف انشورنس کو یقینی بنائیں اس بل کی منظوری سے میڈیا مالکان اور حکومت کی ذمہ داری بڑھی ہے ورکر صحافیوں کو اس ایکٹ کی منظوری پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے اس کی مخالفت ایسے ہی ہے جیسے حکومت کی جانب سے صنعت کاروں کو ٹیکس جمع کروانے پر زور دیا جاتا ہے جو کہ صنعتکار بڑی تعداد میں ٹیکس چور اور ٹیکس نادہندہ ہیں اور اپنی آمدن بھی کم ظاہر کرتے ہیں ٹیکس کی مکمل ادائیگی سے بچنے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور جب حکومت ان سے آمدن کے مطابق ٹیکس وصول کرنے کے لیے شکنجہ تیار کرتی ہے تاکہ ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے تو یہ لوگ مصنوعی بحران پیدا کر کے مزدورں کو حکومت کے خلاف اُکساتے ہیں اور سڑکوں پر نکالتے ہیں حالانکہ ٹیکس وصولی سے حکومتی خزانہ مستحکم ہوتا ہے جس کا فائدہ براہ راست عام آدمی اور مزدوروں تک پہنچتا ہے پھر بھی وہ استعمال ہو رہے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح قلم کے مزدور اکثر اوقات میڈیا مالکان کی “خوشنودی” حاصل کرنے کے لیے اپنے ورکر صحافیوں کو استعمال کرتے ہیں اس بل کی منظوری سے نہ صرف کیمرہ مین اور اس کے صحافتی آلات کو تحفظ ملے گا بلکہ صحافیوں کے لیے حکومت کی جانب سے فلاحی اسکیمز سمیت میڈیا کے مالکان صحافیوں کی انشورنس اور تربیتی ورکشاپس کے انعقاد کے پابند ہوں گے اس بل کے خالق وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات نے 2018 میں اس پر ورکنگ شروع کی پھر انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کا قلمدان سونپ دیا گیا جس پر یہ بل التواء کا شکار رہا پھر ان کی وزارت اطلاعات و نشریات میں واپسی پر ازسرنو اس پر کام شروع کیا گیا کیونکہ صحافیوں کو تحفظ دینا انسانی حقوق میں شامل ہے اس لئے انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری بھی ان کی معاونت کررہی ہیں فواد چوہدری کا ماننا ہے کہ جو کام نہ ہو رہا ہو وہ شریں مزاری کے ذمہ لگا دیا جائے تو وہ برق رفتاری سے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے اس بل کی منظوری میں جہاں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اہم کردار ادا کیا وہیں وزیراعظم عمران خان کی خصوصی رہبری بھی شامل رہی ہے، شیریں مزاری نے بھی بڑے احسن طریقے سے اپنی ذمہ داری نبھائی مگر اس بل کو مرتب کر کے قانونی شکل میں لانے کا اصل سہرا فواد چوہدری کے سر پر ہے اور شعبہ صحافت سے ان کی معاونت صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(ورکرز) پرویز شوکت ،حامد میر،اظہر عباس،مظہر عباس ، رانا عظیم اور دیگر نامور صحافیوں نے کی ہے ۔
1,310 total views, 2 views today