تیئس فروری بروزِ اتوار میں اپنے پوتوں شوال، تنزیل اور مزمل اور پوتیوں شمال اور مروا کو ساتھ لے کر اپنے بیٹے ہمایون کی معیت میں عازم بونیر ہوا۔ بونیر وہ علاقہ ہے جس میں مجھے زندگی کا سب سے سنہرا دور گزارنا پڑا، میری مراد عمر کے اس حصے سے ہے جس میں انسان کے قوی مضبوط ہوتے ہیں اور وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ میں نے ہر قسم کے موسموں کی شدت اور حدت کا مقابلہ کیا۔ روزانہ میلوں پیدل چلنا پڑا۔ بونیر کی گرمی کی سختی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب میں جوڑ ڈگر روڈ کی اولین پختگی کی نگرانی کر رہا تھا، تو دھوپ کی شدت سے میرے ہونٹ پھٹ جاتے اور ان سے خون رسنے لگتا۔ اوپر سے رہی سہی کسر گرد و غبار پوری کرتا۔ شام کو میں نہانے کے لیے غسل خانے میں جاتا، تو پائپ سے اُبلتا ہوا پانی ہی نکلتا، جس کے ٹھنڈا ہونے تک مجھے گھنٹہ بھر سے زیادہ انتظار کرنا پڑتا۔ میں بونیر میں اپنی ملازمت کے پہلے سپل میں 1972ء سے 1984ء تک رہا اور اس دوران میں مختلف نوعیت کے ادوار سے گزرتا رہا۔ سختیاں بھی سہیں اور راحت کے دن بھی دیکھے، لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ رہی کہ میں گھر سے دور ہوتا چلا گیا اور ساری ذمے داری میری صابر و شکر گزار بیوی پر آن پڑی، جس نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت تن تنہا بہ طریق احسن پوری کی۔ بونیر ہی میں میری ملازمت کا دوسرا دورانیہ 1994ء سے 1998ء تک رہا۔ اس دور میں زیادہ تر بے کار ہی رہا۔ ایک آدھ سال چغرزئ کے پہاڑوں میں گزارا اور کلیاڑئ میں ایک بڑے پل کی تعمیری کام کی نگرانی کی۔ دراصل میری مزاج کی سختی کی وجہ سے ٹھیکے داروں کی یونین نے متفقہ طور پر میری نگرانی میں کام کرنے سے انکار کیا اور سب نے قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھایا تھا۔ اس تحریک کا کرتا دھرتا اس وقت کے یونین کا صدر اور ایک مستری تھا، جو سرکاری مشینری کی مرمت کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے ٹھیکے بھی لیا کرتا تھا۔ ایک واحد شخص جس نے اس قرارداد میں حصہ نہ لیا اور اُن کا ساتھ دینے سے انکار کیا، آج کل بڑے سیاسی لیڈر اور صوبائی وزیر ہیں۔ اُن کی استدلال یہ تھی کہ اگرہم خود صحیح کام کریں، تو فضل رازق ہمیں کیا نقصان پہنچاسکتا ہے۔ انھی کے تعاون سے میں نے چغرزئ کے ایک دشوار ترین پہاڑی سلسلے میں سڑک کا کچھ حصہ تعمیر کروایا۔ میرے دل میں آج تک ان مہربان شخصیت کا احترام ہے، میں نے اُن جیسا دیانت دار اور محنتی انسان نہیں دیکھا۔ اس کے ساتھ مذہبی احکامات کی پابندی گویا سونے پر سہاگا۔ اعلیٰ تعلیم کے حامل اور پختون روایات کے مجسم پیکر۔ خدا انھیں ہمیشہ با عزت مقام پر فائز رکھے۔
ہمارا بونیر جانے کا مقصد اپنے ایک پرانے کلاس فیلو سے ملنا تھا۔ جو 1960-59ء کے سیشن میں جہان زیب کالج میں میرے ساتھ تھے۔ میں نے اُن کا موبائل نمبر حاصل کیا تھا۔ اُسی پر اُن سے رابطہ کیا، تو انھوں نے کہا کہ وہ ایک جنازے پر گاؤں سے باہر جا رہے ہیں، مگر آپ لوگ آئیں۔ میرے بیٹے آپ لوگوں کا انتظار کریں گے۔ جب ہم وہاں پہنچے، تو اُن کے حجرے میں کچھ اور مہمان بھی تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اُن کے گھر میں کوئی عمرہ کرکے آئے ہیں اور لوگ اُن کو مبارک باد دینے آئے تھے۔ ہم کو بھی انھوں نے کھجور اور زم زم کا پانی پلایا۔ میں نے اشاروں اشاروں میں ان کو اپنی آمد کا مقصد بتایا، لیکن وہ لوگ بالکل لا تعلق سے رہے، تو ہم نے اُٹھ کر جانے کی اجازت مانگی۔ وہ ہمیں چھوڑنے کار تک آگئے اور یوں ہم واپس روانہ ہوگئے۔
دن کا تقریباً ایک بج رہا تھا اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ بچوں کو کسی گندے ہوٹل میں کھانا کھلائیں۔ کسی پرانے شناسا سے بھی ملاقات نہ ہوسکی اور ہم نے واپسی کا راستہ پکڑا۔ بچوں کو پھر گاؤں کے قریب ایک مچھلی ریسٹورانٹ میں کھانا کھلایا اور گھر آگئے۔
میرے اس آرٹیکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم بونیر سے بھوکے واپس آگئے اور ہمیں کسی نے کھانا نہیں کھلایا۔ دراصل بتانا یہ مقصود تھا کہ میں نے بونیر کو 1998ء میں جس حالت میں چھوڑا تھا، اس سے ہزار درجے بہتر پایا۔ گزشتہ دس سال میں عموماً اور ایم ایم اے کے پانچ سالہ دور حکومت میں ضلع بونیر کا نقشہ ہی بدل دیا گیا ہے، وہاں کی سڑکوں کی صورت حال ضلع سوات سے بہ درجہا بہتر ہے، ہم وار کشادہ اور آرام دہ ڈرائیونگ۔
میں نے اس سفر کے دوران میں بریکوٹ جوڑ پیربابا روڈ، پیربابا ڈگر روڈ اور ڈگر جوڑ روڈ کی جو کنڈیشن دیکھی، اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کشادگی، ہم واری، پختگی اور مستقل نگہ داشت قابل رشک ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ بونیر کے ان عوامی نمائندوں کو جاتا ہے، جو ایم ایم اے اور اے این پی کے دور میں بر سر اقتدار رہے۔
کمیونی کیشن کے علاوہ تعلیم، صحت اور دیگر سماجی شعبوں میں بونیر نے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں حیران کن ترقی کی ہے اور سوات کو کئی صدیاں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سوات کی سڑکوں کی زبوں حالی، تعلیمی اداروں کی بربادی اور عوامی نمائندوں کی غفلت نے اس خوب صورت وادی کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔
میں بونیر کے سیاسی راہ نماؤں کو سلام پیش کرتا ہوں، جنھوں نے اس پس ماندہ ضلع کو ترقی کے میدان میں سوات سے آگے لے جاکر عوامی خدمت کی مثال قائم کی اور ان کے طفیل میں اپنے اُس دوست کو معاف کرتا ہوں، جن کے ہاں سے ہم بھوکے واپس سوات آگئے۔
اس اُمید کے ساتھ کہ ایک دن اُن سے ضرور بالمشافہ ملاقات ہوگی، میں نے حتی المقدور دیانت داری سے اہل بونیر کی خدمت کی تھی۔ دو جوڑے کپڑے ساتھ لے کر چلا تھا اور تیرہ سال گزار کر انھی کپڑوں کے دو جوڑے لے کر واپس آیا تھا۔
1,254 total views, 2 views today