محمدجنید کا تعلق صوابی سے ہے۔ اس کے چھے بچے ہیں۔ دو بیٹے اور چار بیٹیاں۔ یہ نارمل زندگی گزار رہا تھا اور اپنے بچوں اور والدین کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہا تھا۔ پھر اچانک اس کی زندگی میں ایک موڑ آیا اور یہ بم ڈسپوزبل اسکواڈ میں بھرتی ہوا۔ اسی دن سے اس کی زندگی خطروں سے جڑ گئی۔ لیکن خطروں کے باوجود جنید پوری محنت اور لگن سے اپنی فرائض کی ادائیگی میں مصروف رہا اور لگن اور محنت سے حولدار بن گیا۔ اس نے اپنے یونٹ کے ساتھ مل کر بے شمار بم ناکارہ بنا دیے اور بے گناہ لوگوں کی جانیں بچائیں۔ ایک دن ایک اسکول میں رکھے گئے تین بم ناکارہ بنانے میں مصروف تھا کہ اس کی زد میں آگیا اور جام شہادت نوش کر گیا۔
جنید شہید کی بیوہ کی باتیں سن کر مجھے اگر ایک طرف دکھ ہورہا تھا، تو دوسری طرف عزم و ہمت اور حوصلے کی اس پیکر کو سلیوٹ کرنے پر مجبور ہوا۔ اس کی بیوہ کا کہنا تھا کہ اگر چہ وہ جوان عمر میں بیوہ بن گئی ہے اور اس کے خاوند نے اپنی جان کا نذرانہ تو دیا ہے، لیکن اس نے آٹھ سو بچوں کی ماؤں کی گود کو اجڑنے سے بچالیا جو کہ اُس کے لیے فخر کی بات ہے۔ ’’آج صرف میں رو رہی ہوں، لیکن آٹھ سو مائیں اپنے بچوں کے ساتھ سلامت زندگی گزار رہی ہیں۔‘‘
یہی نہیں اس کے معصوم بچے کی باتیں سن کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ وہ بچہ روز اپنے والد کا انتظارکرتا ہے، اس واقعہ کے بہت سارے پہلو ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ ایک عورت کے اندر اتنا حوصلہ اور ہمت چھپا ہوا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی شہادت پر فخر محسوس کرتی ہے کہ اس نے سیکڑوں لوگوں کی جان بچائی اور آٹھ سو ماؤں کی گود اُجڑنے سے بچ گئے۔ ایسا حوصلہ اور ہمت اس قوم میں ہے، تو یہ معاشرہ پرامن ہوگا اور ایک خوش حال معاشرہ بنے گا کیوں کہ
کھلیں گے پھول اس جگہ جدھر کہ تو شہید ہے
دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ واقعہ صرف جنید تک محدود نہیں۔ اب تو ہم ہزاروں قیمتی جانیں گنواچکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آخر کب تک ہماری قوم پر قربانیاں دیتے رہیں گے۔ کب تک ماؤں کی گود اجڑتی رہیں گی اور کب تک بوڑھے والدین جوان بچوں کی لاشوں کو کندھا دیتے رہیں گے۔ آخر کب تک۔۔۔؟ آخر کب تک ہم آپس میں لڑتے رہیں گے؟
ایک طرف تمام ہمسایہ ممالک اور ڈھیر سارے دوسرے ممالک ہمارے خلاف ہیں۔ وہ پاکستان کو کم زور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور دوسری طرف ہم اندرونی طور پر فرقوں اور گروپوں میں بٹ گئے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف مشت و گریباں ہیں۔ ہمارے اندرونی مسائل بات چیت سے حل ہونے چاہئیں۔ ہمیں سنجیدگی سے اور مذاکرات سے اپنے مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ اگر ہم اس طرح ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے اور اپنی اندرونی صفوں میں اتحاد پیدا نہ کیا، تو پھر اس ملک کی ترقی اور اس ملک کی خوش حالی اگر ناممکن نہیں، تو بہت زیادہ مشکل ضرور ہے۔ اگر ہماری جنگ اسی طرح جاری رہی اور اس طرح سڑکوں پر خون بہتا رہا، تو جب اس وطن کو خون کی ضرورت پڑجائے، جب اس مملکت کو جان کی ضرورت پڑے گی، تو ہم کہاں سے لائیں گے؟
ہمارا خون تو اپنوں ہی کی جنگ میں بہہ چکا ہوگا۔
بہالو خون سڑکوں پر مگر اتنا تو سوچ تم
وطن جب خون مانگے گا تمہارے پاس کیا ہوگا
اگر اس مملکت پاکستان کی ترقی چاہیے۔ اس وطن میں خوش حالی چاہیے، تواس کے لیے سب سے پہلا کام ’’امن‘‘ کا قیام ہے اور امن کے لیے مذاکرات اور بات چیت ضروری ہے، تو کیوں نا اپنے مسائل بات چیت سے حل کریں؟ کیوں کہ یہ ملک اب مزید جنگوں کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ یہ قوم مزید لاشیں اٹھاسکتی ہے۔
تو آؤ امن وآشتی کی طرف، کیوں کہ امن ہی بڑی ترقی ہے۔
1,669 total views, 2 views today