قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ
ویسے تو ہمیشہ سے اکادکا علماء وقتاً فوقتاً شہید کرائے گئےہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حق اور دینِ حق کو زندہ وتابندہ رہنے کے لئے اہل علماء اور اہل تقویٰ کے پاک خون کی ضرورت رہتی ہے ۔جنرل ایوب کے دور میں بھی شاید ایسا ہوا ہو ،بھٹو صاحب کے دور میں
بھی ایساہوا ہے لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور سے جو سلسلہ چل پڑا ہے اس میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا جارہا ہے اور بظاہر تو اس کا کوئی فوری تدارک کا حیلہ نظر نہیں آرہا ۔
یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟
یا تو اس وجہ سے ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ حق اور دین حق کو پہلے سے زیادہ اس پاک خون کی ضرورت ہے اس لئے کہ حق اور دین حق کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں داخلی بھی اور خارجی بھی بلکہ یہ داخلی سازشیں خارجی سازشیوں کے تحریک وایماء پر بلکہ ان کو خوش کرنے ،ان سے شاباش اور تائید حاصل کرنے یا ان سے بھیک مانگنےکے خاطر ہوتی رہتی ہیں کہ ہماری حکومت کو قائم رہنے دو یا ہمارے کچکول میں کچھ ڈال دو کہ آپ کے ایجنڈے کو عملی کرنے کے لئے تو ہم اپنے أساسی نظریے کی محافظین کا بھی بے دریغ خون کررہے ہیں جو ہمارے دین کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں ،دینی تعلیمات کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں ،دینی نظریہ ،تعلیمات اور شعائر کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں،داڑھی ،پگڑی ،مسجد اور مدرسہ کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں اور وہ لوگ اپنی اس مظلومیت کے باوجود پھر بھی نہ تو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں نہ ملک اور اس کے دستور سے بغاوت کرتے ہیں اور نہ بندوق اٹھاتے ہیں ۔وہ پھر بھی اس ملک کے آئین ودستور کے اندر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔سو اگر یہ خون اس آب یاری کے لئے بہایا جارہا ہے یا بہ رہا ہے تو اس حد تک تو ان شہداء کے لئے باعث تبریک ہے تاکہ یہ حق مرجھا نہ جائے ۔
لیکن اس کے مرجھانے کا باعث کیا ہے؟
یا کون ہیں جو اسے مرجھانے پر تلے ہوئے ہیں؟
تو اگر اس آبیاری کو اس دین کی آب یاری کی نسبت سے دیکھا جائے تو دفع مضرت ہے کہ اس سے دفع مضرت ہوتا ہے لیکن جو اس مضرت کے باعث بنے ہوئے ہیں آخر وہ ہاتھ کیوں معلوم نہیں ہوتے کہ ان ہاتھوں کو روکا تو کیا کاٹا جائے تاکہ نہ دین مرجھائے اور نہ اس کو زندہ وتابندہ رکھنے کے لئے اس خون بہانے کی ضرورت پڑے۔
کہیں یہ مرجھانا ان ہاتھوں کی وجہ سے تو نہیں جو یا ریاست کہلاتے ہیں یا حکومت کہلاتے ہیں؟
تو ان دونوں کو تو اس کا محافظ بننا ہے ۔اس کو تروتازہ اور محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ان کی ہےکہ وہ اس کی باڑ ہے ۔کہیں باڑ تو فصل پر یلغار نہیں کررہا اور اگر کررہا ہے تو کیوں کررہا ہے؟کبھی کبھار انسانی بدن کے خلیات جو اس کی زندگی کا سبب اور محافظ ہوتے ہیں وہ پاگل ہوکر ایک دوسرے پر یلغار شروع کردیتے ہیں یعنی خود کو کھانا شروع کرتے ہیں پھر ان کا علاج کیا جاتا ہے تاکہ وہ واپس Senseاور ہوش میں آجائیں کہ ارے یہ کیا ہوا خود کو کھارہے ہو؟ایسے میں تو تم خود بھی نہیں رہوگے ۔کیا کوئی آئس کا نشہ کرچکے ہو جو ایسا کررہے ہو؟یعنی ایسے میں تو ریاست اور حکومت کی بیماری پر توجہ دینی ہوگی تاکہ وہ ہوش میں آجائیں ۔
لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ مسئلہ آپ نے پیدا کیا ہے اور آب یاری کے لئے بھی آپ ہی ان اہل علم وتقوی کا خون کررہے ہو ۔اس سے وقتی طور پر تو شاید آپ کی دنیاتھوڑی بہت آباد ہو وہ بھی عارضی اور ظاہری طور پر ۔لیکن آخرت کو تو آپ نے اپنے لئے جہنم بناہی دیا ۔تو کیا تمہارا عقیدہ نہیں خدا پر ،آخرت پر ؟اگر نہیں تو اسے ظاہر کرو کہ پھر تو ڈیلنگ مختلف طریقوں سے ہوگی لیکن اگر یہ عقیدہ رکھتے ہو تو
الم یان للذین آمنوا ان تخشع قلوبہم لذکراللہ وما نزل من الحق ولا یکونواکالذین اوتوالکتاب من قبل افطال علیہم الامد فقست قلوبہم وکثیرا منہم فاسقون(الحدید)
کیا ابھی تک وقت نہیں آیا ان لوگوں پر جو ایمان لاچکے ہیں کہ سرنگون ہو ں ان کےدل اللہ کو یاد رکھنے اور اس چیز کے لئے جو نازل ہوا ہے یعنی حق اور نہ ہوں ان لوگوں کی طرح جن کو کتاب دی گئی تھی تو کیا ان پر مدت طویل ہوگئی ہے سو ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور اکثر ان میں فاسق(مسلّمہ حدود سے نکلے ہوئے)ہیں۔
اہل کتاب کیا ہوئے تھے ؟
یہی کہ حق کی بات کہنے والوں کو قتل کیا کرتے تھے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔لیکن یہاں تو ایسا ممکن اس لئے نہیں کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں اورا ٓپ کا دین اور ا سکی طرف دعوت دینے والے تو تاقیامت باقی رہیں گے ۔تو یہ جو شیطانی کارگزاری ہے اہل حق کو قتل کرنے کی اس سے ان کا کام تو نہیں بننے والا ۔البتہ یہ کام کرنے والے شیطانت میں اپنی سیٹ پکی کروارہے ہیں اور یہ گاڑی تو سیدھی جہنم میں جانے والی ہے۔
اور یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ ان قاتلوں کو یہ بات تجربات ومشاہدات سے معلوم ہوچکی ہے کہ یہ مذہبی لوگ چاہے ہم ان کے ساتھ جو بھی کریں ایک تو یہ ملک وملت سے غدر نہیں کریں گے، یہ امن وامان کے لئے بھی خطرہ نہیں بنیں گے ،بندوق بھی نہیں اٹھائیں گے بلکہ آئین ودستور کے اندر رہ کر اپنا احتجاج کریں گے اور آپ سے ان کی توقع نہیں رہے گی کہ آپ انہیں انصاف دے سکیں گے اس لئے کہ مجرم تو قاضی نہیں بن سکتا۔
؎ میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جن کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
تو ظاہر بات ہے وہ خدا کو آواز دیں گے اور اس سے بہت ڈرنا چاہئے کہ
؎ خدادیر گیرد اما سخت گیرد
خدا دیر سے پکڑتا ہے لیکن پھرپکڑنا بہت سخت ہے۔
ان اخذہ الیم شدید
یقیناً اس کی گرفت بہت دردناک اور بہت سخت ہے۔
دردناک ایسی کہ ہر جوڑ جوڑ کراہتا رہے اور سخت ایسی کہ ساری دنیا ایک ہو کر بھی پھر اس کی گرفت سے چھڑا نہیں سکتا۔
اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
‘‘اس بندے کے ساتھ کبھی زیادتی نہ کرو جس کا کہ خدا کے سوا کوئی بھی نہ ہو۔’’
اس لئے کہ وہ تو صرف خدا کو پکارتا ہے اور خدا کی ذاتی صفت ہے
وہو علی کل شئی قدیر
کہ وہ
ہو القاہر فوق عبادہ
کہ وہ تو کسی کے مقابلے میں بھی کمزور نہیں۔
؎ نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
ان درویشوں کی آہیں اوپر جاجاکر ملأ اعلیٰ میں جمع ہوا کرتی ہیں اور قضاء وقدر کے فیصلے کے مطابق یک جا ہوکر جب ایک ٹھوس شکل اختیار کرجاتی ہے تو پھر قہر خداوندی بن کر ظالموں پر آگرتا ہے اور پھر تاریخ نے دیکھا ہے کہ
وجعلناہم احادیث ومز قناہم کل ممزق ان فی ذالک لآیات لکل صبار شکور(سبا)
سو بنا یا ہم نے ان کو صرف قصے کہانیاں اور ہم نے ان کو مکمل طور پر ریزہ ریزہ کردیا یقیناً اس میں عبرت کی نشانیاں ہیں صحیح عقیدے پر قائم رہنے والے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے والے کے لئے۔
اور پیچھے فرمایا
ولقد صدق علیہم ابلیس ظنہ
اور یقیناً ابلیس نے ان پر اپنے گمان کو سچا کردیا۔
یعنی وہ ان سے جو کچھ کرنا چاہتا تھا اور ان کا جو حشر کروانا چاہتا تھا وہ کرہی دیا۔
اب قاتلین کا یہ سوچ کہ چلو چند دن احتجاج کرکے اور
‘‘ظالموں جواب دو خون کا حساب دو ’’
کے نعرے لگاکے خاموش ہوجائیں گے لیکن طبیعیات کا بھی اصول ہے کہ کوئی بھی عمل بغیر نتیجہ کے نہیں ہوتا۔مجازاۃ اور Recompenseبھی طبیعیات کا تقاضا ہے۔
سو یہ مظلومانہ قتل غمزدوں کی آہیں ،چیخیں اور نعرے بھی طبیعی نتائج لاکر رہیں گے۔ یہ بالکل منطقی اور سائنسی مسئلہ ہے تو وہ خاموش تو ہوجائیں گے لیکن جنہوں نے یہ جرم کیے ہیں ،جنہوں نے سازش کی ہے، جنہوں نے اس ظلم کو سپورٹ کیا ہے اور جنہوں نے مظلومین کی آہوں اور چیخ وپکار پر چپ سادھ کیا ہوا ہے اور جن کا کام تھا تحفظ دینا اور انہوں نے نہیں دیا یہ سارے اس ظلم کے سٹیک ہولڈرز ہیں اور ملأ اعلیٰ سے قہر خداوندی بن کر ان سب پر کسی نہ کسی صورت آگرے گا ۔کوئی ذلیل ہوکے رہے گا ،کسی کو جوان اولاد کا دکھ دیا جائے گا یا ان کی جوانی کی طبعی موت یا حادثاتی موت یا ان کے معذور واپاہج ہونے کی صورت میں یا نشہ یا دیگر قسم کی بد اعمالیوں میں لگ کے ذلت ورسوائی کا سامان بننے کی صورت میں ان کا مجازاۃ تو ہوکے رہے گا۔
اب ریاست یا حکومت یہ کرتی کیوں ہیں؟
یا وہ اپنے شہریوں کو تحفظ کیوں نہیں دے سکتی؟
اس لئے کہ یا تو فرائض کی بجا آوری ان کی ترجیح نہیں رہی جو ملکی اور ملی خیانت ہے یا اگر انہوں نے کیا ہے تو کسی عارضی اور فوری فائدےکے لئے ۔اور ہر دو صورتوں میں یہی کافی سبب ہے قہر خداوندی کے لئے۔اور خدا نہ کرے لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ حکومت تو درکنار ریاست پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے بلکہ ریاست پر بد اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے اور جس بھی ریاست پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے یا بداعتمادی پیدا ہوجاتی ہے تو پھر اس کی بقاء ناممکن ہوجاتی ہے ولا فعلہا اللہ۔
لیکن صرف دعاؤں سے تو ہم طبیعیات کے نتائج کو رکوا نہیں سکتے ۔اس اضطراب افراتفری اور فساد کے ماحول نے کتنے انسانوں کو مروایا ،نہتے مسلمانوں کو مروایا اور پھر کتنے اہل دین اور علماء کو مروایا گیا شمار نہیں کیے جاسکتے ۔اور اہل اقتدار جن میں ریاست اور حکومت دونوں شامل ہیں ان کا یہ کہنا کہ ہمسایہ ملک نے کیا یہ تو اعتراف ہے اپنی ناکامی کا کہ ہم اپنے شہریوں کا تحفظ نہیں کرپائے جبکہ ریاست اور حکومت کی أساسی ذمہ داریوں میں سےا یک اہم یہ ہے کہ داخلی خلفشار اور اضطراب یا فتنوں کا تدارک کریں اور باہر کے یلغار اور سازشوں کا تدارک کیا کریں۔
دوسری جانب قوم ہے جو مذہبی اور غیر مذہبی میں تقسیم ہوئی ہے حالانکہ سب مسلمان ہیں ۔پھر اسکے بعد جو غیر مذہبی کہلاتے ہیں وہ بھی سیکولرز اور لبرلز میں تقسیم ہوتے ہیں ۔پھر وہ بھی سوشل ڈیموکریٹس اور نیشنل ڈیموکریٹس میں تقسیم ہیں ۔اور جو مذہبی ہیں وہ بھی اولاً توشیعہ ،سنی میں پھر دیوبندی ،بریلوی اور اہل حدیث میں تقسیم ہوئے ہیں یا کرائے گئے ہیں اور پھر شیعوں کو بھی مختلف ذیلی فرقوں میں تقسیم کرایا گیا ہے اور یہی حال دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث کا بھی ہے اور یوں علیحدہ علیحدہ ان کو مروایا جاتا ہے تو وہ جانے اور اس کا وہ محدود فرقہ جانے ۔اوروں کو وقتی طور پر ایک طرف رکھتے ہیں دیوبندیوں کے دسیوں گروپس مختلف حوالوں اور ناموں سے بنےہیں کیوں؟ہمارے خیال میں تو سوائے لیڈر شپ کی چاہت اور مفادات کے علاوہ شاید کوئی اور باعث ہو۔کبھی کبھار کوئی حقیقی مسئلہ تقسیم کا باعث ہوجاتا ہے مثلاً جمعیۃ علماء ہند ایک جماعت بنی دیوبندیوں کی جو تقسیم ہندوستان کی مخالف رہی سو تقسیم کے حوالے سے ایک Sectبناجمعیۃ علماء اسلام کے نام سے ۔کافی حد تک یہ ایک حقیقی ،واقعی اور معروضی مسئلہ تھا اور ہر دو میں سے کسی کی نیت پر شبہ کا کوئی وجہ نہیں کہ دونوں طرف اہل علم وتقویٰ ،خدا ترس علماء اور جبال العلم تھے جن کے دامن پر تو کبھی کسی ذاتی مفاد کا داغ ہی نہیں لگا ۔حضرت مدنی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اپنے مؤقف میں میں اپنے بھائی شبیر احمد عثمانی ؒ کو اتنا ہی مخلص سمجھتا ہوں جتنا کہ اپنے موقف میں خود کو اور اپنے ساتھیوں کو بلکہ شاید اس کو کچھ زیادہ۔ لیکن میری رائے دوسری ہے اور میں اسی میں خیر محسوس کرتا ہوں ۔لیکن بعد میں خصوصاً پاکستان میں ہم نے دیوبندیت کا جو حشر کیا ہے کتنے گروہ ہیں اور کس کس نام سے ہیں کس کس عنوان سے ہیں ۔اب ان میں سے کسی گروہ کے کسی بندے کو مارا جاتا ہے تو اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیاہم کہہ سکتے ہیں کہ اس پر میں اتنا دکھا ہوں جتنا کہ اپنے گروہ کے کسی عالم کے قتل پر؟اگرکوئی اس کا جواب ہاں میں دیتا ہے تو یہ صحیح نہیں یہ خود کو بھی دھوکہ ہے اور اوروں کو بھی دھوکا ہے اور یہ جھوٹ بول کر ہم خدا اور رسولؐ کو بھی دھوکہ دینے کی سعی نامشکور کررہے ہیں اور خمیازہ تو بھگتنا ہے یہاں بھی اور آخرت میں بھی ۔بلکہ اپنے ہی مسلک کے کسی دوسرے گروہ کے بندے کی حتی کہ قتل ہونے کے بعد بھی نجی مجالس میں ہم جو مذاق اڑاتے ہیں تو اللہ کی پناہ۱اور سٹیج پر پھر دوغلا پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہمارے خیال میں تو اب وقت آیا ہے کہ دین کا نام لینے والے سارے کے سارے مسالک والے اس اصل دین کی حفاظت کے لئے یک جان ،یک ہمان،یکسان اور یک آواز ہوں ورنہ یک بہ یک مارے جائیں گے اور‘‘ ظالموں جواب دو خون کا حساب دو’’ کا نعرہ چند دن لگایا جائے گا اور اغیار اپنے کارندوں کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہیں گے کبھی ایک کو شہ دے کر اور کبھی دوسرے کو شہ دے کر۔تو تعصبات اور نفرتوں کو ختم کرنا ہوگا ۔ورنہ نقصان سب کا ہوگا صرف یہ نہیں کہ مارے جائیں گے دین کی آواز کو کمزور کیا جائے گا اور دین کی آواز کی کمزوری تو ان سب کی کمزوری ہےچاہے اہل حدیث ہوں ،بریلوی ہوں یاکہ دیوبندی ہوں یا حتی کہ معتدل قسم کے اہل تشیع ہو ں جو رسول پاکﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی توہین بھی نہیں کرتے اور تکفیر بھی نہیں کرتے۔اور یہ کام کوئی ناممکن نہیں ہم تو خود ایسی تحریکوں کا حصہ رہے ہیں جو دین کے کسی جزئی تصور کے تحفظ کے لئے چلی ہیں مثلاً ختم نبوت جو جزئی اس معنی میں ہے کہ منجملہ معتقدات کے ہے اگر چہ اپنے تئیں ایک أساسی اصل بھی ہے کہ سارے یک جان دو قالب ہوچکے تھے تو کامیابی ملی اور داخلی وخارجی ایجنٹان شیطان سارے ناکام ہوئے اور ا س فکر کے سامنے سرنگوں کرگئے ۔تو کیا کل دین کے لئے ہم اکٹھے نہیں ہوسکتے؟ جبکہ اب نفاذ سے زیادہ اہم اس کا تحفظ ہے ورنہ دشمنان اسلام جو قوت میں بھی ہیں وہ تو اپنی تصور جمہوریت کے أساس پر مسلمانوں سے یکے بعد دیگرے ساری دنیا کے ساتھ چلنے کا نام پراسلام کے بہت سارےا حکام سے دست بردار کروانے پر لگے ہوئے ہیں اور عرب ممالک سے اس قسم کی خبریں روزمرہ کی بنیاد پر آنا شروع ہوچکی ہیں ۔اب وہ جولمبی لمبی عبائیں پہنے اور کبیض الحمامات داڑھیاں رکھنے ہوئے ہیں سر پر قطرے رکھتے ہیں جو کہ وہاں معززین اور اہل دین کا حلیہ تصور ہوتا ہے اگر وہ لیٹنا شروع ہوچکے ہیں تو
؎ قیاس کن زگلستان من بہار مرا
ہم تقسیم ہوکے کتنے ٹھہر سکیں گے جبکہ ان کے ہاتھ میں تو حکومت بھی ہے جبکہ ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہاں ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں خوب لگے ہیں۔بریلوی ،دیوبندی اہل حدیث تو ایک طرف خود دیوبندیوں کے دسیوں گروہ ۔اور ہم اس پر خوش ہیں کہ ایک دو مسئلے پلے باندھ کر کچھ گروپ بھی بن چکا ہے جو میری امامت پر اتفاق کرچکے ہیں اور یوں نفس کو تسکین بھی ہوتی ہے اور ایک قسم کا اقتدار اور ساتھ ساتھ کچھ مال بھی ملتا رہتا ہے اور یہی وہ دو چیزیں ہیں جو بقول رسول پاکﷺ
‘‘بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے لئے دو بھوکے بھیڑیوں سے زیادہ خطرناک ہیں مسلمان کی دین کے لئے۔’’(رواہ الدیلمی)
اور تقسیم در تقسیم یا کوئی لیڈر نہ ہونے کا خمیازہ پھر ساری امت کو بھگتنا پڑتا ہے کہ عوام از خود نکل آتے ہیں مختلف ایشوز پر۔جو جذباتی ہوتے ہیں اور کئی ایک معاملات پر جذباتی ہونا تو مضر بھی ہے خصوصاً عوام کا جو مسلمان بھی ہیں ،عقیدہ بھی رکھتے ہیں اور عقیدت بھی رکھتے ہیں اور ان کے کنٹرول کرنے کے لئے کوئی ایسا بندہ نہیں ہوتا جو ان کو کنٹرول کرسکے کہ کنٹرول کرنے کے لئے اس بندے پر اتحاد ہونا بھی لازمی ہے ورنہ جذباتی ماحول میں تو اس الزام کے لگنے دیر نہیں لگتا کہ پیسے لیے ہیں اور یوں بد نظمی اور فساد کی صورت میں اسلام دشمنوں کو پروپیگنڈہ کا ہتھیار ہاتھ آجاتا ہے کہ دیکھو یہ مسلمان ہیں جو تخریب کارہیں ،دہشت گرد ہیں ،قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور یوں ہم ان کو یہ ہتھیار دینے کا باعث بنتے ہیں مثلاً کبھی کبھار جب رسول پاکﷺ یا شعائر اسلام کی توہین ہوتی ہے ،قرآن کریم کی توہین ہوتی ہے تو مسلمان بالخصوص اہل پاکستان آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔باقی اسلامی ممالک میں ایسا بہت ہی کم ہوتا ہےاور اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید وہ اتنے جلد جذباتی نہیں ہوتے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہمارے خیال میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہاں کوئی لیڈرشپ موجود ہے جو ان کے جذبات واحساسات کی نمائندگی کرجاتے ہیں ۔ایسا بھی نہیں کہ ایسے معاملات میں مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے کئی سارے تحفظات ہوتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے ۔سو بات یہ ہے کہ وہاں بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے اتنی آزادی نہیں جتنی کہ پاکستان میں ہے اور یوں لوگ بغیر کسی لیڈر شپ کے بھی اس قسم کے حساس معاملات پر بہت جلد نکل آتے ہیں اور پھر وہ جو عقیدے اور عقیدت کے نام پر کرجاتے ہیں سرکاری املاک کو نقصان یا عام لوگوں کے املاک کو نقصان جو بھی شاید اتنے ہی دکھی ہوں گے جتنے یہ مظاہرین ۔اور یوں وہی بات کہ دشمنان اسلام کو پروپیگنڈے کا موقع مل جاتا ہے کہ دیکھو یہ اسلام ہے اور اس میں ان کے کارندے یعنی بزعم خویش لبرلز یا جدید لبرلز پیش پیش ہوتے ہیں کہ ان کو اپنا وظیفہ حلال کرنے کا موقع ملتا ہے ۔
اب جو چارسدہ کے علاقے میں قرآن کریم کے جلانے کا واقعہ ہوا ہے تو اول تو معلوم کرنا تھا کہ کیا وہ آدمی کہیں پاگل تو نہیں تو اس کی تو شرعی گرفت بھی نہیں اور اگر پاگل نہیں تو بھی یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا اس نے اگر جلایا تو توہین کے لئے جلایا ہے کیونکہ جو توہین کرتا ہے تو وہ اسے پبلک بھی کرواتا ہے یعنی اس کا دعوی بھی کرتا ہے کہ وہ دین سے نفرت کا اظہار کررہا ہے ۔تو اگر اس نے پبلک نہیں کیا تو پھر تو اظہار نہیں کیا نفرت کا ۔تو شاید اس نے کسی بوسیدہ نسخے کو شہید کرنے کی نیت سے جلایا ہو اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث جو امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے ‘‘باب جمع القرآن’’میں ۔اس میں ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جب مصحف کے نسخے مرتب کیے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ا سکا نسخہ جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا لکھا ہوا تھا واپس کردیا تو حضرت زید ؓ فرماتے ہیں
وامر مما سواہ من القرآن فی کل صحیفۃ او مصحف ان تحرق
کہ اس کے علاوہ کو جلانے کا حکم دیا۔
اکثررواۃ نے خاء معجمہ کے ساتھ نقل کیا ہے جس کا معنی ہے کہ اس کو پھاڑنے کا حکم دیا ۔علامہ مروزی ؒنے مہملہ کے ساتھ روایت کی ہے ۔ابن عتبہؒپ کے نزدیک مہملہ ہی اصح ہے کہ جلانے کا حکم دیا تھا ۔علامہ اصیلیؒ نے دونوں کا ذکر کیا المجمع میں ‘‘امر ان یحرق وروی بخاء معجمۃ’’یعنی دونوں کا ذکر ہے ۔تو شاید دونوں کا حکم دیا ہو کہ اسے پھاڑ کر جلاؤ۔
پھر جلانے کے حوالے سے بعض نے تاویل کی ہے کہ چونکہ وہ صحیفے منسوخ کے حکم میں ہوئے تو اس لئے جلانا جائز تھا یا وہ متلو نہیں رہا یا غیر قریش کے لغت پر تھا اور اب اجماع لغت قریش پر ہوا یا اس میں قراءات شاذہ بھی تھے تو جلانا جائز تھا ۔ابن قطالؒ نے ان کتابوں کے جلانے کو جائز قرار دیا ہے جس میں اللہ کا نام ہو۔عبدالرزاقؒ نے طاؤس کی سند سے ان خطوط کا جلانا صحیح قرار دیا ہے جس میں بسم اللہ ہو ۔عروہؒ نے ایسا کیا بھی تھا البتہ ابراہیم نخعیؒ اس کو مکروہ کہتے ہیں ۔قاضی عیاضؒ کہتے ہیں کہ انہوں نے اولاً اسے دھویا پھر جلایا ۔بعض نے کہا ہے کہ پھاڑ کے پھینکنا بھی خلاف ادب ہے کہ پاؤں تلے آئے گا جبکہ راکھ کا تو یہ حکم نہیں۔
جبکہ ہماری رائے یہ ہے کہ Shredder سے ریزہ ریزہ کرے پھر اسے ایسی زمین میں دفن کریں جہاں اسے دیمک کھاجائیں۔بہر حال شہید کرنے کے لئے جلانا بھی ہم صحیح نہیں سمجھتے لیکن وہاں پر لوگوں نے ساروں نے نہیں بعضوں نے کیا ہوگا جو املاک اور پولیس ،تھانے کو آگ لگائی اس سے کوئی اچھا پیغام نہیں گیا۔
اور بسا اوقات کچھ شر پسند شیطانت کے لئے ایسا کرجاتے ہیں تاکہ دشمنان دین کو موقع ملے
ولقد صدق علیہم ابلیس ظنہ
اور ابلیس تو ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتا ہے ۔تو کیا پولیس والے مسلمان نہیں تھے ؟کیا وہ توہین قرآن پر خوش تھے؟اور کیا یہ تھانہ اس بندے کا تھا یا یہ ایک مسلمان مملکت کی پراپرٹی تھی جسے جلایا گیا؟ اور کیا اس تھانے میں قرآن کریم کا نسخہ نہیں ہوگا جو بھی جل گیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سے نوازے اور نقل پر ایمان رکھنے کی توفیق دے آمین ۔
اور ابھی جو لاہور کے ایک حلقہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے حوالے سے ایک ویڈیو گردش میں ہے جس میں مبینہ طور پر قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر دو ہزار روپے فی ووٹ دیا جارہا ہے اور کہا گیا کہ یہ مسلم لیگ کا دفتر ہے اور و ہ یہ کررہے ہیں جبکہ مسلم لیگ نے کہا کہ پی پی نے یہ ڈرامہ مسلم لیگ کے خلاف رچایا ہے۔اب جس کسی نے بھی کیا ہمارے نزدیک ایسے گھٹیا کام کے لئے قرآن کریم کی عظمت کو پامال کرنا بہت بڑی توہین ہے۔الیکشن کمیشن اگر نوٹس لیتا ہے تو اس حوالے سے کہ ووٹوں کی خرید وفروخت غیر قانونی ہے یا مسلم لیگ والوں نے اگر کیا ہے یا پی پی نے کیا ہے جس کسی نے بھی کیا ہے اس پر تو ایک کڑی سزا توہین قرآن کی ہونی لازمی ہے یہ اللہ کی کتاب ہے کوئی کھلونا تو نہیں اور حیرت کی بات ہے کہ یہ سارے اس قرآن کے قانون کو ماننے اور اپنانے کے لئے توتیار نہیں اسے صرف برکت اور قسموں کے لئے رکھا ہے دنیوی مال ومتاع اور اقتدار کے کھیل کے لئے تو اس سے بڑھ کر توہین اور کیا ہوسکتی ہے ۔اگر توہین عدالت پر سوموٹو لیا جاسکتا ہے تو کیا قانون میں اس حوالے سے کسی سوموٹو کی گنجائش نہیں ۔پتہ نہیں ہم کتنے بے حیاء اور ڈھیٹ ہوچکے ہیں ۔
سو یہی وقت ہے کہ دین کا نام لینے والے ایک ہوجائیں ورنہ ایک گروہ کا کوئی بندہ مارا جائے گا تو دوسرے گروہ والے اگر اس کی موت کو اپنا فائدہ سمجھے گا تو ایسے میں وہ مرتے رہیں گے اور فائدہ کسی کا بھی نہیں ہوگا بلکہ صرف دشمنان دین کا فائدہ ہوگا کہ ان کے لئے سارے اہل دین اہل دین ہی ہیں ان کے لئے کوئی دیوبندی ،بریلوی ،اہل حدیث یا شیعہ نہیں وہ کسی کو بھی قتل کریں گے اور اس کو اپنا فائدہ سمجھیں گے بلکہ ہے بھی ان کا فائدہ کہ ان کے مقابلے کی ایک آواز ختم ہوگئی ۔اس کے لئے وہ کبھی ایک کوقریب کرتے ہیں کبھی دوسرے کو اور یہی ہماری ناسمجھی ہے ۔وہ کسی کے بھی نہیں صرف اپنے فائدے اور ایجنڈے کے ہیں۔
رہی یہ بات کہ یہ جہاد افغانستان کا نتیجہ ہے جو تاحال جاری ہے تو کیا پھر وہ نہیں کرنا چاہئے تھا جبکہ اس پر تو دنیا بھر کے اینٹلی جنس ایجنسیوں نے اپنی بھرپور تحقیقات کے پس منظر میں لکھا ہے کہ سوویت یونین کا عزم کیا تھا ۔اور اگر وہ عزم تھا جیسا کہ سوویت یونین کے زعماءنے بھی پھر تسلیم کیا تھا کہ ہاں ہمیں گرم پانیوں تک پہنچنا تھا لیکن اس کے لئے جنگ کا یہ راستہ اپنانا صحیح نہیں تھا بلکہ حکمت عملی سے آگے بڑھا چاہئے تھا جیسا کہ اب وہ سی پیک میں شامل ہونا چاہتےہیں بالکل اسی مقصد کے لئے ۔لیکن یہ ایک پرامن اور حکمت عملی والا طریقہ ہے ۔رہی بات امریکہ کے شامل ہونے کی تو انسان فطری طور پر اس کا متمنی ہوتا ہے کہ اس کا مخالف زیر ہوجائے اس کے لئے وہ سارے حربے استعمال کرتا رہتا ہے تو کولڈ وار کے حوالے سے سوویت یونین اس کا حریف تھا تو جہاں وہ پھنس گیا تھا سینگوں سے بارہ سنگھے کی طرح تو امریکہ نے اس کو چھڑانا تو نہیں تھا اس کو زیر کرنا تھا ۔اب سوویت یونین تو رہا نہیں ہاں اس کا خلیفہ روس موجود ہے لیکن اب تک تو حکمرانوں نے بھی کبھی روس کو متہم نہیں کیا کہ یہ قتل وغارت روس کررہا تھا کہ اس کو ذلت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور وہ اس جہاد کی وجہ سے ٹوٹا بھی تھا۔
ہمسایہ ملک ایسا کررہا ہے جو ریاست اور حکومت کا ایک پیٹنٹ بہانہ ہے جیسا کہ دہشت گردی کا ٹپہ ایک پیٹنٹ بہانہ ہے کہ اس طرح حکمرانوں کو نہ تفشیش کے مشاکل سے گزرنا پڑتا ہے نہ وہ ذمہ داری لیتے ہیں ۔لیکن کیا ایسا کرنے سے ان کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے ؟بالکل بھی نہیں ۔اس سے تو ان کے استحقاق پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ یہ تو اہلیت یا رکھتے نہیں یا پھر اہلیت کھو بیٹھے ہیں۔اور پھر کیا ہمسایہ ملک یہ کا م روس کے لئے کررہا ہے جبکہ اب کے وہ روس کے مقابلے میں امریکہ کے زیادہ قریب ہے یا پھر امریکہ کے لئے ایسا کررہا ہے یا خود اپنے لئے ایسا کررہا ہے تو جس کے لئے بھی کررہا ہے تو ریاست اور حکومت کی ایسے میں ذمہ داری کیا ہے ۔یعنی کسی بھی اہل دین کے قتل ہونے پر یہ کہنا کہ را ملوث ہے، سی آئی اے ملوث ہے یا موساد ملوث ہے وغیرہ وغیرہ۔تو بس وہ ذمہ داری سے عہدہ برا ہوگئے؟بس بندہ مرگیا اب آگے کسی اور کے قتل ہونے کا انتظار کرتے رہیئے کہ ریاست اور حکومت نے تو کچھ کرنا ہی نہیں وہ تو بس یہی پیٹنٹ بیان داغ دیں گے اور ان کا کام ہوگیا۔کہ بس یہ خاک نشینان کا خون تھا رزق خاک ہوا جبکہ کسی بھی انسان کا خون ناحق فساد فی الارض ہے اور پھر ایک اسلامی ملک میں مسلمان اور خاص کر اہل دین کا خون تو بہت بڑا فساد صرف اس حوالے سے نہیں کہ وہ قتل ہوا بلکہ اس حوالے سے کہ وہ کسی حد تک دین کا محافظ تھا جو اس ملک کا نظریہ ہے ۔تو گویا نظریاتی محافظ کا قتل ہوا اور جغرافیائی محافظ نے اس پر یہ بیان دیا کہ ہمسایہ ملک کی کارستانی ہے۔خداسے ڈرنا چاہئے قبل اس کے کہ دیر ہوجائے اور پھر ہم خود کو سنبھالا نہ دے سکیں گے۔دوغلے پن سے نکل آنا ضروری ہے ورنہ منافقت کو اللہ تعالیٰ برداشت نہیں کرتا ۔منافقین کو اللہ ذلیل ورسوا کرتا ہے ۔ہم نہیں چاہتے ہم بحیثیت قوم ذلیل ورسوا ہوجائیں کہ ذلیل قوم کی پھر زندگی کیا زندگی ہوگی ۔اس سے تو موت اچھی ہوتی ہے کیونکہ ذلت میں تو بندہ ہر منٹ میں مرتا رہتا ہے اور اس کا ضمیر اگر ہے اور زندہ بھی ہے وہ اسے کچوکے بھی لگاتا رہتا ہے اور بندہ ایک مسلسل عذاب سے گزرتا رہتا ہے ولا فعلہا اللہ۔
324 total views, 2 views today